مقامی زبان میں ہمارے ہاں ایک معروف محاورہ ہے، ات خدا دا ویر۔ یعنی مسلسل جبر یا قہر ایک طرح سے خدا سے بیر پیدا کر لینا ہے۔ جس کا نتیجہ ظاہر ہے ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔
اس بڑی حقیقت کو جاننے اور بار بار اس کے مظاہر دیکھنے کے باوجود دنیا میں جبر کم ہونے میں آتا ہے نہ قہر۔ اس کا تازہ ترین مظاہرہ کینیا میں ہو رہا ہے۔ مشرقی افریقہ کے اس بھرے پرے ملک میں مئی کے تیسرے ہفتے میں سالانہ بجٹ پیش ہوا۔ معیشت کم و بیش ان ہی مسائل سے دوچار ہے جن سے پاکستان، سری لنکا اور بہت سے ترقی پذیر ممالک نبردآزما ہیں۔ سیاسی کھینچا تانی، اندھا دھند کرپشن اور تباہ کن گورننس کی وجہ سے بجٹ اور تجارتی خسارہ سالہا سال بے قابو رہا۔ دھیرے دھیرے ملکی معیشت قرضوں کی دلدل میں دھنستی چلی گئی یعنی Debt Trap میں جکڑی گئی۔
پچھلے دس سالوں میں پبلک ڈیٹ دو گنا بڑھا۔ بجٹ میں اس وقت قرضوں کی واپسی اور سود کی ادائیگی سب سے بڑا خرچہ ہے۔ 2022 میں ہونے والے الیکشن میں موجودہ صدر ولیم رووتو اس وعدے پر آئے کہ ان کے پاس ایسا معاشی پلان ہے کہ وہ معیشت کو سدھار دیں گے اور لوگوں کی زندگیاں آسان بنائیں گے۔
حکومت سنبھالنے کے بعد نہ وہ وعدہ وفا ہوسکا نہ اس پلان کا کچھ اتہ پتہ چلا جس سے ملکی معیشت سدھرتی اور لوگوں کی زندگی میں آسانی آتی۔ بلکہ جو ہوا وہ اس کے برعکس ہوا، کرپشن میں کوئی کمی آئی نہ گورننس کے چال چلن میں کوئی تبدیلی آئی۔ آسان راستے یہی تھا کہ ایک بار پھر انتخابات ہوں۔ ملکی معیشت اور فارن ایکسچینج کے استحکام کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے دست دراز کرنا پڑا۔
آئی ایم ایف نے فوری ضرورت تو پوری کر دی مگر اپنی روایتی سخت شرائط کے ساتھ۔ معیشت میں وقتی طور پہ ٹھہراؤ ضرور آیا لیکن اس کے بعد ایک نئے پیکیج کی ضرورت پڑی۔ جنوری 2024 میں نئے قرض پیکیج کے تحت پہلے سے مزید کڑی شرائط ماننا پڑیں۔ مئی میں پیش ہونے والا بجٹ ان ہی شرائط کا آئینہ دار تھا۔
2.4ارب ڈالر کے اضافی محاصل کی کھوج میں ڈبل روٹی، کوکنگ آئل اور دیگر ضروریات زندگی پر ٹیکس بڑھائے گئے۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اور روزمرہ ضرورت کی اشیاء پر بھی مزید ٹیکس عائد کر دیے گئے۔
ان ٹیکس تجاویز سے عوام میں پہلے سے موجود غم و غصہ مزید بڑھ گیا۔ لوگ سڑکوں پر آ گئے لیکن حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ ہمیشہ کی طرح یہی گمان کہ چند دن شور شرابہ کرکے سب اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں گے لیکن اس بار عجیب یہ ہوا کہ وقت کے ساتھ ساتھ مظاہرین میں شدت اور وسعت آتی چلی گئی۔ بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ ہر چھوٹے بڑے شہر میں بھی مظاہرے ہونے لگے۔
مظاہروں میں ایک نئی بات دیکھنے میں آئی۔ روایتی طور پر کینیا میں سیاسی تفریق قبائلی و نسلی بنیادوں پر قائم ہے لیکن اس بار جنریشن زی Generation Z یعنی نوجوانوں نے سوشل میڈیا کی مدد سے ایک متحدہ محاذ قائم کیا۔ ان مظاہروں میں قبائلی تفریق سے ماوراء سب ایک ہی مسئلے پر اٹھ کھڑے ہوئے کہ یہ ظالمانہ اقدامات ہمیں منظور نہیں۔
پولیس نے حسب معمول آہنی ہاتھوں سے نمٹنا شروع کیا تو مظاہروں میں مزید شدت آ گئی۔ تین ہفتوں سے جاری مظاہروں پر کان دھرنے کے بجائے منگل والے دن بجٹ تجاویز پارلیمنٹ نے منظور کر لیں۔ مظاہرین حکومت کی اس ہٹ دھرمی پر بپھر گئے۔
اسی رات پارلیمنٹ پر ہلہ بول دیا گیا۔ پولیس نے لائیو ایمونیشن استعمال کیا۔ پارلیمنٹ پر دھاوے کے دوران پانچ لوگ مارے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔ کل تک کی رپورٹ کے مطابق اب تک کے مظاہروں میں دو درجن سے زائد اموات ہو چکی ہیں اور سیکڑوں لوگ زخمی ہیں۔ پارلیمنٹ پر حملے اور مظاہروں میں خون ریزی کے بعد صدر نے پارلیمنٹ سے منظور ہوئے بجٹ کی متنازع سفارشات کو اپنے تئیں واپس لینے کا اعلان کر دیا لیکن اس کے باوجود مظاہروں کی شدت میں کمی نہیں آئی۔ مظاہرین کا تازہ ترین مطالبہ یہ ہے کہ صدر ولیم روتو مستعفی ہوں، وہ مظاہرین کو قابل قبول نہیں۔ صاف ظاہر ہے مظاہرین کے مطالبات صدر ولیم رووتو کو قابل قبول نہیں۔ فوری طور پر انھوں نے پولیس کی مدد کے لیے فوج کو بھی طلب کر لیا ہے۔
اس وقت حالات سنگین اور کشیدہ ہیں۔ کینیا کے ساتھ بھی ہماری چند خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔ لگ بھگ 20 سال قبل ہمیں چند روز نیروبی اور ممباسا میں گزارنے کا موقع ملا۔ مشہور زمانہ نیشنل پارک مسائی مارا کی سیر اور لیک نکورو جانے کا موقع بھی ملا۔ ممباسا ساحلی شہر ہے۔ بحر ہند پر واقع یہ شہر کینیا کی سب سے بڑی پورٹ ہے۔ شہراور قرب و جوار میں مسلم آبادی کی اکثریت ہے۔
ملک کی غالب اکثریت عیسائی مذہب کی ماننے والی ہے۔ نیروبی شہر دیکھ کراحساس ہوتا ہے کہ غریب اور امیر کی خوفناک تفریق کس انداز میں قائم ہے یہ۔ تفریق صرف نیروبی ہی میں نہیں بلکہ کینیا کے تمام بڑے شہروں میں عدم مساوات کا یہی خوفناک راج ہے۔ قومی سیاست پر قبائلی و نسلی تفاخر اور شناخت کا تعصب نمایاں ہے۔ اسی وجہ سے سیاسی کھینچا تانی رہی، ماضی میں خوفناک قبائلی اور نسلی فسادات بھی بار بار ہوئے۔ سیاسی عدم استحکام، کرپشن اور جرائم ملک کے بڑے مسائل میں ہیں۔ ملک کی آبادی سوا پانچ کروڑ ہے، برآمدات 7 ارب ڈالرز اور درآمدات 18 ارب ڈالرز سے زائد۔ ملکی برآمدات کا بڑا حصہ چائے، ایگریکلچر پراڈکٹس پر مبنی ہے۔ سیاحت نمایاں ترین سروسز میں سے ہے۔
پچھلے دس سال میں پبلک ڈیٹ دو گنا ہو چکا ہے۔ کرپشن پرسیشن انڈکس میں کینیا کی رینکنگ 126 جب کہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس میں رینکنگ 146 ہے۔ اس پس منظر کی وجہ سے جرائم، کرپشن اور عام بے روزگاری نے لوگوں کو آدھ مواء کر رکھا ہے۔ پچھلے کئی سال سے مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمار نے عوام کا بھرکس نکال دیا لیکن بالائی استحصالی طبقات کے اللے تللے، دولت اور اختیارات کے دکھاوے اور ریاستی وسائل کی لوٹ مار میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ ملکی معیشت کو جاں بلبی سے نکالنے کے لیے ہر بار عوام سے ہی خون مانگا گیا۔
ڈیموگرافکس میں نمایاں تبدیلی واقع ہو چکی ہے۔ آبادی میں نوجوانوں کی بڑی تعداد اس کھیل سے تھک چکی ہے۔ مسلسل مایوسی اور استحصالی اشرافیہ کی بے حسی نے انھیں قبائلی و نسلی بنیادوں سے ماوراء مشترکہ دکھ پر متحد کرکے ایک نئے دور کی ابتداء کی ہے۔ یہ مظاہرے کسی ٹھوس تبدیلی پر منتج ہوں گے یا ایک اور سراب جھولی میں ڈال جائیں گے، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ موجودہ صدر ولیم رووتو کا ماضی تنازعات، سیاسی مارا ماری اور زمینوں پر قبضے سمیت بہت سے سنگین معاملات سے جڑا ہوا ہے۔ لہٰذا ان سے توقع یہی ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کریں گے۔
پاکستان سمیت تمام ترقی پذیر ممالک کے لیے کینیا کے ان مظاہروں میں کئی قابل غور سبق ہیں۔ پاکستان میں کرپشن، سیاسی استحکام اور امن و امان کے معاملات پچھلی تین دہائیوں سے دگر گوں ہیں۔ معیشت کے نام پر ہر بار عوام ہی کو نچوڑا جاتا ہے جب کہ استحصالی اشرافیہ طبقہ بدستور پھل پھول رہا ہے۔ عوامی غیظ و غضب اب تک تو سڑکوں پر نہیں آیا لیکن صبر کا پیمانہ کب اور کس وقت ٹوٹ جائے گا؟ اس کا اندازہ دنیا بھر میں حکمران طبقے کو کبھی بھی نہیں ہو پاتا لیکن یہ بات طے ہے کہ مسلسل جبر اور قہر عوام کو کہیں بھی تادیر قابل قبول نہیں ہوتا۔