1988ء میں امریکہ اور سوویت یونین نے باہم مل کر افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا کا شیڈول طے کیا تو پاکستان سمیت کسی کو یقین نہ آیا، عالمی برادری حیران تھی کہ وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ میں سرخ ریچھ نے جہاں جہاں پنجے گاڑے، کہیں سے واپسی کا نام نہ لیا، آگے بڑھتا ہی چلا گیا۔ بھارت جیسے پاکستان دشمن ممالک کو امید تھی کہ کریملن کا اگلا پڑائو پاکستان ہوگا کہ گرم پانیوں تک رسائی زار روس سے لے کر برزنیف تک ہر حکمران کی دیرینہ خواہش رہی۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو نے کچھ امریکی دبائو، قدرے ضیاء مخالف سیاسی قوتوں کے مشورے اور ایک حد تک اپنی قوت منوانے کے شوق میں جنیوا معاہدے پر دستخط کئے تو نو سال سے افغان جنگ کے مختلف فریقوں کی سوچ، مسئلہ کی گہرائی اور افغانستان کی اندرونی سیاسی حرکیات سے آگاہ جنرل ضیاء الحق کو برسوں کی ریاضت اور قربانی سب رائیگاں جاتی نظر آئی، اسی احساس زیاں نے فوجی آمر کو جونیجو حکومت کی برطرفی پر اکسایا اور 1985ء میں انہوں نے جو تانا بانا بنا تھا 1988ء میں سارے کا سارا بکھیر دیا۔
جنرل ضیاء نے جونیجو حکومت کے خاتمے کے بعد عبوری حکومت تشکیل دی تو وزارت خارجہ کا قلمدان صاحبزادہ یعقوب خان نے سنبھالا۔ صاحبزادہ صاحب لاہور تشریف لائے اور انہوں نے سٹیٹ گیٹ ہائوس میں سینئر صحافیوں کو ظہرانے پر مدعو کیا۔ جو سینئر اخبار نویس اس بریفنگ میں مدعو تھے انہیں یاد ہوگا صاحبزادہ صاحب نے بے تکلفی سے اعتراف کیا کہ ہم نے عالمی برادری کے ساتھ مل کر سوویت یونین کی افغانستان سے غیر مشروط واپسی کا مطالبہ ضرور کیا، او آئی سی کی سطح پر چار نکاتی فارمولا بھی وضع کیا مگر امریکہ سمیت کسی کو یہ یقین ہرگز نہیں تھا کہ سوویت یونین کبھی افغانستان سے پسپائی، فوجی انخلا کی ذلت برداشت کرے گا۔ سوویت یونین اور امریکہ کے مابین انڈر سٹینڈنگ اور جنیوا معاہدے سے کئی ماہ قبل دسمبر 1987ء میں گلبدین حکمت یار نے البتہ "ایوان وقت" کی ایک نشست میں اشارۃً یہ بات کہی تھی مگر کسی کو افغان مجاہد کی بات پر یقین نہ آیا۔ افغانستان میں فوجی مداخلت کی سالگرہ کے موقع پر اس اخبار نویس نے ایوان وقت میں ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس کے مہمان خصوصی گلبدین حکمت یار تھے اور شرکاء میں قاضی حسین احمد مرحوم، میاں خورشید محمود قصوری، سید قسور گردیزی اور دیگر کئی پاکستانی سیاسی رہنما شریک تھے۔ غالباً سید قسور گردیزی کے ایک سوال کے جواب میں حکمت یار نے کہا کہ سوویت یونین، مجاہدین افغانستان سے باعزت اور محفوظ واپسی (safe exit) کی یقین دہانی چاہتا ہے مگر ہمارا مطالبہ ہے کہ پہلے قابل قبول حکومت کی تشکیل پھر باعزت واپسی کا اہتمام، حکمت یار کی بات پر قہقہہ بلند کرنے والوں میں وہ سب لوگ شامل تھے جوافغانستان سے پسپائی کرتے کرتے تقریباً ادھ موئے ہو چکے تھے۔
دونوں واقعات مجھے یوں یاد آئے کہ ان دنوں ہمارے حکمران اور فیصلہ ساز ایک بار پھر حیران و ششدر نظر آتے ہیں کہ دوسری سپر پاور امریکہ نے افغان طالبان سے معاہدہ کر کے اچانک بوریا بستر لپیٹا اور اشرف غنی حکومت سمیت کسی کو اعتماد میں نہیں لیا۔ یہ تک نہیں سوچا کہ نیٹو و امریکی فوج کی پسپائی اور انخلا کے بعد اس کے خودکاشتہ پودوں اور ہمسایہ حلیفوں کا کیا بنے گا۔ امریکی انخلا کے بعد افغان طالبان پہلے مختلف اضلاع کو کسی کشت و خون کے بغیر فتح کرتے چلے گئے اب صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے کی مہم جاری ہے۔ چھ صوبائی دارالحکومت سرنگوں ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا، معاہدہ توڑ کر امریکہ نے بی 52 طیاروں سے طالبان ٹھکانوں پر بمباری کی ہے مگر پینٹاگان نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اپنی فوجی چھائونیوں اور شہروں کا دفاع افغان حکومت اور نیشنل آرمی کو کرنا چاہیے، ہم زیادہ دیر تک ساتھ نہیں دے سکتے۔ پاکستان کی ہئیت مقتدرہ میں تشویش کا باعث دو معاملات ہیں، اولاً امریکہ، نیٹو اور یورپ کے حکمران و فوجی سربراہ اپنی بدترین شکست کا کوئی جواز اپنے ٹیکس دہندگان عوام کو پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ نتیجتاً پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے، دوسرے افغان طالبان کی عسکری پیش رفت سے پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں اور انہوں نے کارروائیاں تیز کردی ہیں۔ پاکستان کے فیصلہ ساز سمجھتے ہیں کہ موجودہ طالبان قیادت ماضی کی قیادت کے مقابلے میں زیادہ زیرک، معاملہ فہم، تجربہ کار، حاضر جواب، جدید تعلیم یافتہ اور عالمی تقاضوں سے آشنا ہے۔ امریکی نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے ایک محفل میں اعتراف کیا کہ جب دوحا معاہدے پر دستخط ہونے لگے تو افغان وفد کے ایک رکن نے امریکی ڈرافٹ میں جو انگریزی زبان میں تھا سات غلطیوں کی نشاندہی کی، جس پر مجھے شرمندگی ہوئی۔ پاکستان کے اعلیٰ سطحی وفد نے جب طالبان نمائندوں سے مطالبہ کیا کہ وہ کابل کی موجودہ انتظامیہ کے ساتھ اقتدار میں شریک ہوں یا ان کو اپنے ساتھ حکومت میں شامل کریں تو جواب ملا کہ پہلے آپ عمران خان کو قائل کریں کہ وہ میاں نوازشریف، میاں شہبازشریف اور آصف علی زرداری جبکہ جوبائیڈن ٹرمپ کو شریک اقتدار کریں پھر ہم بھی سوچیں گے۔ اس کے باوجود امریکہ اور عالمی برادری کا اصرار ہے کہ پاکستان طالبان کو اشرف غنی حکومت کے ساتھ شراکت اقتدار کے کسی فارمولے پر آمادہ کرے جو فی الحال ناممکن العمل کام ہے کہ طالبان فتح کے نشے سے سرشار ہیں، افغان عوام کھلے بازوئوں سے ان کا استقبال کر رہے ہیں اور اشرف غنی اپنی حکومت بچانے کے لیے افغانستان کو تباہ کرنے پر تلا ہے۔
اسلام آباد میں یہ تاثر پختہ ہورہا ہے کہ زبانی دعوئوں کے باوجود طالبان نے اگر بزور طاقت کابل پر قبضہ کرلیا تو صرف روس اور چین ہی نہیں امریکہ بھی ان کی حکومت کو تسلیم کر لے گا کہ اب امریکی زعما نجی ملاقاتوں میں اشرف غنی کو افغانستان کی خانہ جنگی اور بدامنی کا ذمہ دار قرار دینے لگے ہیں جبکہ طالبان بھی مائنس اشرف غنی باقی مقتدر افغان قیادت سے مفاہمت پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ افغان طالبان کو پاکستان کی طرف سے باور کرایا جارہا ہے کہ افغانستان کے طول و عرض میں موجود تحریک طالبان پاکستان کی پناہ گاہوں اور پاکستان میں کارروائیوں کا خاتمہ اب ان کی ذمہ داری ہے اور میری اطلاع کے مطابق افغان طالبان کی قیادت نے داسو سانحہ کے بعد ٹی ٹی پی کی گوشمالی کرتے ہوئے آئندہ منفی سرگرمیاں ترک کرنے کی وارننگ دی ہے جو پاکستان کے لیے حوصلہ افزا خبر ہے۔ چین کو بھی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ افغان سرزمین ایسٹ ترکستان موومنٹ کو استعمال نہیں کرنے دی جائے گی اور یہی ایک بات افغان طالبان کو چین کے قریب لا رہی ہے جس سے امریکہ برافروختہ ہے۔
ایران کے بارے میں اطلاع ہے کہ وہ ماضی کے برعکس افغان طالبان کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے اور روس بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ 1988ء میں ہم سوویت یونین کے یکطرفہ انخلا کا اندازہ نہیں کرسکے، کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا کرایا، 2020ء میں امریکی جلد بازی کے مضمرات نہ سمجھے اور پریشان ہیں، طالبان کابل کی طرف بڑھ رہے ہیں اب بھی اگر ہم امریکہ کی طرح یہی سمجھتے رہے کہ اشرف غنی اور افغان نیشنل آرمی طالبان کو روک سکتی ہے تو یہ تیسری غلطی ہوگی، ڈیڑھ لاکھ امریکی اور نیٹو فوج کو پسپا کرنے والے ننگے پائوں طالبان کٹھ پتلی حکومت اور کام چور، مفت خور اور عزم و جذبے سے عاری کرائے کے سپاہیوں سے رک جائیں، مشکل نظر آتا ہے، باقی مستقبل کا حال اللہ ہی جانے۔