فوجی انتظامات میں سرکاری اعزاز کے ساتھ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی تدفین کا منظر دیکھ کر احمد ندیم قاسمی یاد آئے ؎
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
عبدالقدیر خان نے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا، عبدالقدیر خان کے ساتھ مختلف حیثیتوں میں کام کرنے والے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر سلطان بشیر الدین محمود اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) علی اکبر زاہد سے مختلف مواقع پر طویل نشستیں رہیں، دونوں ڈاکٹر صاحب کی ذہانت، حب الوطنی، اپنے شعبے میں لیاقت، غیر معمولی یادداشت اور لگن کے معترف پائے گئے، میں نے کونسل آف نیشنل افیئرز کی نشست میں ڈاکٹر سلطان بشیر الدین محمود سے پوچھا کہ "پاکستان اٹامک انرجی کمشن کے احباب بالعموم ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر جرح و تنقید کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے کوئی خاص وجہ؟ "ڈاکٹر صاحب بولے" گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم کب کسی دوسرے کو خاطر میں لاتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب کا قصور یہ بھی کہ وہ غیر پنجابی ہیں "جنرل زاہد علی اکبر کی رائے تھی کہ عبدالقدیر خان چاہتے تو اس پراجیکٹ کو مزید چار چھ سال طول دے سکتے تھے مگر انہوں نے 1984ء میں مکمل کر کے حکومت پاکستان کو فائنل رپورٹ دیدی ؎
سپر دم باتو مایۂ خویش را
تو دانی حساب کم و بیش را
امریکی روز اوّل سے عبدالقدیر خان کے تعاقب میں تھے، یورپ کو یہ غصّہ کہ اس نے بلجیم سے ٹیکنالوجی چرا کر ایک ایسے ملک کو ایٹمی قوت بنا دیا جو ہر معاملے میں ہمارا محتاج اور دست نگر ہے۔ ایک لحاظ سے یورپ کی برتری ختم کر دی۔ پرویز مشرف دور میں امریکہ نے پاکستان کے فوجی حکمران کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر محسن پاکستان کو رسوا کرنے کا منصوبہ بنایا تو 9/11 کے بعد امریکی شرائط کو من و عن تسلیم کرنے والے حکمران نے محض اپنے آقائوں کی خوشنودی کے لئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا، حب الوطنی کا واسطہ دے کر اُن سے پی ٹی وی پر اعتراف جرم کرایا گیا اور پھر نظر بندی کے سزاوار ٹھہرے ؎
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
حکومت پاکستان چاہتی تو توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے ڈاکٹر صاحب کی خدمات سے استفادہ کر سکتی تھی مگر امریکہ کے خوف سے آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور عمران خان سمیت سب نے ڈاکٹر صاحب سے بے اعتنائی برتی۔ پرویز مشرف حکمران تھے تو میاں نواز شریف ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ملک کا صدر بنانے کے بیانات دیا کرتے تھے، عمران خان انہیں تحریک انصاف میں شامل کرنے کے خواہاں تھے مگر اقتدار ملا تو کسی کو یہ توفیق بھی نہ ہوئی کہ مشرف دور کی پابندیاں ختم کر کے ان کا پروٹوکول ہی بحال کر دیں، لوگ کہتے ہیں اور سچ کہتے ہیں کہ بھارت نے اپنے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالکلام کو ملک کا صدر بنا کر خدمات کا اعتراف کیا، ہمارے فوجی صدر نے محسن پاکستان کو دنیا کے سامنے مجرم کے طور پر پیش کیا، محسن کشی کی بدترین مثال قائم کی، یہ اس قدر ذلت آمیز سلوک تھا کہ عبدالقدیر خان ایسا مضبوط اعصاب کا مالک انسان بھی کہے بغیر نہ رہ سکا ؎
گزر تو خیر گئی ہے عدم حیات مگر
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
ایک فوجی آمر نے قومی محسن کے ساتھ وہ سلوک کیا جو کوفیوں نے حضرت مسلم بن عقیلؓ سے کیا تھا۔ میری ناقص رائے میں قائد اعظمؒ کے بعد صرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس قوم کے حقیقی محسن اور ہیرو ہیں، ہمارے حکمرانوں نے مگر اپنے ہیرو اور محسن سے کیا سلوک کیا؟ ہر محب وطن شہری شرمندہ ہے۔ 28مئی 1998ء کے دن پاکستان نے ایٹمی تجربات کئے تو سرکاری سطح پر مہم کا آغاز ہوا جس میں ایٹم بم کی تخلیق کا کریڈٹ ڈاکٹر صاحب کے بجائے ایک اور سائنس دان کو دینے کی شعوری کوشش کی گئی مگر قوم نے کان دھرے نہ حقائق نے ساتھ دیا۔ گزشتہ روز ڈاکٹر ثمر مبارک مند خود کہہ رہے تھے کہ نیو کلیئر ٹیکنالوجی ڈاکٹر عبدالقدیر خان تنہا پاکستان لے کر آئے۔ جنرل پرویز مشرف کے مجرمانہ اقدام کے بعد بھی عبدالقدیر خان کی حیثیت متاثر نہ ہوئی البتہ حکمران اشرافیہ کی کم ظرفی، بزدلی، بے حمیّتی کا ایک بار پھر پردہ چاک ہوا۔ اتوار کے روز ڈاکٹر صاحب نے اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کی تو وہ بھی انہیں ہیرو پکار اٹھے جو چند سال پہلے تک تمسخر اُڑاتے اور جنرل پرویز مشرف کے گن گاتے تھے، الفضل، شہھدت بہ الاعدائ(حق وہی ہے جس کی مخالف بھی گواہی دیں)ہم نے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے نت نئے بت تراشے مگر ہمارے مخالفین امریکہ اور یورپ نے ہمیشہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایٹم بم کا خالق اور ایٹمی سائنس دان مانا۔ یقین نہ آئے تو بی بی سی کی سٹوری پڑھ لیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہم سے بچھڑ گئے، ڈاکٹر سلطان بشیر الدین محمود، ڈاکٹر اشفاق احمد خان، ڈاکٹر مبارک ثمر مند الحمد للہ زندہ سلامت ہیں اُن کی خدمات اور صلاحیتوں سے کیا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے کسی کے علم میں نہیں۔ ڈاکٹر سلطان بشیر الدین محمود نے ایک دور میں اُمہ تعمیر نو کے پلیٹ فارم سے ایک ایسی یونیورسٹی کے قیام کا بیڑا اٹھایا تھا جہاں نیوکلیر فزکس کے مضامین پڑھائے جائیں کیونکہ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں نے ان شعبوں میں مسلم طلباء کا داخلہ بند کر دیا ہے مگر انہی دنوں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی طرح ڈاکٹر سلطان بشیرالدین محمود بھی امریکیوں اور ان کے چہیتے حکمران پرویز مشرف کے زیر عتاب آئے اور نجی شعبے میں ایسی جامعہ کے قیام کی کوششیں ترک کرنے پر مجبور ہو گئے، موجودہ حکومت تعلیم کو اپنی ترجیحات میں اوّلیت دے رہی ہے۔ کاش عمران خان اور وزیر تعلیم شفقت محمود وقت نکال کر ڈاکٹر سلطان بشیر الدین محمود سے ملیں اور اُن کے آئیڈیا پر غور کریں۔
کل سوشل میڈیا پر بہت سے دوستوں کو یہ فکر لاحق رہی کہ وزیر اعظم عمران خان، محسن پاکستان کے جنازے میں شریک ہوں گے یا نہیں؟ بہت سے دوستوں نے فون پر یہ بات دہرائی تو بتانا پڑا کہ جنازہ فرض کفایہ ہے اور یہ فرض کابینہ کے کئی ارکان نے ادا کر دیا، وزیر اعظم ویسے بھی آج کل اپنے قانونی، عسکری اور سیاسی مشیروں میں گھرے ہیں، فواد چودھری اور اسد عمر انہیں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر میاں نواز شریف تک سول ملٹری تعلقات کے مضمرات سمجھا کر "علاقہ غیر "میں نہ جانے اور چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے کا مشورہ دے رہے ہیں "توتیا من موتیا توں اس گلی نہ جا"جبکہ بعض جاہ پسند اور موقع پرست مشیر آنجناب کومسلم سپہ سالار حضرت خالد بن ولیدؓ کی معزولی کا قصّہ سنا کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلنے کی ترغیب دے رہے ہیں کہ ان کے بقول "ریاست مدینہ" کا قیام و استحکام اس کے بغیر ممکن نہیں، اللہ تعالیٰ کرے، فواد چودھری اور اسد عمر کامران ہوں کہ افغانستان کا موجودہ بحران، غیر معمولی امریکی دبائو اور زخم خوردہ بھارت و امریکہ گٹھ جوڑ، سول ملٹری تعلقات میں معمولی دراڑ کی اجازت نہیں دیتا، کجا کہ یہ معاملہ انا کے بُتوں کی بھینٹ چڑھے اور کوئی نیا گل کھلائے ؎
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے