بازار سیاست میں افواہوں، قیس آرائیوں، خواہشات اور توقعات کی گرم بازاری اپنی جگہ مگر جنوری فروری میں میاں نواز شریف کی برضا و رغبت اور فاتحانہ وآپسی؟ میری ناقص رائے میں ا یں خیال است و محال است و جنوں۔ میڈیا مینجمنٹ میں شریف خاندان اور مسلم لیگ(ن) کا کوئی ثانی نہیں، قابل داد اور لائق تحسین۔ غیر رسمی، خیر سگالی ملاقاتوں کو دو طرفہ پیغام رسانی اور سیاسی جوڑ توڑ کے طور پر پیش کرنا اور پر سے پرندہ اُڑانا کوئی ان سے سیکھے، قومی اسمبلی کے سابق سپیکر سردار ایاز صادق لندن گئے، اپنے قائد سے ملے اور ایک ملاقات میں ان کے ساتھ پیپلز پارٹی کے رہنما مخدوم احمد محمود بھی شامل تھے، میری معلومات کے مطابق ایاز صادق کی ملاقات کا کوئی متعین ایجنڈا نہ تھا احمد محمود کی ملاقات طے شدہ تھی، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر دفاع خرم دستگیر میرے پروگرام "ہو کیا رہا ہے" میں برملا یہ اعتراف کر چکے کہ ایاز صادق ذاتی طور پر میاں صاحب سے ملے اور انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ رابطوں کی تفصیل بیان کی، مگر مخدوم احمد محمود کی اتفاقیہ اور ایاز صادق کی خیر سگالی ملاقات سے وہ نتائج اخذ کئے گئے جو دونوں ملاقاتیوں کے وہم و گمان میں نہ تھے، ہوتے تو ایاز صادق کو اپنی ایک تقریر کی وضاحت کرنا پڑتی نہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی میں بلاول بھٹو شریف خاندان کے لتے لیتے، احمد محمود کی وطن وآپسی پر آصف علی زرداری یا بلاول بھٹو سے ملاقات کی کوئی اطلاع بھی منظر عام پر نہیں آئی۔
برطانوی محکمہ داخلہ میاں نواز شریف کے ویزا میں توسیع نہ کرے یا کوئی فنکار میاں صاحب کو چکمہ دے کر قید و بند کی دلدل میں پھنسانے کے لئے وطن وآپسی پر مجبور کر دے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ پچھلے سال میاں شہباز شریف یہ غلطی کر چکے اور اس کے نتائج بھی بھگتے وگرنہ میاں صاحب بقائمی ہوش و حواس وطن واپسی پر تیار نظر آتے ہیں نہ تاحال موسم سازگار ہے، جون میں سالانہ بجٹ اور، چند ہفتے قبل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اے وی ایم، اوورسیز پاکستانیوں کے حق رائے دہی سمیت کم و بیش، تین درجن بلوں کی منظوری سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے نوٹیفکیشن میں تاخیر کے باوجود اعتماد و اتحاد کے آبگینوں میں قابل ذکر دراڑ پڑی ہے نہ بدمزگی اس انتہا کو پہنچی کہ ایک فریق اس عطار کے لونڈے سے دوا لینے چل پڑے جس کے سبب میر سادہ بیمار ہوئے۔
نامہ و پیام 2019ء میں ہوا، ایک ڈیل کے تحت میاں نواز شریف بغرض علاج بیرون ملک چلے گئے مگر لاہور ایئر پورٹ پر قطری طیارے میں بیٹھتے ہی ڈیل پرزے پرزے ہو گئی اور اسی باعث مریم نواز شریف عازم لندن نہ ہو پائیں، اس ڈیل نے میاں شہباز شریف کی ساکھ کو ناقابل تردید نقصان پہنچایا اور یہ تاثر پختہ ہو گیا کہ وہ اپنے برادر بزرگ ہی نہیں عزیز بھتیجی کے سامنے عاجز، بے بس ہیں، چوب مسجد نہ سوختنی نہ فروختنی۔
مسلم لیگ(ن) نے اندرونی اختلافات پر قابو پانے، کارکنوں کی مایوسی اور بددلی کو اُمید و جوش، جذبے میں بدلنے کے لئے میاں صاحب کی وطن واپسی کا جو پتہ کھیلا وہ فی الحال بن کھلے مرجھانے والا، غنچہ نظر آتا ہے اس مصرع طرح پر گرہ البتہ ہر شاعر اپنے ذوق، ظرف اور افتاد طبع کے مطابق لگا سکتا ہے بلکہ لگا رہا ہے، میاں صاحب نیو کلیئر پاکستان میں تین مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے والے مقبول سیاسی رہنما ہیں۔ ان کے ذاتی حلقہ احباب میں صرف سیاسی رہنما اور صحافی نہیں سابق سفارت کار اور سابق عسکری عہدیدار بھی ہیں۔ ان کی موجودہ سرکاری عہدیداروں سے ذاتی و خاندانی قربت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہر ملاقاتی پیغام رساں ہے اور اقتدار سنبھالنے کی عاجزانہ دعوت ہر پیغام کا خلاصہ، میاں صاحب کی تاحیات نااہلی ختم کرنے کا کوئی طریقہ موجودہ قانونی اور عدالتی نظام میں موجود نہیں الاّ یہ کہ ہمارا نظام عدل آئین، قانون اور عدالتی روایات کو بالائے طاق رکھ کر فرد واحد کو ریلیف دینے پر تُل جائے اور حکومت، قومی ادارے بلکہ ریاست مُنہ دیکھتی رہ جائے۔
جنرل پرویز مشرف سے معافی تلافی میں جن دو ممالک نے اہم کردار ادا کیا تھا وہ 2007ء میں تحریری معاہدے سے انحراف کا نظارہ کر چکے اور اب ضامن بننے کو تیار نہیں۔ امریکہ کے برعکس چین کسی دوست ریاست کے اندرونی بالخصوص سیاسی معاملات میں مداخلت کا عادی ہے نہ اس کی دوستی ریاست کے بجائے شخصیات سے ہے۔ حکومت کا کوئی اتحادی حتیٰ کہ مسلم لیگ(ق) شریف خاندان پر اعتماد کرنے کے لئے تیار ہے نہ چھوٹی موٹی ناراضگی کی بنا پر تحریک انصاف سے تعلق توڑنے کے لئے بے تاب۔
تحریک انصاف کی اپنی صفوں میں انتشار ہے اور وزیر اعظم کے علاوہ ان کے ان گھڑ وزیروں، مشیروں کے طرز عمل سے نالاں ارکان اسمبلی نجی محفلوں میں شکوہ و شکائت کے انبار لگاتے ہیں مگر یہ کوئی نئی بات نہیں، میاں صاحب کے دوران حکمرانی میں ان گناہگار کانوں نے ان کے بعض قابل اعتماد وزیروں کی ہجو گوئی کا لطف اُٹھایا۔ آصف علی زرداری، محترمہ بے نظیر بھٹو اور مخدوم یوسف رضا گیلانی برسر اقتدار تھے تو بعض بڑبولے وزیر، مشیر اور ارکان اسمبلی ان کی لوٹ مار کے قصّے مزے لے کر سناتے اور اپنی صاف گوئی کی داد پاتے۔ مگر کبھی پارٹی سے تعلق توڑا نہ سرعام اپنے قائدین کی قصیدہ خوانی میں شرم محسوس کی، ان "جرأت مند "اور "بے باک" متوالوں اور جیالوں کی صاف گوئی کے چند نمونے ؎کسی بتکدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری، ان میں سے اکثر اب بھی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا حصہ ہیں اور اگلے انتخابات میں ٹکٹ کے اُمیدوار۔
میں نے گزشتہ روز سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے ان بیس ارکان سے زائد ارکان اسمبلی کے بارے میں پوچھا جو مسلم لیگ سے رابطوں میں ہیں اور اگلے انتخابات میں ٹکٹ کے اُمیدوار تو جواب ملا کہ یہ اس وقت تک سامنے آئیں گے نہ منی بجٹ کے خلاف ووٹ دیں گے، جب تک انہیں کہیں سے گرین سگنل نہیں ملتا۔ وہ بس رابطوں تک محدود ہیں۔ میں نے عباسی صاحب کو 1985ء کا واقعہ سنایا، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق نے سندھڑی سے تعلق رکھنے والے محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم نامزد کیا تو منتخب ارکان اسمبلی میں شدید ردعمل پیدا ہوا اور انہوں نے سید فخر امام کے گھر ایک اجلاس میں یہ طے کیا کہ فوجی سربراہ کے نامزد کردہ سپیکر کے امیدوار خواجہ محمد صفدر کو ہرگز کامیاب نہ ہونے دیا جائے، جنرل صاحب نے ہماری حق تلفی کی ہے جس کا بدلہ چکایا جائے گا، پرجوش ارکان اسمبلی نے ایک سینئر سیاستدان کو اپنی طرف سے سپیکر کا اُمیدوار نامزد کیا اور درخواست کی کہ وہ خواجہ صفدر کے مقابلے میں کاغذات نامزدگی جمع کرائیں، مرنجاں مرنج سینئر سیاستدان نے درخواست کو شرف قبولیت بخشا اور وعدہ کیا کہ اپنے تمام تعلقات، رابطوں کو بروئے کار لا کر وہ خواجہ صاحب کو ناکوں چنے چبوائیں گے، مبارک سلامت کا شور تھما تو سینئر سیاستدان نے معصوم سی خواہش ظاہر کی، آپ لوگ مجھے جنرل ضیاء الحق سے ملاقات اورمشورہ کرنے کی اجازت دیں وہ اس نظام کے محسن ہیں، ان کی اجازت کے بغیر میرا کاغذات نامزدگی جمع کرانا مناسب نہیں، بی بی عابدہ حسین، حاجی سیف اللہ خان، سید فخر امام، ڈاکٹر شفیق چودھری، طارق چودھری اور دیگر سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور بالآخر امیدوار بدلنے کا فیصلہ ہوا۔
بازارسیاست کی گرم بازاری اپنی جگہ اور اہل صحافت کی تجزیہ نما خواہشات سر آنکھوں پر مگر جب تک آبپارہ مارکیٹ اور لال کرتی میں ہلچل نظر نہیں آتی میاں صاحب، وطن واپسی پر آمادہ ہوں گے نہ بے چین فصلی پرندے کسی دوسری شاخ کا رخ کریں گے، اگر اپوزیشن مہنگائی سے خائف ارکان اسمبلی کے علاوہ اتحادیوں کو ساتھ ملا کر منی بجٹ کی منظوری میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی اور میاں شہباز شریف کے ٹھوس رابطوں کے نتیجے میں نیب و ایف آئی اے کی سرگرمیاں ٹھپ نہیں ہوئیں تو اس کا مطلب ہے کہ تبدیلی کے اشارے درست ہیں نہ وطن واپسی کے ارادے پختہ، میاں صاحب عمر کے اس حصے میں محض ہماری، آپ کی خواہشات کی تکمیل اور ذوق جمہوریت کی تسکین کیلئے اڈیالہ یا کوٹ لکھپت جیل کا رخ کیوں کریں؟ یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی۔ انہیں یہ بھی یاد ہے کہ "قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں "کے نعرے لگانے والے سرفروش لاہور ایئر پورٹ کا راستہ بھول جاتے ہیں اور وطن وآپسی کی دعوت دینے والوں کے فون عین وقت پر بند ملتے ہیں۔