مشرق وسطی کی صورتحال گزشتہ ہفتے اچانک نئے موڑ پر آن کھڑی ہوئی۔ صرف 11 دنوں میں مختلف اطراف سے شام میں متحارب باغی گروہوں نے ایک ہی وقت میں کمال تال میل کے ساتھ دمشق کی طرف پیش قدمی شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے انہونی ہوگئی۔ سقوط دمشق ہوگیا۔ بشار الاسد کو ملک سے فرار ہونا پڑا اور یوں 50 سال سے زائد الاسد خاندان کا اقتدار اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔
میڈیا میں ہاہا کار مچ گئی، دنیا بھر کے میڈیا نے تمام اسکرین ٹائم یہ سمجھانے میں وقف کر دیا کہ کون کون سے باغی گروہ شام میں متحرک ہیں؟ ان کے سرپرست کون ہیں؟ کونسے علاقے ان کے قبضے میں ہیں؟
لیکن اس امر کے بارے میں حیرت انگیز خاموشی رہی کہ یہ تمام متحارب گروہ جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہے، یہ کرشمہ کیسے اور کیوں کر ممکن ہوا کہ تمام باغی کمال یکسوئی اور یکجائی کے ساتھ ایک ہی وقت میں منظم انداز میں متحرک ہوئے، چاروں اطراف سے دمشق پر چڑھائی کی اور بشار الاسد کو بھاگنے پر مجبور کیا۔ دمشق سمیت شام کی بہت بڑی آبادی اور دنیا بے یقینی کے عالم میں رہی کہ دمشق زیر ہو چکا، بشارالاسد فرار ہو چکا!
آہستہ آہستہ حقیقت کھلی کہ تو عوام فرط جذبات سے سڑکوں پر آ گئے۔ بشار الاسد کا فرار اپنی جگہ لیکن یہ سوال بھی اپنی جگہ جواب طلب ہے کہ ان تمام متحارب گروپوں کو کن قوتوں نے، کس پلاننگ کے تحت، کن وعدوں اور شرائط پر یکجاکیا اور ایک منظم انداز میں باہم تعاون کے ساتھ چڑھائی پر تیار اور گائیڈ کیا؟
دوسرا غور طلب سوال یہ ہے کہ مشرق وسطی میں ماضی میں جہاں جہاں باغیوں نے حکومتوں کے تختے الٹے، اس کے بعد خون ریزی کے نئے باب شروع ہوئے، عراق، یمن اور لیبیا کی مثالیں سامنے ہیں لیکن حیرت انگیز انداز میں سقوط دمشق کے بعد بشار الاسد کے فرار کے بعد ان کی حکومتی مشینری اور افواج کا بچا کھچا ڈھانچہ موجود رہا۔
انتہائی حیران کن انداز میں اقتدار کی پر امن منتقلی ہوتی نظر آرہی ہے۔ سب سے بڑے باغی گروہ ابو جیلانی کی جانب سے (جس کا ماضی القائدہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ اب دمشق کا کنٹرول ہے) مارچ تک کے عبوری وزیراعظم کا اعلان ہوا۔ اس دوران نئے حکومتی سیٹ آپ کا فیصلہ کیا جائے گا۔ ماضی کے تجربات کے پیش نظر یہ امر بھی حیران کن ہے کہ تمام متصادم و متحارب گروہ فتح کے بعد کیوں کر اور کیسے اس قدر پرسکون رہے؟ ماضی کی روایات کے بر خلاف گزشتہ حکومت کا سول ڈھانچہ برقرار رکھا گیا جو ایک بہتر حکمت عملی تھی لیکن کیا یہ حکمت عملی آپ سے آپ ہوئی! ۔
بشار الاسد نے اپنے دور حکومت میں والد کا طرز حکومت جاری رکھا: مخالفین پر سخت جبر اور جیلوں کی آزمائشیں۔ شام میں مسلح بغاوتوں کا موجودہ سلسلہ لگ بھگ 11 سال قبل شروع ہوا جس کے نتیجے میں اب تک پانچ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور 12 ملین لوگ بے گھر ہوئے۔ جی 12 ملین یعنی کل آبادی کا نصف۔
30 لاکھ کے لگ بھگ لوگ ترکی میں پناہ گزین ہیں اور باقی نزدیکی ممالک میں پناہ گزین ہیں۔ پناہ گزینوں کی ایک کثیر تعداد نے جان جوکھوں میں ڈال کر یورپ پہنچنے کی بھی کوششیں کیں۔ یورپ نے شامی پناہ گزینوں کے لیے ویزا کی شرائط میں کچھ وقتی نرمی کی لیکن سقوط دمشق کے ساتھ ہی یورپی ممالک کی طرف سے وضاحت جاری ہوئی کہ شامی پناہ گزینوں کی ویزا پروسیسنگ روک دی گئی ہے۔
شام کے عوام کی بدقسمتی کا اندازہ لگائیں کہ ایک جابر خاندان سے قبل بھی جنگ و جدل اور خونریزی کا شکار رہے، اس خاندان کے 50 سالہ دور میں بھی انھیں شدید جبر اور استبداد کا سامنا رہا جس کے نتیجے میں نصف سے زائد آبادی کو گھر بار، روزگار چھوڑ کر کہیں نہ کہیں سر چھپانا پڑا۔
اب یہ عالم ہے کہ ملک ایسے باغی گروہوں کے قبضے میں ہے جن کے آقاؤں کا اپنا اپنا ہدف ہے۔ پناہ گزینوں کا مستقبل خوف اور بے یقینی میں لپٹا ہوا ہے لیکن تمام ممالک پناہ گزینوں کو ٹھوکریں مار مار کر اپنے ملک واپس جانے کا کہہ رہے ہیں۔ دنیا ایک عجیب ظلم گاہ ہے، یہاں ہر طاقتور اپنے مفاد اور مقصد کے لیے دوسرے کو استعمال بھی کرتا ہے اور وقت بدلنے پر اپنے مفاد کی خاطر دوسروں کو دربدر کرنے سے گریز بھی نہیں کرتے۔
شام بدقسمتی کے اسی پھیر میں ہے۔ بدقسمتی کے اس پھیر کا اگلا پھیرا سوچ کر بھی جھرجھری آجاتی ہے لیکن انہونی کو روکنا بہت مشکل نظر آرہاہے۔ متحرک باغی گروہ جن کی پشت پر عالمی طاقتیں، ان کا سرمایہ اور مقاصد کھڑے ہیں بالآخر ملک شام کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے پر کمر بستہ ہیں۔
ایک طرف ترکی ہے جو کردوں سے خائف ہے اور شام اور ترکی کے درمیان ایک طویل بفرزون بنانے کا خواہشمند ہے۔ دوسری جانب امریکا اور اسرائیل اپنے حمایتی گروہ کو حکومت پرفائز دیکھنا چاہتا ہے تاکہ اسرائیلی سرحد محفوظ ہو جائے۔ ایک طرف کرد ہیں جودہائیوں سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
تین بڑے باغی مسلح گروہوں کے علاوہ کئی چھوٹے چھوٹے گروپس بھی ہیں جن کی پشت پر مختلف عالمی قوتیں اور مقاصد کھڑے ہیں۔
ان تمام مقاصد میں ایک بہت بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ علاقائی خطے میں ایران کا بڑھتا ہوا اثر و نفوز اور حزب اللہ کی کمر توڑی جائے۔ خطے میں اسرائیل کی واحد بڑی مخالفت ایرانی حکومت کی طرف سے ہے۔
حماس اور فلسطینیوں کو فوجی اور غیر فوجی امداد کی فراہمی میں ایران اور حزب اللہ کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ شام کے ذریعے یہ سپلائی چین کامیابی سے جاری رہی لیکن حزب اللہ کی کمر توڑنے اور لبنان پر اسرائیلی چڑھائی کے بعد شام پر باغیوں کا قبضہ پورے گیم پلان کو واضح کر دیتا ہے۔
اس گیم پلان میں سعودی عرب کی پس پردہ خواہش بھی شامل ہے کہ وہ خطے میں ایران کے اثر و نفوذ سے خائف ہے۔ امریکا ہر صورت اسرائیل کے مستقبل کو جغرافیائی طور پر استحکام دینے کا خواہش مند ہے۔
یوں دمشق کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے یہ طاقتیں اپنے اپنے انداز اور اپنے اپنے مقاصد کے لیے ہاتھ پاؤں ماریں اور توڑیں گی۔
آنے والے دنوں کا نقشہ بہت دھندلا ہے تاہم ماضی کے واقعات اور سازشوں کے تانے بانے جوڑیں تو یہ اندیشہ دور از کار نہیں لگتا کہ شام کے حصے بخرے ہو سکتے ہیں۔ عالمی اور علاقائی طاقتوں کو اپنے اہداف کے لیے اور کتنا خون اور جغرافیائی علاقے چاہئیں، اس کا جواب جلد سامنے آنا شروع ہو جائے گا۔