افغانستان امریکی چنگل سے آزاد ہوکر طالبان کے قبضے میں آگیا، جمہوریت پسند افراد وہاں سے بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عجیب زمانہ آگیا ہے کہ افغانستان پر راسخ العقیدہ مسلمان پختونوں کی حکومت سے مسلمان پختون ملک سے بھاگ رہے ہیں۔
ایک بنیادی سوال میرے ذہن میں کافی عرصے سے گردش کر رہا ہے اور مجھے تنگ کر رہا ہے، سوال یہ ہے کہ " پختون خود مختاری کی قومی تحریکیں "اور اس کی مختلف شکلیں، باوجود بیش بہا قربانیوں کے، قومی حقوق کے اپنے اہداف حاصل کرنے میں ابھی تک کامیاب کیوں نہ ہوسکیں؟ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ایسا دور بہت کم گزرا ہے کہ جب پختونوں نے اپنے ملک میں امن، ترقی دیکھی ہو، ہر دور میں بیرونی حملہ آوروں ان کے ملک کو روندتے رہے، اگر کچھ عرصے سے بیرونی حملہ آور نہیں آئے تو پختون قبائل باہمی آویزشوں میں الجھے رہے اور یہ قوم ہمیشہ غیروں کی غلام رہی یا غیروں نے ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
آج کل دائیں بازو کے دانشور یہ فرمارہے ہیں کہ افغانستان بڑی سلطنتوں کا قبرستان ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ ابھی تک پسماندہ اورغیر مستحکم چلا آرہا ہے۔ صرف احمد شاہ ابدالی کے دور کے سوا پختون کبھی بھی خودمختاری حاصل نہ کرسکے اور آج تو بہت سے ٹکڑوں میں تقسیم ہیں۔ آخر کیوں اور اب ان مشکلات سے نکلنے کا حل کیا ہو سکتا ہے؟
ڈارون نے جب فطرت میں جانوروں اور پودوں کی مختلف نسلوں کی بقاء اور بعض نسلوں کے معدو م ہو نے کی وجوہات پر طویل تحقیق کی تو انھوں نے (Survival of the fittest) کا بنیادی اصول دریافت کیا، یہ اصول معاشروں اور نظریات پربھی لاگو ہوتا ہے، انھوں نے اس اصول کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے۔
"It is not the strongest of the species that survives nor the most intelligent that survives.It is the one that is most adoptable to change".-
(طاقتور اور ہوشیار نسلیں فطرت میں اپنی بقاء میں اکثرناکام ہوتی ہیں اور ختم ہوجاتی ہیں، صرف وہ نسلیں قائم رہتی ہیں جو ماحول کی تبدیلی کے ساتھ خود کوبدلنے کی صلاحیت اوراہلیت رکھتی ہوں)۔
اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ہم اپنے قوم پرستی کے نظریے کے اہداف کا از سر نو جائزہ لیں اور وہ راستے اور طریقے اختیار کریں جن سے ہم گلوبلائیزیشن اور موجودہ ملٹی پولر دنیا کے اندر پاکستان میں بسنے والی تمام قومیتوں کے مسائل حل کرنے کی طرف پیش رفت کر سکیں۔ بعض دوستوں کے رویے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ پختون قومی تحریک کی ابتداء خدائی خدمتگار تحریک سے ہوئی ہے، ان کی اطلاع کے لیے پختون قومی تحریک کا ایک مختصر جائزہ لینا مناسب ہوگا۔
پختونوں کا خطہ ہمیشہ حملہ آوروں کا شکار رہا، اسی لیے قومی تحریکیں ہر دور میں موجود رہی ہیں اور اس کی شکلیں بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی ہیں، پیر روخان کی قومی تحریک، خوشحال خان خٹک، عمراخان جندول اور فقیر ایپی کی اس طرح دوسری تحریکیں، ہر تحریک کے زمانے الگ الگ تھے، اس لیے ان کی شکلیں بھی جدا تھیں لیکن قوم کی فلاح و بہبود کا جذبہ ایک تھا، اگر یہاں انگریزی عملداری نہ ہوتی تو سیاسی پارٹیاں بھی نہ بنتیں، اگر دیکھا جائے تو ایک طرف انگریزی عملداری کے علاقوں میں سیاسی تحریک چل رہی تھی، تو اسی وقت وزیرستان میں فقیر ایپی، ملاکنڈاور دیر میں جندول کے عمراخان، ہڈے ملا صاحب اور مہمند علاقے میں حاجی صاحب ترنگزئی انگریزی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد میں مصروف تھے کیونکہ یہ علاقے انگریزی سیاسی نظام کے تحت نہیں تھے اور یہاں پرانا قبائلی نظام موجود تھا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ خدائی خدمتگار تحریک پختون قوم پرستی کی ابتداء نہیں تھی بلکہ قوم پرستی ہمیشہ سے پختون بلکہ دنیا کے ہر قوم میں موجود رہی ہے، ایرانی بالادستی کے خلاف پختونوں کی مزاحمت کے ہیرو اور پہلے حکمران میروس نیکہ تھے اور پختونوں کی پہلی ریاست کے قیام کا بانی احمد شاہ بابا اور انگریزوں اور مغلوں کی حکمرانی کے خلاف لڑنے والے ہزاروں پختونوں کا تعلق بھی خدائی خدمت گار تحریک سے نہیں تھا۔
پختونوں اور خاص کر یوسف زئی اور بعد میں محمد زئی قبائل نے مغل سردار الغ بیگ سے بغاوت کی تو یہ بھی قوم پرستی تھی، ہلمند کی بہادر بیٹی ملالہ، ایمل خان مہمند، دریا خان آفریدی اور عجب خان آفریدی کا تعلق بھی کسی سیاسی پارٹی سے نہیں تھا لیکن وہ بہت بڑے قوم پرست تھے۔ پیر روخان نے جب مغل حکمرانوں اور ان کے پروردہ پیروں کے خلاف جہاد شروع کیا تو اس وقت سیاسی پارٹیاں موجود نہیں تھی نہ ان کو سیاست آتی تھی، خوشحال خان خٹک کی مغلوں کے خلاف آزادی کی جنگ بھی قوم پرستی کی مثالیں ہیں، جب یوسف زئی، ملک کالوخان کی قیادت میں مغلوں اور مقرب خان کی قیادت میں سکھوں اور انگریزوں سے برسرپیکار تھے تو اس وقت کسی پارٹی کا نام نہیں تھا۔
حاجی صاحب ترنگزئی، ہڈے ملا صاحب اور فقیر ایپی بھی قوم پرست تھے لیکن کسی پارٹی میں نہیں تھے، اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدائی خدمتگار تحریک سرمایہ دارانہ جمہوریت کے دور میں مسلح لشکر کے بجائے، سیاسی پارٹی کی منظم شکل میں، اس تحریک کا تسلسل تھی جو پختونوں کے ہزاروں سال کی تاریخ میں ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے۔
جب دنیا دو قطبی تھی تو قومی تحریکوں کا مقصد نوآبادیاتی طاقتوں سے آزادی تھا اور اس جدوجہد میں سوشلسٹ کیمپ ان کا ہمدرد اور ہمنوا تھا، اب نوآبادیاتی دور کے خاتمے اور سوشلسٹ کیمپ کے انہدام کے بعد قوم پرستی کا پرانا ماڈل اب متروک ہوچکا ہے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ نیشنلزم کے نئے اہداف اور نئی شکلیں اختیار کی جائیں۔ پختون خطے کو جو مسائل درپیش ہیں، وہ کوئی ایک پارٹی حل نہیں کرسکتی اس کے لیے ایک قومی تحریک کی ضرورت ہے، ہر پختون کو قوم پرست بننا ہوگا۔
انگریزی سامراج کے خلاف جنگ آزادی میں ہر طبقہ شامل تھا لیکن مقاصد پر اختلاف تھا مسلمانوں کے ایک طبقے کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو ایک الگ ملک پاکستان بنانا چاہیے تاکہ وہاں وہ اپنی حکومت کرسکے، مسلمانوں کی بہت سی پارٹیاں متحدہ ہندوستان کی حامی تھیں، اب ستم ظریفی دیکھیے کہ نظریہ پاکستان کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتیں اس ملک کے مامے بن گئے اور سب سے زیادہ آزادی کے لیے قربانیاں دینے والی خدائی خدمتگار تحریک ملک دشمنوں کی صف میں کھڑی کردی گئی، قید وبند کی صعوبتیں اور ظلم کے شکار صرف قوم پرست ہوئے۔
آخر قیادت نے اب پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کیا اور پاکستان کا سب سے بڑا پرچم جناح پارک پشاور میں فخر سے لہرایا تو یہ قدم پہلے کیوں نہیں اٹھایا گیا اور افغانستان کے پسماندہ معاشرے سے پختونوں کی آزادی کی توقعات کیوں وابستہ کیں؟ اس سوال کا جواب کون دے گا۔