بالآخر "سول بالادستی، " "ووٹ کو عزت دو" اور "منتخب عوامی نمائندوں کی عملداری" کا بیانیہ دفن کر کے میاں نواز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لینے پہنچ گئے جس کے سبب جمہوریت پسندوں کے بقول" میر صاحب بیمار و لاچار ہیں " تحریک عدم اعتماد اس ماہ پیش ہو یا اگلے ماہ، یہ طے ہے کہ مسلم لیگ(ن) پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کا حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی آپشن پر اتحاد جمہوریت کے غم میں نہیں، کسی کی خوشی و خوشنودی کے لئے ہوا۔
کونسل آف نیشنل افیئرز کی ہفتہ وار نشست میں اس بار مہمان مقرر مخدوم جاوید ہاشمی تھے اور لاہور کے جیّد صحافی، ماہرین تعلیم اور سیاسی دانشور ان کے روبرو، ہاشمی صاحب فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے کر ملک کے پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق سے جنرل پرویز مشرف اور میاں نواز شریف سے آصف علی زرداری اور عمران خان سمیت ماضی کے حکمرانوں میں سے بعض کے حریف اور کچھ کے حلیف رازداں، سیاست کے نشیب و فراز، اقتدار کے ایوانوں میں جوڑ توڑ، سول بالادستی کی جنگ اور سیاستدانوں کی باہمی کشمکش کے عینی شاہد ہیں اور اس بات پر آرزدہ خاطر کہ انجینئرنگ کمپنی کا دائرہ کار پھیلتا چلا جا رہا ہے، قومی مستقبل کے فیصلے آج بھی پارلیمنٹ یا سیاسی ایوانوں میں نہیں کہیں اور ہوتے ہیں اور سیاستدان کبھی کسی ایک اور کبھی کسی دوسرے کے ہاتھوں استعمال ہو کر اپنی آبرو گنوا بیٹھتے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا فیصلہ اپوزیشن نے باہم صلاح مشورے سے کیا مگر اس کی کامیابی و ناکامی کا دارومدار "کسی اور "کی دلچسپی یا بے نیازی پر ہے، اپوزیشن کو عمران خان پر عددی برتری حاصل ہو چکی ہے مگر یہ تحریک پیش اور کامیاب اس وقت ہو گی جس لمحے "یار لوگوں " نے عمران خان کو اقتدار سے فارغ کرنے کی ٹھان لی، ہاشمی صاحب صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے دل کی بات زبان پر لائے تو بحث یہ چل پڑی کہ آخر سیاستدانوں نے ماضی سے سبق کیا سیکھا؟ برس ہا برس تک سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والے جمہوریت پسندوں نے قوم کو باور کرایا کہ وطن عزیز میں کسی پارلیمنٹ کو اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے دی جاتی ہے نہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے وزیر اعظم کو اپنی پانچ سالہ خدمات کا گوشوارہ عام انتخابات میں پیش کرنے کا موقع ملتا ہے جبکہ فوجی آمر یہاں دس دس گیارہ گیارہ سال حکومت کرتے اور احتساب و مواخذے کے بغیر رخصت ہو جاتے ہیں، بات سولہ آنے پائو رتی درست ہے۔
جنرل پرویز مشرف کی دونوں مقبول لیڈروں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی پالیسی سے تنگ آ کر محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے میثاق جمہوریت نام کی ایک دستاویز پر دستخط کئے تو اس میں عہد کیا کہ آئندہ منتخب پارلیمنٹ اور حکومت کو آئینی مدت پوری کرنے کا موقع ملے گا اور کوئی جمہوری قوت کسی غیر سیاسی قوت سے مل کر درپردہ سازش کرے گی نہ سول حکومت کو غیر مستحکم۔ میثاق جمہوریت پر دونوں عظیم لیڈروں کے دستخطوں کی سیاہی خشک ہونے سے قبل محترمہ بے نظیر بھٹو نے امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کے مشورے پر فوجی آمر پرویز مشرف سے ہاتھ ملا لئے اور یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دینے کے لئے میاں نوازشریف عدالت عظمیٰ کی پیٹھ ٹھونکی مگر 2008ء اور 2013ء کی پارلیمنٹ نے اپنی مدت پوری کی اور اس کا کریڈٹ دونوں پارٹیوں نے میثاق جمہوریت کو دیا۔
مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت پر گزشتہ ساڑھے تین سال میں جو گزری سو گزری، احتساب کے نام پر نامور سیاستدانوں کو رگڑا لگا اور عمران خان نے اپنے الفاظ کی لاج رکھی دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت کو خوب رلایا مگر ساڑھے تین سال کے دوران سیاسی جماعتیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہو سکیں نہ اجتماعی استعفوں کے ذریعے اسمبلیوں اور حکومت کو رخصت کرنے کی مسلم لیگی تجویز پیپلز پارٹی کو پسند آئی، اسی باعث پی ڈی ایم بکھر گیا، نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر نامہ کے اجرا میں تاخیر سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین یک جان و دو قالب کا تاثر مجروح ہوا اور منتشر اپوزیشن کے سوکھے دھانوں پر پانی پڑا، مسلم لیگ و پیپلز پارٹی کی قیادت کے باہم میل جول اور حکومت کے اتحادیوں سے ملاقاتوں سے یوں لگا کہ خان کا جانا ٹھہر گیا ہے، صبح گیا کہ شام گیا، سوال مگر یہ ہے کہ عمران خان کو 23مارچ سے قبل رخصت کرنے کی خواہش نے کسی سعید لمحے ازخود میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمن، ایمل اسفند یار ولی، محمود خان اچکزئی کے دل و دماغ پر غلبہ پایا، یا ع
کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں
سارے سیاسی اور صحافتی بزرجمہر متفق ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں میں اتحاد اور حکومتی صفوں میں اضطراب فطری نہیں، بلکہ ایجاد بندہ ہے، قومی سیاست اب ایک لفظ ایکسٹینشن (توسیع) کے اردگرد گھومتی ہے اور سول بالادستی، ووٹ کو عزت دو کے نعرے اس کے روبرو دفتربے معنی ہیں جو غرق مئے ناب اولیٰ، عمران خان اور اس کے اتحادیوں پر سلیکٹڈ کی پھبتی کسنے والے سارے جمہوریت پسند اشارہ ابرو کے منتظر ہیں۔ جونہی انہیں گرین سگنل ملا یہ ضابطے کی کارروائی مکمل کر کے عمران خان کو ایوان اقتدار سے اٹھا باہر پھینکیں گے۔ میثاق جمہوریت گیابھاڑ میں اور سول بالادستی کا شیر گیا گھاس چرنے، کسی کو اب پارلیمنٹ کی پانچ سالہ آئینی مدت یاد ہے نہ کسی کے ذہن میں سول حکمران کی مدت اقتدار پوری کرنے کا خیال جاگزیں، یہ قصہ ماضی ہے، غالباً حضرت دانیالؑ کا قول ہے "تجھے تولا گیا اور تو کم نکلا" موجودہ سیاسی اشرافیہ میں سے ہر ایک اپنے آپ کو اس قول کا مصداق ثابت کرنے کے درپے ہے۔
ایثار و قربانی، استقامت و عزیمت اور اُصول کے تو یہ خوگر نہ تھے مگر اپنی زبان کی لاج رکھنے کے روادار بھی نہیں، یہ کبھی سوچا نہ تھا، خالص جمہوریت، سول بالادستی اور سلطانی جمہور کا علمبردار ایک بھی سیاستدان ایسا نہیں جو ہوس اقتدار اور مقتدرہ کی خوشنودی بلکہ چاکری کی خواہش کو بالائے طاق رکھ کر یہ کہہ سکے کہ عمران سے سیاسی اختلاف اپنی جگہ، موجودہ حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں پر تحفظات بسروچشم مگر "کسی" کے اشارے یا خواہش پرسول حکومت اور منتخب پارلیمنٹ کی قبل از وقت برطرفی ملک میں ناتواں جمہوریت کو مزید کمزور اور سیاستدانوں کو بحیثیت مجموعی عزت نفس، طبقاتی غیرت سے محروم ٹولہ ثابت کرنے کی سعی نامشکور ہے جس کا میں حصہ نہیں بن سکتا کہ میری کمٹ منٹ، ملک اور جمہوریت سے ہے کسی فرد یا خاندان سے نہیں۔ سول بالادستی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا موقع میسر ہے مگر کوئی اس سے فائدہ اٹھانے کا اہل نہ قابل ؎
آتی ہے صدائے جرس فاقۂ لیلیٰ
صد حیف کہ مجنوں کا قدم اُٹھ نہیں سکتا
غالباً 1979ء میں ایرانی اخبار کیہان انٹرنیشنل کو انٹرویو دیتے ہوئے ملک کے تیسرے فوجی آمر ضیاء الحق نے کہا تھا کہ "میں ان سیاستدانوں کو اشارہ کروں تو یہ دم ہلاتے ہوئے میرے پاس آ جائیں "تب اسے اخلاقی جواز سے محروم ایک طالع آزما حکمران کی بڑھک سمجھا گیا، ایئر مارشل اصغر خان، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبدالستار خان نیازی سمیت کئی سیاستدان اس کے دام فریب میں نہ آئے مگر اب؟ لمحہ موجود کے سب جمہوریت پسند؟ ع
مجنوں کھڑے ہیں خیمۂ لیلیٰ کے سامنے
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے کہ ساری بھاگ دوڑ، اٹھک بیٹھک، ملاقاتیں، وارداتیں اور میل ملاپ اشارہ ابرو کا محتاج ہے ؎
یہ مصرعہ لکھ دیا کس شوخ نے محراب مسجد پر
یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا