آج سے تین سال قبل میری ایک تحریر باعنوان دینی سیاسی جماعتوں کا مستقبل روزنامہ ایکسپریس کراچی میں شایع ہوئی تھی۔ اس کالم کا ابتدائی حصہ اس کالم میں درج کر رہا ہوں۔
"گزشتہ ماہ کراچی میں واقع ایک نجی اسکول میں ایک دینی جماعت کی جانب سے سالانہ تربیتی اجتماع کا انعقاد کیا گیا آخری روز اجتماع عام تھا جس میں مجھے شرکت کا موقع ملا۔ اس اجتماع کے آخری روز ایک کالم نگار تشریف لائے جن کا تعلق ایک دینی سیاسی جماعت کے ایک ترجمان اخبار سے تھا۔ انھوں نے اقامت دین یعنی دین کے عملی نفاذ کی جدوجہد کے حوالے سے ایک پراثر تقریر کی۔
تقریر کے آخر میں انھوں نے فرمایا "قیام پاکستان سے اب تک اقامت دین کی جدوجہد جاری ہے لیکن اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی، اس کی وجوہات چاہے کچھ بھی ہوں ہمیں یہ جدوجہد جاری رکھنی چاہیے، کامیابی ملے یا ناکامی اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، ہمیں اقامت دین کو مذہبی اور دینی فریضہ سمجھتے ہوئے انجام دینا ہے۔"
یہ وہ الفاظ تھے جنھیں میں بڑے غور سے سن رہا تھا۔ محترم کالم نگار کا یہ نقطہ نظر کسی حد تک درست ہے اس کا بہتر جواب تو اہل علم و دانش ہی دے سکتے ہیں میرے نزدیک یہ نقطہ نظر یا اصول ایک مبلغ کے لیے تو ہو سکتا ہے لیکن سیاستدان کے لیے نہیں۔ سیاست کامیابی کے تصور کے بغیر بالکل بے معنی ہے۔ کامیابی کے بغیر سیاست کا کوئی مفہوم نہیں۔ اس لیے دینی سیاسی جماعتوں کو غیر جذباتی انداز فکر اپناتے ہوئے اپنی ناکامیوں کے اسباب پر غور ضرور کرنا چاہیے تاکہ اس کی روشنی میں اس کے تدارک کے ذریعے کامیابی کے عمل کو یقینی بنایا جاسکے۔"
آئیے آج کے کالم میں دینی سیاسی جماعتوں کی ناکامی کے اسباب کا جائزہ لیتے ہیں۔ کارل مارکس نے کہا تھا کہ اگر اہل مذہب کی جانب سے کوئی سیاسی دعویٰ کیا جاتا ہے تو یہ موضوع مذہبی نہیں رہتا بلکہ سیاسی بن جاتا ہے اس لیے اسے سیاسی دائرے رکھ کر دیکھنا چاہیے۔ کارل مارکس کے اس بیان کے تناظر میں ہم دینی سیاسی جماعتوں کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت اپنے سماج کی تشکیل میں مذہب کو ایک بنیادی فیکٹر یعنی عامل کے طور پر قبول کرتی ہے تو جمہوری اقدار کا تقاضا ہے کہ ان کے اس حق کو قبول کیا جائے۔
دینی سیاسی جماعتوں نے اس اصول کی بنیاد پر جنم لیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں دینی سیاسی جماعتیں سیاسی میدان میں مصروف عمل ہیں۔ پاکستان میں دینی سیاسی جماعتیں ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ منظم اور متحرک ہیں ان کا وسیع نیٹ ورک موجود ہے لیکن اس کے باوجود دینی سیاسی جماعتیں عوام کی اکثریت کی حمایت کے حصول میں ناکام رہی ہیں۔ پاکستان میں زیادہ پذیرائی انھیں جماعتوں کو حاصل رہی ہے جو اپنے نظریات، منشور اور مزاج کے حوالے سے لبرل اور سیکولر سمجھی جاتی رہی ہیں۔
اس ضمن میں یہ عام تاثر ہے کہ ملک کے عوام بالخصوص بااثر اور بالادست طبقات یہ سمجھتے ہیں کہ مولوی حضرات کا دائرہ عمل مساجد اور مدارس تک محدود ہے نظام حکومت چلانے کی نہ ہی ان میں صلاحیت ہے اور نہ ہی ان کے بس کا روگ۔ اس لیے انھیں سیاست میں حصہ لینے کے بجائے اپنے دائرہ عمل تک محدود رہنا چاہیے اس طرز فکر کی وجہ سے اسلامی زندگی یعنی پوری زندگی کو دین اسلام کے مطابق ڈھالنے جانے والا نظریہ عوام میں مقبولیت حاصل نہ کرسکا جس کی وجہ سے دینی سیاسی جماعتیں سیاسی میدان میں ناکام رہی ہیں۔
ناکامی کی دوسری بڑی وجہ سیاسی نظام میں جوڑ توڑ، جھوٹ، مکاری، روپے پیسے کا بے دریغ استعمال، غنڈہ عناصر کی پشت پناہی، دھاندلی، انتظامی اثر و رسوخ کا استعمال ایسے عوامل ہیں جو کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے ہیں۔ دینی جماعتوں کا دینی تشخص ان کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ سب کچھ اس طرح کریں اس طرح کرنے سے ان کا دینی تشخص متاثر ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام ہی نہیں بلکہ ان کے حامی ووٹر بھی ان سے دور ہو جاتے ہیں۔ یہ صورتحال انھیں ناکامی سے دوچار کردیتی ہے۔
ناکامی کی تیسری بڑی وجہ دینی سیاسی جماعتیں عوام کے اصل دکھ اور مسائل کو سمجھنے اور محسوس کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ان کا زیادہ زور معاملات کی درستگی کے بجائے عقائد کی درستگی رہا ہے۔ عوام کا اصل مسئلہ اقتصادی ہے۔ اس جانب توجہ نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے عوام ان سے دور ہیں۔ یہ عمومی اعتراضات ہیں میرے نزدیک دینی سیاسی جماعتوں کی ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے۔ دینی سیاسی جماعتیں یہ بات سمجھنے میں قطعی ناکام رہی ہیں کہ سیاست حالات کے تابع ہوتی ہے۔ معاشرہ متواتر تبدیل پذیر ہوتا ہے۔ جیسے ہی حالات تبدیل ہو جاتے ہیں خیالات اور نظریات بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔
سیاست میں مقاصد حاصل کرنا اولین حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں اصولوں پر رہتے ہوئے حکمت عملی میں تبدیلی لازمی ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں اختلاف رائے کو نہ صرف برداشت کیا جاتا ہے بلکہ اسے سیاست کا حسن اور خوبصورتی بھی قرار دیا جاتا ہے اس میں سمجھوتے کے ذریعے عمل کی راہیں متعین کی جاتی ہیں لبرل اور سیکولر جماعتیں اسی اصول پر کام کرتی ہیں جس کی وجہ سے معاشرے کے تمام طبقات کی حمایت انھیں حاصل ہو جاتی ہے اور وہ کامیابی سے ہم کنار ہو جاتی ہیں۔
دینی سیاسی جماعتوں کے لیے یہ عمل انتہائی دشوار ہوتا ہے انھیں وہی فیصلے کرنے ہوتے ہیں جو دینی نقطہ نظر سے درست ہوں ایسے میں ان کا دائرہ عمل محدود ہو جاتا ہے اور جمود کا شکار ہو جاتی ہیں اگر وہ حالات کے تناظر میں فیصلے کرتی ہیں تو یہ فیصلے ان کے فکری سرمائے سے متصادم ہوتے ہیں۔ نتیجے میں یہ جماعتیں فکری انتشار کا شکار ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔
نتیجے میں گروپ بندی ان کو انتخابات میں ناکامی سے دوچار کردیتی ہے۔ ایسے حالات میں بعض عناصر کی جانب سے اسلامی انقلاب کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے یہ حقیقت ہے کہ انقلاب دنیا میں نظام کی تبدیلی کا ایک بڑا ذریعہ رہا ہے لیکن اس طریقہ کار کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس نظام پر امن انتقال اقتدار کا طریقہ واضح نہیں ہوتا۔ اس سے معاشرے میں مسلح تصادم کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس سے ریاست اور معاشرہ دونوں ہی سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے پوری دنیا میں طاقت کے ذریعے تبدیلی کو غیر آئینی قرار دیا جاتا ہے۔
ایسے حالات میں ووٹ ہی ایسی طاقت ہے جس کے ذریعے معاشرے میں تشدد سے پاک اور پرامن تبدیلی کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ یاد رکھیں سیاسی عمل کی اپنی الگ قوت محرکہ ہوتی ہے جو شروع میں بہت آہستہ کام کرتی ہے لیکن بعد میں زور پکڑجاتی ہے۔ اگر جمہوری عمل تسلسل سے جاری رہے تو یہ کامیابی سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔