اعداد و شمار کی حد تک تو کئی ہفتوں سے یہی سن رہے ہیں کہ کورونا کا زور ٹوٹ چکا۔ مثبت کیسز کی شرح کم ہوکر اب ایک فیصد سے کچھ اوپر ہے، اموات کی شرح بھی بہت کم ہو چکی ہے لیکن اس کم ہوتی شرح نے ایک عمدہ صحافی، معروف ایڈیٹر اور درویش منش قدرت اللہ چوہدری کی زندگی کا چراغ گل کر دیا… اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی۔
صحافتی حلقوں میں قدرت اللہ چوہدری ایک معروف اور جانا پہچانا نام تھا، نصف صدی سے زائد اسی شعبے کے ساتھ وابستہ رہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگلش لٹریچر کرنے کے بعد1966میں صحافت کے شعبے کو جائن کیا جب کہ اس زمانے میں ان کے بیشتر ہم عصر یا تو سی ایس پی افسر شاہی کا انتخاب کرتے یا ایسے ہی کسی اور ترقی دادہ شعبے کا۔
صحافت اُن دنوں بھی مشکل کام تھا، تنخواہیں واجبی سی، معروف اخبارات و جرائد کی تعداد محدود یعنی ملازمت کے مواقع محدود۔ اس کے باوجود وہ ان معدودے چند لوگوں میں سے تھے جنھوں نے منفعت کے بہتر متبادل کے باوجود صحافت کے میدان کو پہلی محبت اور پہلا جنون سمجھ کر اختیار کیا۔
قدرت اللہ چوہدری سے ہمارا تعارف 1998 کے لگ بھگ ان کے ایک رفیق کار ایم ایس وارثی کے ذریعے ہوا۔ کالم نگاری کے شوق کا ان سے ذکر کیا تو انھوں نے حوصلہ افزائی کی۔ اس وقت وہ لاہور کے ایک نئے اخبار کے ایڈیٹر تھے جس کی بڑی دھوم تھی۔ بعد ازاں وہ ایک دوسرے روزنامہ سے وابستہ ہوگئے، نئی انتظامیہ اور مالکان کے ساتھ بھی یہی تعلق قائم رہا اور یوں آخری دم تک اسی ادارے کے ساتھ بطور ایگزیکٹو ایڈیٹر وابستہ رہے۔
صحافت کی اقدار، کام کرنے کے طور طریقے اور ایڈیٹر کا رول گزشتہ بیس سالوں میں بہت حد تک بدل گیا ہے، اخبار کی اپنی پالیسی، وسائل اور قارئین کی دلچسپی اور الیکٹرونک میڈیا اور بعد ازاں سوشل میڈیا کے غالب اثر نے ایڈیٹر کے روایتی رول کو بھی بہت حد تک بدل دیا ہے۔ پاکستان کے چند معروف ترین اخبارات میں وہ سینئر پوزیشنز اور بطور ایڈیٹر منسلک رہے۔ طویل ریاضت کے سبب ان کے انداز اور زاویۂ نگاہ سے روایتی ایڈیٹرز کا اظہار صاف جھلکتا تھا۔ ڈیلی ایکسپریس کے گروپ ایڈیٹر برادرم ایاز خان کے ساتھ بھی ایک معروف اخبار میں کچھ عرصہ ان کی باہمی رفاقت رہی۔
ہمارا صحافت سے کل وقتی تعلق نہیں ہے بلکہ کالم اور تجزیہ نگاری کا جزوی تعلق ہے۔ تاہم کالم نگاری کے پندرہ بیس سالوں میں وہ ان معدودے چند صحافیوں میں سے تھے جو وسعت مطالعہ، یادداشت اور صائب رائے کے مالک تھے۔ سیاسی مدوجزر میں جب بھی الجھن اور دھند محسوس ہوئی تو ان کی نپی تلی گفت گو اور رائے سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ ہمیشہ انھیں متوازن اور غیر جذباتی انداز میں دلائل اور مثالوں سے اپنے تجزئے کی وضاحت میں باکمال پایا۔ برسبیل تذکرہ کے نام سے گاہے گاہے کالم بھی لکھتے جو فکر و نظر اور بیان کی لطافت سے مزین ہوتے۔
ایک ملاقات میں پاک بھارت تعلقات پر بھرپور بحث و تمحیص ہوئی، گفتگو کے اختتام پر انھوں نے بی بی سی کے معروف نمایندے مارک ٹیلی کی ایک کتاب ہمیں تحفہ دی۔ اسّی اور نوے کی دِہائی میں مارک ٹیلی ایک عرصے تک پاکستان میں فرائض انجام دیتے رہے، بعد ازاں وہ بھارت میں بی بی سی کے نمایندے کے طور پر شفٹ ہو گئے اوربھارتی سیاست اور معاشرت پر اپنے تاثرات پر مبنی ایک کتاب لکھی جو مطالعے پر خاصے کی شئے ثابت ہوئی۔ بھارت سے متعلق ہم نے جو ڈیڑھ دو درجن کتابیں پڑھیں یہ کتاب ان سب میں سے منفرد ثابت ہوئی۔
ایک بار سیرت پر این میری شمل کی لکھی کتاب کے ترجمے محمد رسول اللہ، کی تلاش میں تھے تو انھوں نے مرحوم نعیم اللہ ملک کی طرف رہنمائی کی۔ موصوف ایک منفرد اور ممتاز مترجم تھے جنھوں نے لاہور گیزٹئیر1883-84کے علاوہ نصف درجن سے زائد مشہور اور ضخیم کتابوں کے تراجم کیے۔ چوہدری قدرت اللہ چوہدری کی یہ کتاب دوستی ان کے صحافتی قد کاٹھ کی طرح نمایاں اور ممتاز تھی۔
چند سال قبل ہم نے اپنے اُن کالمز کو کتابی صورت میں شایع کرنے کا ارادہ کیا جن کی حیثیت ایک مستقل تصنیف کی سی تھی تو ان سے کتاب کا پیش لفظ لکھنے کی درخواست کی۔ اُن کی اُسی تحریر سے کچھ نمونے حاضر ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ الفاظ کے پردے میں علم، وسعت مطالعہ اور کوچۂ صحافت میں سالہاسال کی ریاضت کا جادو بول رہا ہے؛ ویسے تو طنزو مزاح ایک الگ میدان ہے، اور وہ زمانہ لد گیا جب اخبارات میں فکاہیہ کالم لکھے جاتے تھے اور خاصے کی چیز ہوا کرتے تھے۔
اسی رعایت سے یہ کالم فکاہیہ کہلاتے تھے، مدت ہوئی اب فکاہیات تو قصہ ماضی ہو گئے۔ یاروں کو کالم لکھنے کا شوق بلکہ جنون ہے، روزانہ ایک مضمون یا جواب مضمون لکھیں گے اور پھر اصرار ہوگا کہ اسے کالم کہا جائے، پھکڑ بازی کو مزاح مانا جائے یعنی جنوں کا نام خرد رکھ دیا۔
ذرا یاد کیجیے کیا کالم ہوا کرتے تھے، عنوان ہی دامنِ دل کھینچتا تھا کہ جا ایں جا است، افکارو حوادث کے نام سے فکاہیہ مولانا عبدالمجید سالک کی شخصیت کا حصہ بن گیا۔ ان کے بعد ان کے صاحب زادے ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے افکار و حوادث کو کالم اور مضمون کا آمیختہ بنا دیا جس میں فکاہیات کے بجائے فکر و نظر کی فراوانی تھی۔ دونوں ادوار کے افکارو حوادث اپنے اپنے دور میں مقبول تھے۔ چراغ حسن حسرت نے حرف و حکایت لکھنا شروع کیا تو فکاہیے کی روایت کو ہی آگے بڑھایا۔
یہی عنوان پھر احمد ندیم قاسمی کے حصے میں آیا اور برسوں عنقا، کے نام سے حرف و حکایت کے تحت شگفتہ کالم لکھتے رہے۔ عہدِ رواں میں کالم نگاری اور مضمون نگاری کو متبادل صنف سمجھ لیا گیا ہے یعنی سیدھا سادا مضمون لکھا اور کالم نام رکھ دیا۔
اپنی زندگی میں شرافت، دیانت، قناعت اور مروت کا استعارہ قدرت اللہ چوہدری اپنی آخری منزل کو روانہ ہوا تو محسوس ہوا ؛
ڈھونڈ و گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم