عرصہ دراز سے یہ تاثر پختہ ہو چکا ہے کہ ضمنی انتخابات میں ووٹرز حکومت وقت کے امیدوار کو ترجیح دیتے ہیں کہ وہی گلی محلے کے ترقیاتی کام کراتا اور تھانے کچہری کے معاملات نمٹاتا ہے، عام انتخابات میں البتہ قومی، بین الاقوامی مسائل اور نظریاتی مباحث اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سیاسی پنڈت یہ بات بھی زور دے کر کہتے ہیں کہ کامیابی ضمنی انتخابات میں الیکٹ ایبلز کے قدم چومتی اور پولیس و انتظامیہ مددگار ثابت ہوتی ہے۔ پنجاب کے حالیہ انتخابات کے نتائج نے مگر ان سارے بیانیوں کی مٹی پلید کر دی، حکومتی وسائل کام آئے، نہ پولیٹیکل انجینئرنگ، الیکٹ ایبلز کا جادو چلا نہ پولیس و انتظامیہ کی ننگی مداخلت کارگر ثابت ہوئی۔
مسلم لیگ ن کی جوڑ توڑ، منفی پروپیگنڈے کی صلاحیت کو زنگ لگ گیا اور عمران خان کی زوردار انتخابی مہم، جارحانہ یلغار میں دھونس، دھاندلی، جوڑ توڑ، حکومتی وسائل، پولیس و انتظامیہ کی مداخلت سب جھاڑ جھنکار کی طرح بہہ گئے۔ 17 جولائی کی صبح طلوع ہوئی تو ہر طاقتور، بااختیار اور باوسیلہ کے چہرے پر رعونت، گردن میں سریا، آنکھوں میں شوخی نمایاں، مگر شام آٹھ نو بجے کے بعد حتمی نتائج نے ان کی زبان گنگ کر دی اور جو دانشور، صحافی اور سیاسی پنڈت اپنی سفلی خواہشات پر تجزیئے کا لیبل لگا کر حکمران اتحاد بالخصوص مسلم لیگ کی سیاسی بصیرت، عوامی مقبولیت اور عمران خان کی غیر عملیت پسندی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے تھے وہ ساری ناکامی کا ملبہ میاں شہبازشریف کی عملیت پسندی، حمزہ شہباز حکومت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرنے والے لوٹوں اور ضمیر فروشوں کے خلاف عوامی نفرت اور پرجوش نوجوان ووٹروں کی مثالیت پسندی پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خلاف عین اس وقت عدم اعتماد لانے کا منصوبہ انتہائی ناقص، زمینی، سیاسی و معاشی معاملات سے ناواقفیت کا نتیجہ اور حسِ انتقام کی تسکین کا مظہر تھا، جب عالمی معیشت پر کورونا کے اثرات حاوی تھے اور یوکرین کی جنگ نے اس کی شدت مزید بڑھا دی تھی۔ عمران خان کی مقبولیت کے بارے میں غلط اندازے لگائے گئے، شریف خاندان اور زرداری خاندان کے علاوہ کرپشن کے خلاف حقیقی عوامی سوچ کا کسی کو ادراک ہوا نہ وفاداریاں تبدیل کرنے کے فرسودہ اور قابل نفرت عمل سے نوجوان نسل کی اکتاہٹ کا احساس۔ سوشل میڈیا کی صورت میں آنے والے انقلاب کو کوئی فیصلہ ساز بھی خاطر میں نہ لایا، سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ عمران خان کی شخصیت اور عوام کو متاثر کرنے کی صلاحیت کا دانش مندانہ تجزیہ کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔
عمران خان نے 27 مارچ کو جلسے میں امریکی سائفر لہرایا تو کسی نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ عراق، افغانستان، لیبیا اور شام میں امریکہ کے خون آشام مظالم سے رنجیدہ پاکستان کے کلمہ گو عوام کا ردعمل کیا ہوگا؟ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی، بھٹو کی معزولی و پھانسی سے لے کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جبریہ اعترافی بیان سمیت ان کی روح پر لگے کون کون سے امریکی زخم تازہ ہوں گے؟ یہ بھی کسی نے نہ سوچا کہ 1970ء کے عشرے سے پاکستانی قوم وطن عزیز میں ایسی تبدیلی کی خواہش مند ہے جو امریکی سامراج اور اندرون ملک اس کے گماشتوں سے نجات کی مظہر ہو۔
انتخابی مہم میں عمران خان کے پاس تین نعرے تھے، جاندار، موثر اور قلب کو گرمانے، روح کو تڑپانے والے نعرے۔ قومی خودداری، خودمختاری اور غیرت مندی کا نعرہ، ضمیر فروشوں اور امریکی غلاموں سے نجات کا نعرہ اور جاں لیوا مہنگائی، لوڈشیڈنگ کی ذمہ دار حکومت کے خلاف جہاد کا نعرہ، مریم نواز اور مسلم لیگ ن کے قائدین کا بیانیہ کیا تھا؟ فرح گوگی اور توشہ خانے کے تحائف۔ اللہ اللہ خیر سلاّ۔ ملک میں دس دس بارہ گھنٹے لوڈشیڈنگ سہنے والے عوام کوجب مریم نواز ترنگ میں آ کر بتاتیں کہ میاں نوازشریف نے ملک میں لوڈشیڈنگ ختم کردی تھی تو لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے اور کچھ کہہ نہ پاتے ؎
ہم ہنس دیئے، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ تیرا
لوٹوں اور ضمیر فروش سیاستدانوں کے خلاف نفرت میاں نوازشریف نے 1990ء کے عشرے میں پیدا کی اور 2013ء و 2018ء کے الیکشن میں بھی مسلم لیگ ن چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہونے والوں کو خوب کوسنے دیئے۔ میاں صاحب نے اس ضمن میں پولیٹیکل پارٹنر ایکٹ اور آئین میں موثر دفعات شامل کیں، ابن الوقت الیکٹ ایبلز کی ضمیر فروشی اور موقع پرستی سے تنگ آئے عوام کو میاں صاحب کی ادا پسند آئی مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں ایک نہ دو پورے ڈیڑھ درجن لوٹوں کو مسلم لیگ نے اپنا امیدوار نامزد کیا تو مسلم لیگی کارکنوں کو بھی صدمہ ہوا جبکہ ساڑھے تین سال تک مہنگائی کا ورد کرنے والے مسلم لیگی امیدواروں کے لیے حلقہ کے عوام کا سامنا کرنا آسان نہ رہا، اسی نعرے پر تو انہوں نے عمران خان سے بے وفائی کی اور حکمران اتحاد سے دام کھرے کئے۔ گزشتہ ساڑھے تین سال میں کتنے نئے ووٹروں کا اندراج ہوا اور ان کی اولین پسند کون ہے؟ یہ بھی کسی نے سوچا نہ ان نوجوانوں کے جذبات و احساسات سے واقفیت حاصل کرنے کی سعی و تدبیر کی۔
تحریک عدم اعتماد سے قبل میاں شہبازشریف سے لے کر شاہد خاقان عباسی اور مولانا فضل الرحمن سے لے کر بلاول بھٹو تک سب نے قوم کو یقین دلایا کہ وہ عمران خان کو اقتدار سے محروم کرنے کے بعد زیادہ سے زیادہ دو ماہ میں عام انتخابات کرائیں گے اور عوام کواپنی آزادانہ رائے سے مرضی کے نمائندے چننے کا موقع دیں گے مگر اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے اگلے سال اگست تک حکومت کرنے کے اعلانات شروع کر دیئے، عوام نے اسے بھی اپنی توہین سمجھا اور عمران خان کے دعوے پر یقین کیا کہ یہ مہنگائی ختم کرنے، نئے انتخابات کرانے نہیں بلکہ اپنی چوری بچانے اور امریکی ایجنڈا پورا کرنے کے لیے آئے ہیں، اسی باعث 17 جولائی کو حکمران اتحاد عبرتناک شکست سے دوچار ہوا، اب اپنی ناکامی چھپانے کے لیے کبھی مسلم لیگی کارکنوں کے متحرک نہ ہونے کا بہانہ بنایا جاتا ہے کبھی اپنے دیرینہ ارکان اور امیدواروں کو ٹکٹ نہ دینے کی دلیل پیش کی جاتی ہے اور کبھی اتحادی جماعتوں کے عدم تعاون کا شکوہ۔ لاہور اور ڈیرہ غازی خان کے حلقوں میں مسلم لیگ نے احسن شرافت اور عبدالقادر کھوسہ کی صورت میں اپنے دیرینہ اور مضبوط امیدوار اتارے۔ دونوں شکست سے دوچار ہوئے، عبدالقادر کھوسہ کے مقابلے میں سیف الدین کھوسہ کی لیڈ تقریباً ستائیس ہزار ووٹوں کی ہے۔
عوامی موڈ کو دیکھ کر مسلم لیگ ن کے بعض قائدین نے شکست کے اسباب پر غور کرنے کی بات تو کی مگر ابھی تک حکمران اتحاد کی سینئر قیادت نتائج و عواقب کا ادراک کر رہی ہے نہ ملک میں سیاسی و معاشی عدم استحکام کے خطرات کا اس کو احساس ہے، کوئی مانے نہ مانے، پنجاب میں چودھری پرویزالٰہی کی حکومت قائم ہونے کے بعد شہبازشریف کی سربراہی میں قائم وفاقی حکومت کی سیاسی و معاشی معاملات پر گرفت مزید کمزور ہو گی، سیاسی بحران میں اضافہ ہو گا اور ڈیفالٹ کا اندیشہ بڑھتا چلا جائے گا۔
میاں نوازشریف، آصف علی زرداری، میاں شہبازشریف اور مولانا فضل الرحمن مگر اب بھی حکومتی مدت پوری کرنے اور عمران خان کے مطالبے پر نئے الیکشن نہ کرنے کی ضد پر قائم ہیں حالانکہ یہ عمران خان کا نہیں، عوام کا مطالبہ ہے اور قومی استحکام کا تقاضا، یہ سیاست نہیں ریاست بچانے کا وقت ہے مگر قائدین ملت اب بھی بسم اللہ کے گنبد میں بند، محض اپنے سیاسی اور مالی مفادات کے تحفظ میں مصروف ہیں۔ 17 جولائی سے کسی نے سبق نہیں سیکھا اور سب مل جل کر عوامی صبر و برداشت کا امتحان لے رہے ہیں۔ شاید اس وقت کے منتظر جب مجید امجد کا شعر گنگنانے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو ؎
سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی
تخت و کلاہ و قصر کے سب سلسلے گئے
ناک سے آگے نہ دیکھنے کے خوگر موجودہ حکمرانوں کی اہلیت، فراست اور تجربہ کاری کے ثنا خوانوں سے جاں کی امان پا کر یہ تو پوچھا جا سکتا ہے ؎
یہی شاہکار ہے تیرے ہنر کا؟