Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Kya Ye Riasat e Madina Ka Tareeqa Hai

Kya Ye Riasat e Madina Ka Tareeqa Hai

آج کل وزیر اعظم صاحب کی تقاریر سننے کو مل رہی ہیں، ہر روز ریاست مدینہ کی باتیں، رسول اللہﷺ کی مثالیں، صحابہ کرام کے تذکرے، عید میلاد النبی ؐمنانے کے لیے "رحمت اللعالمینﷺ"نامی ادارے کا قیام، اتنی مذہبی تقریریں اورباتیں تو جنرل ضیاء الحق نے بھی نہیں کی تھیں، اگر حساب لگایا جائے تو تین برسوں میں ریاست مدینہ کے دعویداروں نے اتنی تقریریں کی ہیں کہ اب یہ تقاریر ہر کسی کو زبانی یاد ہو گئی ہیں۔

آئی ایس آئی کے ڈائرکٹر جنرل کی تعیناتی کا مسئلہ آیا تو وزیر اعظم صاحب نے ایک تقریر میں، حضرت عمرؓکی طرف سے حضرت خالد بن ولید کی برطرفی کے واقعے کا ذکر کردیا، معلوم نہیں ان کا اشارہ کس طرف تھا اور یہ واقعہ سنانے کا مقصد کیا تھا یا کس کو سنا رہے تھے؟ بہرحال اب تک واضح نہ ہوسکا کہ ریاست مدینہ کے تکرار سے عمران خان صاحب کا مطلب کیا ہے؟

ریاست مدینہ میں حضور اکرمﷺ کی وفات کے بعد خلفائے راشدین کے زمانے میں خلافت کا نظام نافذ تھا، اس نظام میں عدل و انصاف کا نفاذ تھا۔ خلفائے راشدین کے بعد جب اسلامی دنیا میں بادشاہت کا نظام نافذ ہوا تھا تو آپس کی سازشوں، لڑائیوں اورظلم وجبر کی داستانوں سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ اب اگر واقعی مدینے کا نظام نافذ کرنا ہے تو پہلے اپنے اطوار تو ان جیسے کریں، ایک طرف یہ سہانے سپنوں بھری تقریریں، جب کہ دوسری طرف گورننس اور پرفارمنس ایسی کہ لوگ بقول شاعر ؎

نہ بوئے گل نہ باد صبا مانگتے ہیں لوگ

اتنا حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ

عمران خان کے ایک وزیر صاحب فرماتے ہیں کہ " عوام کو چاہیے کہ دو کے بجائے ایک روٹی کھائیں، دس کے بجائے نو نوالے کھایا کریں، چائے کی پیالی میں نو دانے چینی کم استعمال کریں، خود ان وزراء کی شامیں اور محفلیں کتنی بڑی ہوتی ہیں اور ان میں کیا کیا ہوتا ہے تو انسان سر پکڑ کر بیٹھ جائے۔

خان صاحب نے دوران جنگ حضرت عمرؓ کی طرف سے اپنے سپہ سالار خالدؓ بن ولید کی برطرفی کا ذکر تو کیا لیکن کیا انھوں نے حضرت عمر ؓکی زندگی اور طرز حکمرانی کا بھی معلوم کیا ہے یا صرف اسی ایک واقعہ کا ذکر سنا ہے، ان کی سلطنت کا رقبہ 25 پاکستانوں سے بھی بڑا تھا، عادل اتنے کہ جرم ثابت ہوا تو اپنے بیٹے کو بھی کوڑوں کی سزا دی، نہ کہ ہیلی کاپٹر کیس، مالم جبہ، بی آر ٹی، آٹا، گندم، چینی، پٹرول گھپلوں، نجی بجلی گھر اور اس طرح دوسرے کرپشن کیسوں میں جب اپنوں کے نام آئیں تو حکمرانوں کی طرف سے آنکھیں موند لی جائیں، حضرت عمرؓ تین سو کنال کے عالی شان محل میں نہیں رہتے تھے، وہ دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر روزانہ ہیلی کاپٹر میں نہیں آتے جاتے تھے۔

انھوں نے کبھی اپنی بات پر یو ٹرن نہیں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مرجائے تو اس کا ذمے دار بھی میں ہی ہوں گا، انھوں نے کبھی اپنے چہیتوں کو اعلیٰ عہدے نہیں دیے تھے، انھوں نے اپنے دور حکومت میں بہت سی اصلاحات کیں اورآج کے حکمران اصلاحات کے نام سے ڈرتے ہیں، ان کے دور میں مہنگائی، بے روزگاری، غربت اور جرائم کا یہ عالم نہیں تھا، بلکہ روم سے لے کر ایران تک کبھی کوئی قافلہ یا فرد نہیں لوٹا گیا۔

آج کے دور میں ملک کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے وہ توسب کو معلوم ہیں۔ حکمرانوں نے نواز شریف کی نفرت میں پورے خزانے کو لٹا دیا لیکن نواز شریف کے خلاف کچھ نہیں نکلا، البتہ براڈ شیٹ کو لاکھوں ڈالر کا فائدہ پہنچایا گیا۔

27-10-21کولاہور کے جو ڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے ترک کمپنی کے ارکان کے خلاف درج FIR میں ان کو بری کردیا، یہ FIRوزیر اعظم کے سپیشل اسسٹنٹ جناب شہباز گل نے درج کرائی تھی۔ عدالت کے فیصلے سے ثابت ہوا کہ شہباز گل کے کمپنی کے افسران کے خلاف الزامات غلط تھے۔

26ستمبر0 202کو ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کے دوران شہباز گل نے ترکی کی اس کمپنی پر الزام لگایا تھا کہ اس نے شہباز شریف کے ساتھ مل کر میٹرو بس کو چلانے کے ٹھیکے کو حاصل کرنے کے لیے شہباز شریف اور ان کے بیٹے سلمان شہباز کو رشوت دی، اس الزام کے بعد کمپنی نے شہباز گل کے خلاف ہتک عزت کا دعوے کیا۔ عدالت نے کہا کہ کمپنی کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے اس لیے ان کو با عزت بری کیا جاتا ہے۔

ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے کہا ہے کہ NHAنے 2014سے 2018کے درمیان دیے گئے ٹھیکوں میں ایک ہزار ارب روپے کی مبینہ کرپشن کے حوالے سے اپنے ہی وزیر کے بیان کی نفی کی ہے، 18اکتوبر 2018کو سیکریٹری کمیو نیکشنز کو لکھے گئے خط میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے NHA کے سینئر عہدیدار کا بیان بھی جاری کیا ہے، جس میں انھوں نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ "بدقسمتی سے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے حکام بالا بات سمجھیں اور ایسے بیانات نہ دیں۔ NHAکا کئی مرتبہ آڈٹ کرایا گیا ہے اورمعمول کے مشاہدات کے سوا کوئی اور بات سامنے نہیں آئی۔

27ستمبر2021کو لندن کی عدالت نے شہباز شریف اور ان کے بیٹے سلمان شریف کے بینک اکاؤنٹ کو کھولنے کا حکم دے دیا، یہ اکاؤنٹ شہباز شریف اور سلمان شریف کے خلاف نیشنل کرائم ایجنسی کی درخواست پر بند کیے گئے تھے۔

حکومت پاکستان نے لندن کی NCAایجنسی کو درخواست دی تھی کہ شہباز اور سلمان نے پاکستان میں رشوت اور کک بیکس سے حاصل کی گئی رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے لندن منتقل کی ہے، NCA نے عدالت کی مدد سے شہباز اور سلمان کے بینک اکاؤنٹ بند کردیے اور تفتیش شروع کی۔ یہ ایجنسی عالمی سطح پر اپنی اچھی کار کردگی کی وجہ سے مشہور ہے۔

ایجنسی نے 17مہینے تک تفتیش کی، اس نے شہباز شریف کے پچھلے بیس سال کے مالی معاملات کی تفتیش کی، اس دوران ایجنسی کو شہباز شریف اور اس کے خاندان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا، ایجنسی نے عدالت میں رپورٹ پیش کی اور اس میں صاف لکھا کہ ان کے خلاف کوئی بے ضابطگی یا منی لانڈرنگ کا ثبوت نہیں ملا، عدالت اور ایجنسی دونوں نے صاف لکھا ہے کہ یہ کیس حکومت پاکستان کی ایما پر شروع کیا گیا تھا۔

ان تمام الزامات پر ابھی تک کسی نے معافی نہیں مانگی اور حکمرانوں نے بھی اپنے نائبین کی سرزنش نہیں کی۔ کرپشن کے کیسوں پر خاموشی کیونکہ اس میں اپنوں کے نام آتے ہیں اور دوسروں پر غلط الزامات کی بوچھاڑلگاناکیا یہ ریاست مدینہ کے لچھن ہیں؟