15جون 2011کو پشاورکے اخبارات کی چندسر خیاں اور خبریں۔
"پشاوربورڈ۔ میٹرک نتائج، نجی اسکولوں کی طالبات پھر بازی لے گئیں، پہلی تین پوزیشنوں سمیت ٹاپ 20پوزیشنیں طالبات لے اڑیں، نتائج مجموعی طور پر 79.45فی صد رہے، سرکاری اسکول پھر ناکام، تمام ٹاپ 20پوزیشنیں نجی اسکولوں کی طالبات نے حاصل کیں "۔
ایک اور خبر کے مطابق "مردان بورڈ کے میٹرک نتائج، تمام ٹاپ 20پوزیشنیں نجی اسکولوں کے طلباء لے گئے، سرکاری اسکولوں کی کارکردگی غیر تسلی بخش"۔ ایک اور خبر کے مطابق "سیکنڈری بورڈ مردان کے میٹرک کے نتائج کے حوالے سے سرکاری اسکولوں نے ناقص کارکردگی کا اعزاز برقرار رکھا، سرکاری اسکولوں کا کوئی طالب علم پوزیشن حاصل نہ کرسکا، جب کہ ٹاپ 20کی تمام پوزیشنیں نجی اسکولوں کے طلباء نے حاصل کیں "۔
اپنے زمانے کے سرکاری اسکولوں کو یاد کرتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ ممتحن حضرات نمبر دینے میں کتنے کنجوس تھے، کاش وہ آج زندہ ہوتے اور ممتحن حضرات کی نمبر دینے میں دریا دلی دیکھتے۔
میں نے گورنمنٹ ہائی اسکول مرغز سے میٹرک کا امتحان دیا، ہمارے استاد تو بہت اچھے تھے لیکن ہمارے پرنسپل محترم سید حسن مرحوم انتہائی ڈسپلن کے پابند اور علمی شخصیت کے مالک تھے، میٹرک کے امتحان میں میرے دوست مرحوم ڈاکٹر ریاض اسکول میں اول آئے اور میں دوسرے نمبر پر تھا، اس وقت پشاور کا ایک ہی بورڈ تھا، اس میں میرا ساتواں نمبر آیا تھا، آپ اندازہ لگائیں کہ میرے نمبر 671/900تھے، یہ معیار تھا نمبر دینے کا، مجھے بورڈ کی طرف سے بھی اسکالر شپ دیا گیا اور ایڈورڈز کالج سے باقاعدہ دعوت آئی کہ اگر آپ ہمارے کالج میں داخلہ لیں گے تو آپ کو200روپیہ نقد اور داخلہ فیس کی معافی ہوگی، اس وقت 200روپے بہت زیادہ تھے کیونکہ سارے مہینے کا جیب خرچہ 50روپے ملتاتھا، ان میں بھی ہم عیش کرتے تھے۔
میں نے اپنی زندگی میں بہت سے اچھے اساتذہ سے تعلیم حاصل کی ہے لیکن دو پرنسپل صاحبان نے بہت متاثر کیا، ایک مرغز ہائی اسکول کے پرنسپل مرحوم سید حسن صاحب اور دوسرے ایڈورڈز کالج کے پرنسپل محترم فل ایڈمنڈنے۔ کیا بہترین منتظم تھے اور کیا ان کا تعلیم کا اسٹائل تھا، دونوں کو میں ہمیشہ دعائیں دیتا ہوں۔
موجودہ میٹرک اور ایف ایس سی کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں کے بچے بہت جلد چاند کی طرف اڑان بھریں گے، کیونکہ اتنے ذہین ہیں کہ 1100میں 1094-1095-1098کو پیچھے چھوڑ کر 1100/1100نمبر بھی لے سکتے ہیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے طالب علم ہر لحاظ سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا حصہ بننے کے قابل ہیں، جہاں تک سرکاری اسکولوں کا حال ہے تو عمران خان کے بلند دعوئوں کے باوجود آج بھی بری حالت میں ہیں، کوئی بھی اسکول پوزیشن حاصل نہ کر سکا۔ پوزیشن تو کیا کوئی بھی اسکول تعلیم کے قابل نہیں۔
جہاں تک پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کا تعلق ہے، ان میں زیادہ تر تعلیمی اداروں سے حال ہی میں فارغ ہونے والے لڑکے ہوتے ہیں۔ M.Ed) (PTC-CT-SET-B.Ed- جیسی تعلیمی ڈگریوں کے حامل نہیں ہوتے، تعلیم سے فارغ ہوکر بیروزگاری کی وجہ سے ان نجی اسکولوں میں کم تنخواہ پر بھی کام کرتے ہیں، عام طور پرنجی اسکولوں میں بہت کم تنخواہ دی جاتی ہے، اکثر یہ تنخواہیں سرکاری اسکولوں کے کلاس فور ملازمین سے بھی کم ہوتی ہیں، یہ تمام تعلیمی ادارے کرائے کی عمارتوں میں قائم ہوتے ہیں، بلڈنگ بھی زیادہ معیاری نہیں ہوتی، ایک حقیقت ماننی پڑے گی کہ ان نجی اسکولوں کو چونکہ کمرشل بنیادوں پرچلایا جاتا ہے، اس لیے لڑکوں سے فیس زیادہ وصول کرتے ہیں، محنت بھی بہت کرتے ہیں اور آپس میں ہمیشہ مقابلے کی فضاء بھی قائم رکھتے ہیں، بورڈامتحانات سے تین ماہ قبل لڑکوں کو ہاسٹل منتقل کردیا جاتا ہے، جہاں پر اساتذہ رات کے بارہ بجے تک کلاسیں لیتے ہیں۔
"خون پسینہ ایک کرنے" کا محاورہ ان اسکولوں پر صادق آتا ہے، بہتر نتائج کے لیے ہر جائز ناجائز حربہ استعمال کرتے ہیں، نتائج کے اعلان کے بعد اخبارات نجی تعلیمی اداروں کے اشتہارات سے بھرے ہوتے ہیں، ان میں طلباء کو داخلوں کے لیے مختلف ترغیبات کے اعلانات بھی ہوتے ہیں۔
ان نجی تعلیمی اداروں کے مقابلے میں اگر سرکاری اسکولوں کا جائزہ لیں تو "فرق صاف ظاہر ہے"۔ یہ تو سچ ہے کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو اپنی مجموعی قومی پیداوار کا صرف دو سے لے کر چار فی صد تک تعلیم پر خرچ کرتا ہے، اس رقم کا بھی زیادہ تر حصہ غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں چلا جاتا ہے، محکمہ تعلیم کے اداروں سے منسلک ملازمین کی تعداد غالباً سیکیورٹی اداروں سے بھی زیادہ ہے، محکمہ تعلیم میں گریڈ ایک سے لے کر گریڈ 22تک لاکھوں ملازمین ہیں، ہر ملازم کو، میڈیکل بل، ہائوس رینٹ اور دیگر الائونسز ملاکر اچھی خاصی تنخواہ ملتی ہے، کوئی بھی استاد بغیر ٹریننگ کے نہیں ہوتا کوئی PTCہے تو کوئی CTہے، کوئی SET ہوتا ہے تو کوئی B.Ed ہوتا ہے اور کوئی M.Ed.۔
عمارتیں اپنی ہوتی ہیں اور اسکولوں کے معیار کے مطابق تعمیر کی جاتی ہیں، ان میں گرائونڈز، لیبارٹری، لائبریری اور دفاتر، کامن روم اور اساتذہ کے بیٹھنے کے لیے اسٹاف روم بھی ہوتے ہیں، بجلی، پانی، پنکھوں وغیرہ کا انتظام ہوتا ہے اگر کچھ کمی ہو تو وہ بھی ناقابل ذکر۔ اس کے باوجود اگر نتائج نجی اسکولوں کے بہتر ہوں اور افسوس کا مقام ہے کہ وزیر اعلیٰ سے لے کر استاد تک سرکاری ملازمین بھی جو تنخواہ سرکاری اسکولوں کے بچوں کا معیار تعلیم بلند کرنے کی وصول کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں، کیا یہ صورت حال قابل برداشت ہے؟ ، عوام کو آخر کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے؟ کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ اگر حکومت اپنے تعلیمی ادارے نہیں چلا سکتی تو ان کو کسی پرائیویٹ اسکول کی انتظامیہ کو ٹھیکے پر دے دیا جائے، حالانکہ تعلیم دینا ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے۔
صوبائی وزیر تعلیم نے اعتراف کیا ہے کہ سرکاری اسکولوں کی حالت قدرے کمزور ہے، جس کے تدارک کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، وہ ایک نجی اسکول میں تقریب سے خطاب کر رہے تھے، پچھلے کم از کم بیس سالوں میں مجھے یاد نہیں کہ کبھی سرکاری اسکولوں کے بچوں نے کوئی پوزیشن حاصل کی ہو۔ حکومت کی پالیسی کبھی تعلیم یا سرکاری اسکولوں کی سرپرستی نہیں رہی، کس ڈھٹائی سے وزیر تعلیم صاحب کہتے ہیں کہ "سرکاری اسکولوں کی حالت خراب ہے جس کے تدارک کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں "
حکومت کو تین سال پورے ہوچکے ہیں اور چوتھا سال جا رہا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اب حکومت کے پاس دو سال سے کم عرصہ رہ گیا ہے، محکمہ تعلیم صوبائی حکومت کا سب سے بڑا محکمہ ہے۔ یہاں پر تقرریاں، تبادلے، تعمیراتی کام اور ٹھیکے بہت ہوتے ہیں، ٹھیکوں پر کمیشن بھی اچھا ملتا ہے، اسی لیے تو تعلیم کی وزارت کو (prized portfolio) ایک انعام سمجھاجاتا ہے، بد قسمتی سے ہر وزیر تعلیم معیار تعلیم بہتر بنانے کے بجائے دیگر مسائل میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
یکساں نظام تعلیم اور دیگر اصلاحات سے قبل حکومت کو سرکاری اسکولوں کی حالت زار بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ اگر ہر سرکاری تنخواہ لینے والا ملازم اگر اپنے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں داخل کرے اور ہر ملازم اپنے خاندان کا علاج سرکاری اسپتالوں میں کرے تو ان اداروں کی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔