چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں ناکامی کے بعد پی ڈی ایم کا مستقبل مخدوش ہے اور میاں نواز شریف و آصف علی زرداری کے مابین اعتبار و اعتماد کا بحران شدید۔"وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے" کے مشہور زمانہ قول کے خالق آصف علی زرداری کی زبان پر اعتبار کرنے سے پہلے میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے ماضی کا تلخ تجربہ بھلا دیا تو قصور وار وہ خود ہیں کوئی اور کیوں؟ جھوٹ اور فریب کا کاروبار کم و بیش سارے ہی سیاستدان کرتے ہیں، مانتا کوئی نہیں، آصف علی زرداری چھپاتے نہیں، زیادہ بدنام ہیں، ورنہ میاں نواز شریف کے کشتگان ستم کی تعداد زیادہ ہے۔ ایم کیو ایم، جماعت اسلامی ہم خیال گروپ، کس کس نے تحریری معاہدوں کی خلاف ورزی کا مزا نہیں چکھا، شریف خاندان سے قریبی تعلق رکھنے والے تو میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز سے کیے گئے وعدے و عید سے بھی واقف ہیں اور ان وعدوں کی مٹی پلید ہوتے دیکھ چکے، مسلم لیگ(ن) کو تازہ دھچکا سینٹ میں قائد حزب اختلاف کی نامزدگی کے حوالے سے پہنچا۔ پی ڈی ایم کے کسی اجلاس میں یہ طے پایا کہ چیئرمین سینٹ کا اُمیدوار پیپلز پارٹی سے ہو گا، ڈپٹی چیئرمین جمعیت علمائے اسلام سے جبکہ قائد حزب اختلاف کی نامزدگی مسلم لیگ ن کریگی، مگر گیلانی صاحب کی شکست کے بعد پیپلز پارٹی کا اصرار ہے کہ وہ سینٹ میں حزب اختلاف کی بڑی پارٹی کے طور پر قائد حزب اختلاف کے منصب کی حق دار ہے جس کا احترام اتحادی جماعتیں کریں، پارلیمانی روایات کے مطابق پیپلز پارٹی کا موقف درست ہے، اعظم نذیر تارڑ کے مقابلے میں گیلانی صاحب بڑے قد کاٹھ کے سیاستدان ہیں اور رضا ربانی کے جائز جانشین مگر مسلم لیگ ان سے ایفائے عہد چاہتی ہے جسے پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری ضروری نہیں سمجھتے۔
2013ء کے انتخابات سے قبل مسلم لیگ(ق) کے پارلیمانی گروپ میں اختلافات ابھرے اور دس بارہ ارکان اسمبلی نے جس میں حامد ناصر چٹھہ، خورشید محمود قصوری، سلیم سیف اللہ خان، ہمایوں اختر خان وغیرہ شامل تھے چودھری برادران سے الگ ہم خیال گروپ بنا کر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف سے مذاکرات شروع کر دیے، عمران خان نے ابتدا میں تو ہم خیال گروپ سے تبادلہ خیال کیا مگر پھر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ہم خیال گروپ سے اتحاد ضروری نہیں البتہ گروپ تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر سکتا ہے۔ خورشید محمود قصوری اور کچھ دوسرے لوگ ہم خیال گروپ کا مستقبل روشن نہ دیکھ کر تحریک انصاف میں چلے گئے مگر حامد ناصر چٹھہ اور ہمایوں اختر تگ و دو میں لگے رہے اور بالآخر ہمایوں اختر خان باقی ساتھیوں کو مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد پر قائل کرنے میں کامیاب رہے، حامد ناصر چٹھہ نے ایک اجلاس میں ہم خیال گروپ کو ماضی کے تجربات کا حوالہ دے کر بہت سمجھایا کہ تحریری معاہدے کی شکل میں بھی ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا مگر ہمایوں اختر خان کا خیال تھا کہ میاں صاحب نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہے اب وہ اپنے اتحادیوں سے دغا نہیں کریں گے، تحریری معاہدہ طے پایا۔ میاں صاحب نے حامد ناصر چٹھہ، سلیم سیف اللہ، ہمایوں اختر خان، میاں آصف اور کئی دیگر رہنمائوں کو اپنے حلقوں سے ٹکٹ دینے اور کامیاب کرانے کا وعدہ کیا اور میڈیا کے سامنے معاہدے پر دستخط ہو گئے، عام انتخابات کا اعلان ہوا تو معاہدے کی ایک ایک شق پر میاں صاحب اور ان کے ساتھیوں نے خط تنسیخ کھینچنا شروع کر دیا۔ حتیٰ کہ ہمایوں اختر اور حامد ناصر چٹھہ کے مقابلے میں بھی اُمیدواروں کا اعلان کر دیا گیا عذر یہ پیش کیا گیا کہ دل تو میرا بھی چاہتا ہے کہ آپ لوگ الیکشن لڑیں اور معاہدے کے مطابق ہم آپ کی حمایت کریں مگر حلقے کے کارکن نہیں مانتے مجبوری ہے، یوں ہم خیال گروپ تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو گیا۔
ڈان لیکس کے موقع پر وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے مابین متنازعہ ٹویٹ کی واپسی کے لئے زبانی وعدے و عید ہوئے، میاں صاحب نے اپنے بعض قریبی وزیروں، مشیروں کی برطرفی پر آمادگی ظاہر کی اور آئندہ اچھا بچّہ بنے رہنے کی یقین دہانی کرائی مگر دوسرے ہی روز آرمی چیف کو اس وقت حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب ملک کا وزیر اعظم اپنے قول و اقرار کو بھلا کر یہ بچگانہ ضد کرنے لگا کہ فلاں شخص کو ملازمت سے برطرف کر دیں، عمران خان میڈیا کے سامنے اختیار کئے گئے موقف کو تبدیل کرنے کے حق میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ بڑے لیڈر یوٹرن لیتے ہیں جبکہ آصف علی زرداری ذوالفقار علی بھٹو کے پیروکار ہیں لہٰذا وعدے تحریری ہوں یا زبانی، اُن سے مکرنے میں مضائقہ نہیں سمجھتے، بھٹو صاحب کے حوالے سے ایک واقعہ کراچی کے صحافی جلیس سلاسل نے بیان کیا ہے جو قائد عوام کے مزاج اور سیاستدان کے انداز فکر کا عکاس ہے، لکھتے ہیں "خان عبدالولی خان وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے مل کر سیدھے دفتر چٹان آغا شورش کاشمیری کے پاس پہنچے اور لب کشاہوئے، شورش تم تو کہتے ہو کہ نوابزادہ نصراللہ خان شریف آدمی ہیں جبکہ انہوں نے انتہائی کمینگی کا ثبوت دیا، وہ وزیر اعظم بھٹو سے ملاقات کے لئے گئے تو انہیں مشورہ دیا کہ "ولی خان کمیونسٹ اور ملک دشمن ہے اس کو بلوچستان کی حکومت مت دیں " آغا صاحب ہنسے اور کہا کہ آپ کو نوابزادہ کی بھٹو سے ملاقات کی تفصیل ان کے ساتھ جانے والا صحافی سنائے گا، نوابزادہ اور بھٹو کی ملاقات کا اہتمام کچھ اس طرح ہوا کہ وزیر اعظم ہائوس راولپنڈی سے نوابزادہ صاحب کو بھٹو کا فون گیا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں، براہ کرم راولپنڈی آجائیے۔ خان گڑھ میں مقیم نوابزادہ نے جواب دیا کہ مجھے راولپنڈی میں کوئی کام نہیں، ہاں دو روز بعد لاہور جانا ہے اگر آپ ملنا چاہتے ہیں تو لاہور تشریف لائیے۔ خیر وزیر اعظم لاہور پہنچے تو نوابزادہ صاحب کو مطلع کیا کہ میں گورنر ہائوس میں ہوں تشریف لائیے، نواب صاحب طے شدہ پروگرام کے مطابق گورنر ہائوس پہنچے، بھٹو نے نوابزادہ صاحب کی کار کا دروازہ کھولا، اندر لے گئے اور بیٹھتے ہی کہا کہ " آپ کا کیا خیال ہے ولی خان ملک دشمن اور کمیونسٹ ہے، اسے بلوچستان کی حکومت نہیں دینی چاہیے نا"؟ نوابزادہ نے کہا ولی خان کچھ بھی ہو اس نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے اسے سرحد اور بلوچستان میں حکومت بنانے کا حق دیں، جس کی دونوں صوبوں میں اکثریت ہے، ورنہ اس کا حال بھی مشرقی پاکستان جیسا ہو گا"نوابزادہ صاحب نے اتنا کہا اور لاٹھی ٹیکتے واپس چلے آئے، شورش صاحب نے ولی خان سے کہا حقیقت آپ کو بتا دی گئی ہے نوابزادہ اور بھٹو کے کردار کے بارے میں آسانی سے فیصلہ کر سکتے ہیں، اس پر ولی خان نے کہا میں سوچ بھی نہیں سکتا وزیر اعظم ہونے کے باوجود بھٹو اتنی بڑی غلط بیانی کر سکتا ہے جبکہ اسے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ دونوں سیاستدان اس ملک میں رہتے ہیں ان کی کسی وقت بھی ملاقات ہو سکتی ہے۔
میاں صاحب اور ان کے ساتھی خواہ مخواہ رنجیدہ ہیں، زرداری مسلم لیگ اور اُن کے ساتھ کئے گئے وعدوں کی اتنی ہی پاسداری کر رہے ہیں جتنی وہ خود اپنے اتحادیوں اور ساتھیوں کے ساتھ کرنے کے عادی ہیں، یہ صرف نواز شریف اور زرداری کا المیہ نہیں، باقی سیاستدان بھی الاّ ماشاء اللہ انہی کے ہم پیالہ و ہم نوالہ ہیں۔ چودھری برادران، سراج الحق اور ایک دو دیگر کو چھوڑ کر باقی سب عہد و پیمان کی مٹی پلید کرنے میں نہلے پر دہلا ہیں۔ اخلاقیات سے عاری سیاست میں یہی ہوتا ہے گلہ کس سے اور کیوں؟