یہ 1993ء کی بات ہے، سپریم کورٹ نے صدارتی حکم نامے کو غیر آئینی قرار دے کر میاں نوازشریف کی حکومت اور قومی اسمبلی بحال کر دی تھی اور میاں صاحب نے پنجاب میں غلام حیدر وائیں کی جگہ وزیراعلیٰ منتخب ہونے والے میاں منظور وٹو کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے لیے ارکان اسمبلی کو دوبارہ مسلم لیگ میں واپس لانے کا ٹاسک چودھری برادران اور سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر کو سونپا تھا، دو تین عوامی نمائندے فیصل آباد کے رکن اسمبلی ڈاکٹر محمد شفیق چودھری کی قیادت میں لاہور آئے اور مجھے بھی ساتھ بڑے میاں صاحب کے ماڈل ٹائون والے گھر لے گئے، جہاں میاں محمد اظہر، چودھری برادران اور سید فخر امام کی یقین دہانیوں پر میاں منظور وٹو کا ساتھ چھوڑ کر دوبارہ میاں نوازشریف پر اعتماد کرنے والے ارکان اسمبلی جمع تھے، میں ان ارکان اسمبلی کے ہمراہ اسی وسیع و عریض ہال میں پہنچا، میاں محمد اظہر اور دیگر رہنمائوں سے ملا اور ارکان اسمبلی کے جھرمٹ کا فائدہ اٹھا کر ایک کونے میں بیٹھ گیا، کسی نے مجھے باہر جانے کو کہا نہ میں نے ضرورت محسوس کی۔
میاں نوازشریف وزارت عظمیٰ کے پروٹوکول کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے اور سٹیج پر بیٹھ گئے، ان کے اردگرد مجھے یاد ہے کہ چودھری شجاعت حسین، میاں محمد اظہر، چودھری پرویزالٰہی، سید فخر امام، غلام حیدر وائیں مرحوم، میاں شہبازشریف اور کئی دیگر اہم رہنما براجمان تھے۔ اجلاس میں غلام حیدر وائیں کا ساتھ چھوڑ کر میاں منظور وٹو سے ناطہ جوڑنے والے کئی ارکان نے وائیں صاحب کی بے نیازی اور بے رخی کا تذکرہ کیا، وفاداری کا یقین دلایا اور آئندہ ٹکٹ کی یقین دہانی چاہی۔
مختلف تقاریر کے بعد میاں نوازشریف نے ارکان کو بتایا کہ میاں منظور وٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے مطلوبہ تعداد دستیاب ہے۔ میاں صاحب نے ارکان اسمبلی کی تسلی و تشفی کے لیے اعلان کیا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد چودھری پرویزالٰہی ہماری طرف سے پنجاب کے وزیراعلیٰ ہوں گے اور وہی مسلم لیگ پنجاب کی رہنمائی کریں گے، خوب تالیاں بجیں اور چودھری پرویزالٰہی زندہ باد، میاں نوازشریف زندہ باد کے نعرے گونجے۔
چودھری پرویزالٰہی نے میاں صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ارکان اسمبلی کو یقین دلایا کہ چودھری خاندان اپنی روایات کے مطابق نہ صرف وفاداری کے تقاضے نبھائے گا بلکہ مختلف عوامی نمائندوں کو بھی تسلی دی کہ وہ قائد ایوان کے طور پر انہیں ساتھ لے کر چلیں گے اور شکایت کا موقع نہ دیں گے، تین سال تک میاں غلام حیدر وائیں ایسے دیانتدار، روکھے، منہ پھٹ وزیراعلیٰ کی گُھرکیاں سہنے والے ارکان پنجاب اسمبلی کی خوشی دیدنی تھی اور وہ میاں نوازشریف کے فیصلے کو انتہائی صائب، دانش مندانہ اور عملیت پسندانہ قرار دے رہے تھے، میں چپکے سے نکلا، دفتر پہنچا اور اپنے اخبار میں چودھری پرویزالٰہی کی بطور وزیر اعلیٰ نامزدگی کی خبر فائل کردی۔
پہلی ڈاک میں یہ Exclusive خبر تھی جو صفحہ اول پر نمایاں انداز میں شائع ہوئی مگر چند گھنٹے بعد میاں منظور وٹو نے گورنر پنجاب چودھری الطاف حسین سے مل کر پنجاب اسمبلی توڑ دی اور چودھری پرویزالٰہی وزیراعلیٰ منتخب ہو سکے نہ انہیں حلف اٹھانے کا موقع ملا۔ اگلے تین سال تک چودھری برادران شریف خاندان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے۔
1997ء میں سردار فاروق لغاری سے ساز باز کرکے میاں نوازشریف کو ایک بار پھر دوتہائی اکثریت کے ساتھ اقتدار ملا تو انہوں نے پرویزالٰہی کو نظر انداز کرکے وزارت اعلیٰ کا تاج میاں شہبازشریف کے سرپر سجایا اور جب بزرگ صحافی مجید نظامی صاحب نے چودھری برادران کے ساتھ وعدہ خلافی کا سبب پوچھا تو جواب ملا کہ ابا جی (میاں محمد شریف) نہیں مانتے، بڑے میاں صاحب کا موقف تھا کہ برادر بزرگ وزیراعظم ہے تو وزارت اعلیٰ پر برادر خورد کا حق ہے، ہمیں میاں منظور وٹو کے تجربے سے سبق سیکھنا چاہیے۔ چودھری پرویزالٰہی سپیکر بننے پر کیسے آمادہ ہوئے الگ داستان ہے۔
1999ء تک انہوں نے اف کی نہ وزیراعظم، چیف جسٹس کشمکش کے دوران کسی سازش کا حصہ بنے، شریف برادران جلاوطن ہوئے تو حمزہ شہبازشریف کی چودھری برادران نے اپنے بچوں کی طرف دیکھ بھال کی حالانکہ جاتے جاتے میاں نوازشریف، چودھری شجاعت حسین کی جماعتی رکنیت معطل کر گئے تھے، باقی تاریخ ہے، یہ ساری باتیں مجھے میاں شہبازشریف کی تیرہ چودہ سال بعد چودھری برادران کے گھر آمد اور تحریک عدم اعتماد میں تعاون کی درخواست پر یاد آئیں۔
پاکستانی سیاست میں دوستی، دشمنی اور اختلاف، اتفاق میں بدلتے دیر نہیں لگتی، کل کے حریف، دیکھتے ہی دیکھتے حلیف بنتے اور مفاد کے مقابل سارے اصول، ضابطے، وضعداری، مروت بھلا دیتے ہیں مگر چودھری برادران کے ہاں رکھ رکھائو اب بھی موجود ہے۔ چودھری برادران سے میاں شہبازشریف کی ملاقات کو گیم چینجر قرار دیا جارہا تھا اور عمران خان کی رخصتی کا پیش خیمہ مگر میری اطلاع کے مطابق یہ ملاقات محض تجدید تعلقات کا پیش خیمہ ثابت ہوئی، کسی بریک تھرو کا عنوان نہیں، اگر میں یہ دعویٰ کروں کہ دوران ملاقات تحریک عدم اعتماد سنجیدگی سے زیر بحث ہی نہیں آئی تو کوئی فریق جھوٹے منہ بھی تردید نہ کرے کہ حقیقت یہی ہے۔
چودھری مونس الٰہی نے لگی لپٹی رکھے بغیر وہ سب کچھ کہہ دیا ہے جو تحریک انصاف کے پرجوش حامی چودھری برادران سے سننے کے خواہش مند تھے مگر یہ محض وضع داری اور تحریک انصاف سے تعلق نبھانے کا معاملہ نہیں، چودھری برادران بخوبی جانتے ہیں کہ میاں نوازشریف کا اصل گیم پلان کیا ہے؟ مسلم لیگ ن میں شہبازشریف کی حیثیت کیا ہے اور شریف برادران کی کسی بات پر اعتماد کرنا کس قدر مشکل؟ کم از کم چودھری برادران اس طائفہ مومنین میں شامل نہیں، جو ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جانے کا عادی ہے، چودھری پرویزالٰہی پنجاب اسمبلی کے سپیکر اور مونس الٰہی وفاقی وزیر ہیں۔ پنجاب کے کئی اضلاع میں ان کا راج ہے اور اگلے الیکشن میں مزید پیش رفت کا امکان ہے۔
زرداری صاحب تو چوھری پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب کا منصب دینے کے حق میں ہیں اور ضروت محسوس ہو تو شاید وفاق کا سب سے بڑا منصب بھی دے دیں مگر میاں نوازشریف؟ آج وہ مان بھی جائیں تو کل کیا ہو گا؟ ایم کیو ایم بھی چودھری برادران کی طرف دیکھ رہی ہے اور حالیہ ملاقات میں طے ہو پایا ہے کہ دونوں اتحادی مل کر فیصلہ کریں گے۔ جہانگیر ترین گروپ کے باضابطہ رابطوں اور تبادلہ خیال کی نوبت بھی نہیں آئی۔ تحریک انصاف کے بعض ناراض ارکان کے بارے میں مسلم لیگ ن کے اہم رہنمائوں کا خیال ہے کہ ان کی کسی یقین دہانی پر اعتبار کرنا مشکل ہے، ماضی میں دوبار وعدہ خلافی کر چکے ہیں اور اب بھی تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں اپوزیشن زیادہ سے زیادہ یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ وہ "غیرجانبدار" ہے، محض "غیر جانبداری" سے اپوزیشن کے لیے تحریک عدم اعتماد کا کوہ ہمالیہ سر کرنا مشکل ہے کہ عمران خان کے پاس اختیارات کی کمی ہے نہ وسائل کی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے موقع پر جنرل اسلم بیگ، صدر غلام اسحاق خان اور شمس الرحمن کلو سے بالا بالا آئی ایس آئی کے کچھ فعال افسران اپوزیشن کی پشت پر تھے اور پنجاب حکومت کے تمام وسائل مختص مگر نتیجہ؟ آئی جے آئی کے چار ارکان پیپلزپارٹی سے جا ملے اور حکمران جماعت کا ساتھ چھوڑنے والی ایم کیو ایم اپنا سر پیٹ کر رہ گئی۔ اپوزیشن مگر پُر اعتماد ہے کہ وہ دورہ روس سے قبل یا فوری بعد عمران خان کا بوریا بستر گول کر دے گی، کیسے؟ ؎
تمہارا اور ہمارا ساتھ ممکن ہے
یہ دنیا ہے یہاں ہر بات ممکن ہے