Wednesday, 16 October 2024
  1.  Home/
  2. Khalid Mahmood Faisal/
  3. Dr Zakir Naik Ke Saib Mashware

Dr Zakir Naik Ke Saib Mashware

مغربی سائنسدانوں کی اعلی ظرفی ہے اور وہ معترف بھی ہیں، کہ اٹھارویں صدی کے صنعتی انقلاب کی بنیاد جن علوم پر رکھی گئی، وہ مسلم ممالک کی عظیم درس گاہوں کا عطا کردہ تھا۔ یہ وہ عہد تھا جب یورپ اور امریکہ کے باشندے، حصول علم کے لئے ان درس گاہوں کا رخ کرتے تھے۔ طب، سرجری، ریاضی، فلکیات، جغرافیہ، معاشیات سمیت کوئی شعبہ ایسا نہ تھا، جہاں مسلمانوں نے اپنے بہترین اثرات مرتب نہ کئے ہوں۔ کیمرہ، شطرنج، پیر ا شوٹ، صابن، مشین، گنبد، سرجیکل آلات، ہوائی چکی، فاونٹین پن، قالین اور کافی تک کی ایجاد میں مسلم اسکالرز اور سائین دانوں کا کلیدی کردار ہے۔ یورپی مصنفین معترف ہیں کہ یورپ نے ترقی کی منازل طے کرنے سے پہلے چھ سو سالوں تک مسلمانوں کی تحقیقات کو سکھا اور ان سے استعفادہ کیا، یورپ بڑی حد تک ان کا مقروض ہے۔

ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ یونانی فلاسفرز اور ارسطو نے علم کے فروغ کے لئے استخراجی طریقہ اختیار کیا، یعنی پہلے سے موجود علم کو نیا رنگ دیا جبکہ مسلم سائنس دانوں نے استقرائی طریقہ تحقیق پیش کیا، جس کا مقصد نئے علوم کو متعارف کرانا اور تحقیق کے نئے راستے تلاش کرنا تھا۔ اس مشق سے ستاروں کا مشاہدہ، جہاز رانی، وقت کی پیمائش کے لئے پینڈولم، قطب نما، ہوائی تپش، کاغذ اور تکنیکی ترقیوں کے غیر نامیاتی نظام نے سماجی سطح پر ایک انقلاب بپا کیا۔

نئے عہد میں مسلمانوں کے زوال کا آغاز اس وقت ہوا جب نئی ایجادات کو مذہب کے تناظر میں دیکھا گیا، ان کے استعمال کو"غیر شرعی" سمجھا گیا، سلطنت عثمانیہ اور مغلیہ بادشاہت میں تنزلی اُس وقت ہوئی جب انکی سپاہ روایتی ہتھیاروں کے ہاتھوں شکست کھا گئیں، یہ جدید اسلحہ سے محروم تھیں۔

بنی مہربان ﷺ نے جس ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی، اس میں 1500 سال قبل پہلی مردم شماری کی، جب حکم صادر فرمایا کہ مدینہ میں جتنے مسلمان ہوئے ان کے نام لکھے جائیں، امریکہ میں مردم شماری پر عمل 1790 جبکہ برطانیہ 1801 میں ہوا، برصغیر میں اس کے بعد ہوئی، نبیﷺ کی سیرت سے سبق ملتا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ریاست پالیسیاں مرتب کرے، جدید علوم سے استعفادہ کیا جائے۔

جب تلک ایسا ہوتا رہا مسلمانوں کا ڈنکا بجتا رہا، امت کا زوال اِس عہد میں آخری حدوں کو چھو رہا ہے، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور دیگر علوم کی تحقیق میں صورت حال انتہائی مایوس کن ہے۔ عالمی آبادی میں امت کا حصہ اس شعبہ میں صرف 4 فیصد ہے، دنیا بھر میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد سائنسی کتب اور 20 لاکھ سے زائد مقالات شائع ہوتے ہیں، اسلامی ممالک میں یہ تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہے، سائنسی تحقیق اور ایجادات میں مسلمانوں کا شیئر قریباً صفر ہے۔ جاپان کا تعلیمی بجٹ تمام مسلم ممالک کے تعلیمی بجٹ سے زیادہ ہے۔

معروف اسلامی سکالر تقابلی ادیان کے ماہر محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک جن کو یہ سعادت حاصل ہے کہ لاکھوں افراد نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے اسلام کی حقانیت کو تسلیم کیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہوئے، وہ ان دنوں ارض وطن کے دورے پر ہیں۔ انھوں نے امت مسلمہ کی حالت زار کی بہتری کے لئے تین اہم نقاط کی نشان دہی کی ہے، ان کے خیال میں ارباب اختیار اس پر عمل پیرا ہو کر امت مسلمہ کو باعزت مقام دلوا سکتے ہیں۔

ایک تو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے میدان میں مہارت اور دوسرا قرآن کی تعلیمات کا عملی نفاذ ہے، تیسرا دفاعی اہمیت کے پیش نظر نیٹو کی طرز پر "اسلامی فوج کا قیام" ہے، مغربی دنیا کا طوطی اس لئے بول رہا ہے، کہ اسے سائنس اور ٹیکنالوجی اور دیگر علوم میں برتری حاصل ہے، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے لے کر دفاعی نظام تک سب انکی دسترس میں ہے۔ مسلم ممالک کو اُنکی شرائط پر ٹیکنالوجی کی منتقلی اور ہتھیاروں کی فراہمی کی جاتی ہے، نیٹو فورسز خطرناک ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ بنا کراقوام متحدہ کی قراردادوں کی آڑ میں اسلامی ممالک پر حملہ آور ہوتی رہی ہیں۔

امت مسلمہ کو یہ خمیازہ اس لئے بھگتنا پڑا کہ نہ تو ان ممالک کی کوئی اجتماعی فوج ہے نہ ہی سائنس اور ٹیکنالوجی میں کوئی مہارت ہے، مسلم ممالک میں قائم سینکڑوں جامعات میں کوئی بھی ایسی نہیں کہ دنیا کی 500 جامعات کی ٹاپ رینکنگ میں شامل ہو، باوجود اس کے دنیا بھر کے خزانے امت مسلمہ کے پاس ہیں، لیکن اعلی معیاری تعلیم عصر حاضر کے علوم کی ترویج حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔

المیہ یہ ہے کہ 56 اسلامی ممالک میں کوئی ایسی ریاست نہیں، جیسے اسلامی ریاست کا درجہ حاصل ہو، عرب ممالک میں زیادہ تربادشاہت ہے، انکے قوانین بھی عام فرد کے لئے ہیں شاہی خاندان پر ان کا اطلاق نہیں ہوتا، دولت کا ارتکاز محدود ہاتھوں میں ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائک امت میں قرآنی تعلیمات کے مکمل اطلاق کی خواہش اس لئے رکھتے ہیں کہ اسلامی تہذیب کا فروغ اور فرقہ پرستی کا خاتمہ ہو، ہر شعبہ زندگی میں اسکی عملی جھلک نظر آئے، امت ایک پلیٹ فارم پر قرآن وسنت کے سائے میں اکھٹی ہو جائے، اس کے معاشروں میں اسلامی قوانین کا چلن عام ہو۔

حاضرین میں سے کسی نے ڈاکٹر ذاکر سے سوال کیا کہ آپ پاکستان کی شہریت لینا پسند کریں گے، انھوں نے کہا کہ انھیں 15 ممالک کی شہریت کی آفر ہے لیکن اگر پاکستان میں اسلام کا مکمل نفاذ ہو جائے تو وہ خود اسکی شہریت لینا اپنی خوش بختی سمجھیں گے۔

امت مسلمہ اس اعتبار سے خوش قسمت ہے کہ ہر عہد میں، مذہبی، سماجی، فکری جدید علوم کے جید راہنماء میسر آئے، جو کمزوریوں کی نشاہدہی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا حل بھی پیش کرتے رہے ہیں۔ اس وقت بھی دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ ایسا ہے جس کا کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں، وہ کنفیوز ہے کہ کونسا مذہب اختیار کرے، ایسے میں اسلامی سکالر اور مفکر ڈاکٹر ذاکر نائیک کا وجود امت کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ ان کا پیغام دنیا بھر میں میڈیا کی وساطت سے پہنچ رہا ہے، وہ ادیان کے تقابلی جائزے اور دلیل سے دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں کو ایسامطمعن کرتے ہیں کہ غیر مسلم بخوشی اسلام قبول کرتے ہیں۔ امت کی بے بسی پر اپنا دل کھول کے رکھ دیا، مایوسی کے ماحول میں امید بھی دلائی ہے۔

امت مسلمہ کے زعماء کو ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مشورہ جات پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہونا چاہئے تاکہ اسلامی ممالک عزت اور وقار کے ساتھ عالمی برادری میں کلیدی اور مثبت کردار ادا کر سکیں۔ ورنہ اسرائیل جیسی ناجائزا ور چھوٹی سی ریاست کے ہاتھوں امت رسوا ہوتی رہے گی۔ محترم ڈاکٹر ذاکرکے صائب مشورہ جات وقت کی آواز، حضرت علامہ اقبال کے شعر کے مصداق ہیں۔

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گاتجھ سے کام دنیا کی امامت کا