بھٹکتے بھٹکتے بلآخر وہیں آکے ٹھہرے، جہاں سے چلے تھے، کچھ تو یہ کیری لوگر بل کی وجہ سے ہوا کہ جب امریکا نے اپنی امداد کو پاکستان میں سول حکومت کے ہونے سے مشروط کردیا اور پھر کچھ امریکا کی ہندوستان سے بڑھتی ہوئی قربت، ہم کیا کرتے؟
خطے کے اعتبار سے ہم اتنی بڑی دفاعی حقیقت اورایٹمی طاقت ہوتے ہوئے بھی، مگر ہم پر مغرب کا اعتبار نہ رہا۔ پاکستان میں آمریت کو ایک بیانیہ چاہیے تھا، یہ سیاستدان کرپٹ ہیں، سول ادارے کام نہیں کرتے، عدالتیں انصاف نہیں دیتیں۔ انھوں نے مگر آئین کو براہ راست برا نہیں کہا ہے۔ یہ آئین لباس تو رہا مگر لباس میں سے آئین کی روح کو نکال دیا گیا۔ مغرب یہ بھی جان گیا کہ ہماری جمہوریت ایک لباس ہے، حقیقت نہیں۔
انھیں پاکستان کے بنے بیانیے سے خوف آنے لگا، انھوں نے پابندیا ں عائد کرنا شروع کردیں۔ ہمیں اس وقت فکر نہ تھی، جب ہمیں چین کی صورت میں ان کا نعم البدل مل گیا۔ چین کے پاس اس وقت کیا تھا وہی سرد جنگ کی شروعات کا ماڈل، قرضے لو اور مقروض ہوجائو۔ مگر یہ قرضے مغرب کی نسبت زیادہ سخت شرائط والے تھے۔ جب ہم خود اپنے ملک سے وفادار نہ تھے تو کوئی دوسرا کیوں ہو؟
چین نے ایران سے دوستیاں بڑھادیں۔ امریکا وہاں بھی پہنچنے کی سوچ رہاہے، وہ ایران کو تنہا پرستی سے نکالنا چاہتا تھا۔ ہماری مجبوری سعودی عرب اور دبئی تھے۔ ہمارے تارکین وطن وہاں کام کرتے ہیں اور اربوں ڈالر ہمیں بھیجتے ہیں۔ یہ ہمیں بڑی دیر بعد سمجھ آیا کہ مقروض ریاستیں خود مختار اور آزاد نہیں ہوا کرتیں۔ خان صاحب جو وزارت عظمیٰ لے بیٹھے، وہ سمجھے کہ وہ معاملات کو درست کرلیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان کی پالیسیوں کے سبب ہم سے سعودی عرب بھی ناراض اور یواے ای بھی۔
دوسری طرف امریکا، یورپی یونیں اور جاپان چین کی بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو اب انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ امریکا کو افغانستان سے جانے کی بھی جلدی ہے۔ جب یہ بات سب پر عیاں ہوئی کہ امریکا افغانستان سے جارہا ہے سب یہ سمجھے کہ یہ بہت برا ہوا اور حالات اب مزید خراب ہوں گے مگر پاکستان پہلے سے ہی امریکا سے مذاکرات میں مصروف تھا۔
سعودی عرب، دبئی وغیرہ نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیاں غلط فہمیوں کو کم کرایا ہے جس کی وجہ سے لائن آف کنٹرول پر کسی حد تک امن قائم ہوا ہے اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ ہندوستان کے ساتھ تجارت کے بند دروازے بھی کھل جائیں جو ہرحال حقیقت پسندانہ عمل ہوگا۔
ہمیں اس بات کا بھی علم ضرور ہوناچاہیے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کسی پارلیمان یا سول قیادت نے نہیں بنائی، ماسوائے بھٹو صاحب کے دورِحکومت کے، بھٹو صاحب نے پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی، پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا، تیسری دنیا اور غیر وابستہ ممالک والی سیاست کی اور چین سے مزید تعلقات استوار کیے۔ وہ سمجھے کہ وہ تیسری دنیا کے جمال عبدالناصربننے جارہے ہیں۔ ا نھیں صحیح طرح سے شاید پتہ بھی نہ تھا کہ یہ سرد جنگ کا زمانہ ہے۔
یہ وہ امریکا نہیں تھا جو آج بائیڈن کے زمانے میں ہے۔ یہ و ہ امریکا تھا، جس کا بیانیہ سوویت یونین اور کمیونزم کے خلاف تھا۔ اس وقت ہماری اسٹبلشمنٹ وہ تھی جس نے مشرقی پاکستان کا سانحہ کرایا، وہ اقتدار سے دور نہیں جارہی تھی۔ بھٹو نے امریکا سے ٹکر لے کریا پھر امریکا کو ناراض کر کے پورا موقع دیا کہ وہ بھٹو کے خلاف سازشیں کرے اور سازشیں کرنے میں وہ کامیاب بھی گئے۔
خیرجو ہوا، سو ہوا! افغانستان میں سوویت یونین کا آنا تھا کہ ہم نے دنیا بھر کے جہادی اکھٹے کر لیے۔ اب اگر پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کے ستون نہ بھی گرائے، مگر یقیناّ چین سے اپنے بہتر تعلقات پر کوئی سودے بازی نہیں کرے گا۔ ہمارا مشترکہ منصوبہ سی پیک قائم رہیگا، ہم مغرب سے ٹکراؤکے روادار بھی نہیں۔ اس وقت دنیا خود ایک نئی سرد جنگ میں داخل ہوچکی ہے۔ بحیثیت ریاست ہم دنیا کی چند غریب ترین ریاستوں میں شمار ہوتے ہیں۔
خان صاحب کی ہائبرڈ جمہوریت اس ملک کوکچھ بھی نہ دے سکی بلکہ اور مقروض کیا، اس ملک میں بے روزگاری، افراط زر، غربت میں اضافہ ہوااور شرح نموکو پاکستان کی تاریخ کی بدترین سطح پر لا کر کھڑا کیا۔ اس تمام پس منظر میں جو جنگ پاکستان کے سیاسی میدان میں ہورہی ہے، وہاں پی ڈی ایم بری طرح ناکام ہے۔ اس میں خان صاحب کا کوئی کردار نہیں، پی ڈی ایم کو ناکام انھوں نے کیا جو پی ڈی ایم کا حصہ تھے۔ میاں صاحب جو اتنا سخت موقف اختیار کر بیٹھے، ان کو پتہ ہی نہ تھا کہ خود ان کے بھائی شہباز شریف بھی ان کے اس موقف سے اختلاف رکھتے ہیں۔
خیر اب پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آرہی ہے اور یہ تبدیلی ہمارے خطے میں چالیس سال بعد ہو رہی ہے۔ ہمارا وہ بیانیہ جو ہم نے جمہوریتوں کو یرغمال کرنے کے لیے بنایا تھا وہ اب ناکارہ ہے۔ خان صاحب بجائے خود ڈلیورکرتے انھوں نے اسٹبلشمنٹ کے لیے مسائل پیدا کردیے، اب یہ تو ممکن نہیں کہ میڈیا، سوشل میڈیا یا پھر صحافی جو زیادہ سچ بول رہے ہیں ان کی آواز کو دبا دیا جائے۔
جس تیزی سے وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصافکی مقبولیت کا گراف گرا ہے جس تیزی سے ان کی پارٹی میں فارورڈ بلاک بناہے، یہ تمام تر صورتحال، بجٹ کے بعد بہت بڑی تبدیلی کی خبر دے رہی ہے۔ میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمان آن بورڈ نہ بھی ہوں مگر جہاں تک خان صاحب کو رخصت کرنے کا سوال ہے اس پر سب آن بورڈ ہیں یا ہوجائیں گے۔
پاکستان ان نئے چیلنجز میں اسٹبلشمنٹ اور حزب اختلاف کے درمیان مفاہمت تک پہنچ گیا ہے یا پہنچتا ہوانظر آرہا ہے۔ اسٹبلشمنٹ کو بھی اور کیا چاہیے جب یہ کام پیپلز پارٹی، شہباز شریف اورخود جہانگیر ترین کرنے جارہے ہیں۔ اس تبدیل ہوئے ہوئے بیرونی منظر میں یوں محسوس ہوگا کہ اس مفاہمت کو پاکستان کے لوگوں کی سپورٹ حاصل ہے۔ چھوٹے میاں صاحب بھائی کے ساتھ نہ بھی کھڑے ہوں ان کے خلاف بھی نہیں ہوں گے۔ ساتھ ساتھ کیا یہ ریلیف نہیں کہ ان کے خلاف جو کیسز سرکار نے کیے ہیں وہ ختم نہ بھی ہوں، مگر سست رفتاری سے چلیں گے۔