Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Itna Bhi Na Chaho Ke Dam Nikal Jaye

Itna Bhi Na Chaho Ke Dam Nikal Jaye

1992 کا ذکر ہے، امریکا میں جارج بش سینیئر اور بل کلنٹن کے مابین صدارتی الیکشن کا میدان سجا ہوا تھا۔ اس سے قبل جارج بش عراق جنگ اپنے تئیں جیت چکے تھے اور عوامی رائے کے لیے یہ کامیابی بڑھا چڑھا کر پیش کی جا رہی تھی۔ دوسری جانب بل کلنٹن کے کیمپ سے بالکل مختلف اسٹرٹیجی سامنے آئی۔ ان کے ایک اسٹرٹیجی ایڈوائزر جیمز کارویل نے صدارتی کیمپین کو تین الفاظ میں سمیٹا۔ یہ سلوگن اس قدر اثر انگیز ثابت ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے الیکشن کیمپین بل کلنٹن کے حق میں نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔

وہ الفاظ تھےthe economy، stupid یعنی معیشت ہی کنجی ہے! بعد کے سالوں میں یہ سلوگن اس قدر پاپولر ہوا کہ اب معاشی لٹریچر میں جابجا اس کا حوالہ ملتا ہے، بلکہ اس کی سحر انگیزی کو کئی اور شعبوں نے بھی استعمال کیا۔ تین الفاظ کے اس سلوگن میں عام آدمی کی ریاست سے توقعات سمٹ کر آ گئی ہیں۔

عموماً الیکشن میں ذاتی پسند ناپسند، رویے، گروہ بندی، نسلی عصبیت، علاقائی فوقیت جیسے بہت سے شیڈ نمایاں رہتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عوام بالآخر وہی حکومت گوارا کرتے ہیں جو ان کے شب و روز کے معاشی مسائل بہتر انداز میں حل کر سکے۔ دور کیا جانا، حالیہ چند مہینوں کی چند عالمی مثالیں اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔

گزشتہ ہفتے برطانیہ میں انتخابات ہوئے، کنزرویٹو پارٹی کا 14 سالہ دور ختم ہوا اور لیبر پارٹی نے تاریخی کامیابی سمیٹتے ہوئے حکومت سنبھال لی۔ اس الیکشن کیمپین میں بھی بنیادی نکات معیشت کے ارد گرد گھومتے رہے یعنی مہنگائی، بے روزگاری، امیگریشن وغیرہ۔ کنزرویٹو پارٹی کی وضاحتیں کسی کام نہ آئیں۔ مسلسل معاشی اور سیاسی عدم استحکام سے اکتائے ہوئے ووٹرز نے انھیں گھر بھیج دیا اور لیبر پارٹی کو موقع دیا۔ ان انتخابات میں لیبر پارٹی کے علاوہ ریفارمز پارٹی نے بھی کافی کامیابی سمیٹی۔ ان انتخابات سے ایک بات واضح ہوگئی کہ عوام نعروں اور خوشنما گفتگو نہیں اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔

برطانیہ کے پڑوسی ملک فرانس میں بھی سیاسی عدم استحکام کی بنیاد معاشی بے چینی ہے۔ عوام مشکل معاشی حالات، مہنگائی اور امیگرینٹس جیسے مسائل سے اکتائے ہوئے ہیں۔ دو ہفتے قبل کینیا میں شدید مظاہرے بھی معاشی مشکلات کے سبب برپا ہوئے۔ ان مظاہروں کے نتیجے میں حکومت کو کئی ٹیکس سفارشات واپس لینا پڑیں۔ سیاسی استحکام ڈگمگا گیا۔ اس خوفناک عوامی رد عمل کی بنیاد بھی وہ مشکل معاشی حالات تھے جن سے کینیا کے عوام سال ہا سال سے نمٹ رہے ہیں اور اب ہمت جواب دے گئی ہے۔

پچھلے سال سری لنکا میں بھی یہی قصہ تھا کہ عوام ٹیکسز کا مزید بھاری بوجھ اٹھانے سے انکاری ہوئے۔ سیاستدان اور حکومت اپنے روایتی ہتھکنڈوں اور حربوں میں مست رہی۔ قرضوں کے مزید بوجھ اور ادائیگیوں کے لیے وہی جانے پہچانے نسخے کام میں لائے گئے، مزید بوجھ سے عوام کی برداشت جواب دے گئی۔ گزشتہ ماہ بھارت کے انتخابات میں ابتدائی طور پر نریندر مودی اور بی جے پی کا پلڑا بھاری نظر آ رہا تھا۔ دیہی علاقوں اور شہری علاقوں میں مہنگائی، بے روزگاری اور مشکل سے مشکل تر ہوتے ہوئے اقتصادی حالات نے پانسہ پلٹ دیا اور بی جے پی سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کر سکی۔ پاکستان کی معیشت اور سیاست بھی ان حقائق سے علیحدہ نہیں۔ مسلسل کرپشن، سیاسی عدم استحکام اور مایوس کن گورننس نے ملک کی معیشت کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ اب حکمران بغیر کسی جھجک کے یہ کہتے نہیں تھکتے کہ آئی ایم ایف کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

موجودہ اتحادی حکومت ڈیڑھ دو سال پہلے پی ڈی ایم کی شکل میں حکومت میں آئی تو وہ عوام سے داد طلب ہوئے، ملک دیوالیہ ہونے کو تھا لیکن ہم نے اپنی سیاست قربان کرکے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ ان کے اس اقدام کی قیمت عوام کو ادا کرنی پڑی۔ روپے کی شرح مبادلہ تیزی سے گری، ٹیکسوں کا بوجھ مزید لادا گیا، مہنگائی کا ایک نیا سیلاب آیا۔ نگران حکومت آئی تو اسے آئی ایم ایف کے نئے پیکیج کی اتنی ہی شدید طلب ہوئی جتنی اس کی پیش رو حکومت کو تھی۔

نو ماہ کے معاشی پیکیج کے حصول اور اس پر عمل درآمد نے عوام کی رہی سہی قوت کو بھی آزمایا۔ موجودہ حکومتی اتحاد پی ڈی ایم ون کا تسلسل ہے، اس اتحاد نے لگی لپٹی رکھے بغیر پہلے دن یہ واضح کیا کہ آئی ایم ایف کی شرائط سخت ہیں، کڑوی گولی نگلنا پڑے گی اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا۔ بجٹ پیش ہوا تو اس کے نین نقش دہائی دے رہے تھے کہ حکومتی اتحاد اپنی ماضی کی روش پر قائم و دائم ہے۔

جولائی شروع ہوتے ہی حکومتی اقدامات پر عمل درآمد شروع ہوگیا۔ کل ہی کی خبر ہے کہ نیپرا نے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں سات روپے فی یونٹ سے زائد اضافے کی حکومتی درخواست منظور کر لی۔ اس سے پہلے 200 یونٹ تک کے صارفین کے لیے اعلان کیا گیا کہ وہ اس اضافے سے مستثنیٰ ہوں گے لیکن خاموشی سے نیپرا سے انھیں بھی اس اضافے میں شامل رکھا گیا۔ عوامی رد عمل ہوا تو ایک نیا تماشہ شروع ہوگیا۔

وزیراعظم کی طرف سے اشتہارات اور اعلان سامنے آیا کہ انھیں عوام کا اس قدر خیال ہے کہ انھوں نے ایک بے مثال ریلیف دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ عوام کی مشکلات محسوس کرتے ہوئے بقول وزیراعظم شہباز شریف بجلی کے 94 فیصد گھریلو صارفین کے لیے 50 ارب روپے کا تاریخی ریلیف پیکیج یعنی جو سات روپے سے زائد کا اضافہ تھا اسے تین ماہ کے لیے موخر کیا گیا۔ کون مر نہ جائے اس سادگی پر کہ اضافہ کرنے والے بھی وہی، لاگو کرنے والے بھی وہی اور تین ماہ کا ریلیف دینے کے بعد اس اضافے کے عمل درآمد پر کمر بستہ بھی وہی، لیکن پھر عوام سے داد طلب بھی وہی۔

عوام کی ہمت کو مزید آزمانے سے قبل حکومت وقت اور سیاست دان یاد رکھیں کہ سیاست میں حرف آخر معیشت ہی ہے۔۔ یعنی the economy، stupidعبیداللہ علیم یاد آئے

عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اتنا بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے