دنیا میں انسان نے اپنی ہجرتوں کی طویل تاریخ کو رقم کر تے ہوئے جس چیز کو بنیاد بتایا وہ تھی جان و مال اور عزت کاتحفظ، پھر اسی کے خاطر سفر کی کٹھنائیوں کو جھیلا جب کہ ہر ہجرت جو ایک دوسرے سے قطعی مختلف رہی ہے لیکن ہمارے نزدیک 1400سال پہلے مکہ سے مدینہ کی جانے والی ہجرت بہت اہم ہے جس میں ہمارے نبی آخر الزماں ﷺنے بنی نوع انسان کی زندگی کی حرمت کو قائم ودائم رکھنے کی فکر سے روشناس کرایا تھا، یوں انصار اور مہاجرین نے مل کر حضورﷺ کے دیے ہوئے ریاست مدینہ کے تصور کو عملی جامہ دیکر دنیا کے سامنے ایک مثال قائم کر دی۔
ہمارے ملک کی موجودہ حکومت بھی ریاست مدینہ کو اپنا رول ماڈل بناکر آگے بڑھنے کی خواہش مند ہے لیکن اس کے سورج کی تادم تحریر کرن بھی نمودار نہیں ہوپائی اور معصوم عوام جو 70سال سے نامساعد حالات کا شکار ہیں آج بھی سخت ترین صورتحال میں حکومت کے اعلان کردہ ریاست مدینہ کی پہلی سحر کے 2020میں بھی منتظر ہیں۔
اب یہاں ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے ہجر ت کر نے والو ں میں جو سرمایہ دار اور کاروباری ذہن رکھنے والے تھے انھوں نے متحدہ پاکستان کے شہری علاقوں کو اپنا مسکن بنا یا اور ان میں وسطی ہندوستان سے جو لوگ خشکی کے راستے سندھ میں داخل ہوئے وہ ان 26شہروں میں جہاں سے ہندوآبادی اپنے مکانات، دکانیں، زر عی زمینیں، باغات یا دیگر جائیدادیں چھو ڑ کر چلی گئی تھی اور یہ سب ان کی متروکہ املاک تسلیم کر لیے گئے تھے لیکن متروکہ جا ئیدادوں پر ان ہندوجاگیرداروں اور زمینداروں کے وہ ملازمین جو مقامی مسلمان باشندے تھے انھوں نے یہ اپنے قبضے میں لے لی تھیں جب کہ متروکہ ملکیت کی جائیدادکے بارے میں پاکستان کی سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری کی فل بینچ جس کی سربراہی سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جناب ثاقب نثار کر رہے تھے 10 مئی 2015 کو اپنا تحر یر ی فیصلہ دے چکی ہے کہ متروکہ جائیداد صرف ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجروں کو ہی دی جا سکتی ہے لیکن حیرت ہے اس فیصلے پر عمل نہیں کیا جا رہا۔
میں سمجھتی ہو ں کہ عدا لت کے فیصلے کا اطلاق نہ ہو نا بھی تو ہین عدالت ہے جب کہ عدا لتی فیصلو ں پر عملدرآ مد کراناکو رٹ کی نہیں بلکہ حکومت کی ذمے داری ہے جس کا آ ج بھی کرا چی میں بسنے والے وہ مہاجر جو اپنی جا ئز املاک نہ ملنے کی صورت میں چھونپڑیاں اور کچی بستیا ں بساتے ر ہے اور اپنی غر بت کے با وجود جو ڑ جمع سے کچے گھرو ں کو پکا کرتے ر ہے تو اب یہ ہی حکومت انکروچمنٹ کی آ ڑ میں ان کے ٹھکا نو ں کو مسما ر کر ر ہی ہے۔
ہجرت کے سفر میں لٹ پٹ کے آ نے والوں کے علا وہ جو لو گ ممبئی، احمد آباد، سورت، کاٹھیاواڑ، بنگلور، حیدر آباد دکن، دہلی، آگرہ، لکھنو، امروہہ، بھوپال، الہ آ با د، علیگڑھ وغیرہ سے آئے انھوں نے کراچی کو اپنی ترجیح میں رکھا۔ چونکہ یہ ہجرت ایک اختیاری فیصلہ تھا اس لیے تقسیم کے وقت ہجر ت کر کے آ نے والے مسلما ن اپنی خوا ہش سے کچھ مشر قی پا کستان میں آ با د ہو ئے، کچھ مغر بی پاکستان میں آبسے اور کچھ ہندوستا ن میں ہی ر ہ گئے۔ اس تقسیم کے نتیجے میں خاندانو ں میں آ پس میں طے شدہ شادیاں کھٹا ئی میں پڑ گئیں جو بعد میں ہو ئیں بھی تو سر حدوں کے سخت گیر ماحو ل میں آ نے جا نے کی سہو لتیں نہ ہو نے پر ان گھرانوں کو شدید مشکلا ت کا سامنا ر ہا۔
1947 کی ہجر ت کے نتائج کا جا ئزہ لیا جا ئے تو آ نے والے مہا جرو ں نے اپنی کا وشو ں سے اس ملک کو بنا یا اور یہی لوگ تھے جو ہجرت کے خوفناک مراحل کوعبور کر کے اس سر زمین پر پہنچے اور اس کی ایڈمنسٹریشن سے لے کر صنعتکاری تک کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار اد کیا۔ ایئر لائن، شپنگ کمپنیز، بینکاری اور تعلیمی ادارے بناکر پہلے سے موجود رہنے والوں کو بھی آگہی دی، کوآپریٹیو سوسائیٹیز جیسی چیز وں سے روشناس کرایا جو رہن سہن کاایک معیاری ماحول سمجھا جاتا ہے۔ تحریری علم کو اتنا عام کیا کہ ہر سال سیکڑوں کتابیں شائع ہو تیں، لائبریریاں علاقوں میں قائم کیں، اسکول کے بچوں سے لے کربڑے تک کتاب پڑھتے تھے، خواتین ڈائجسٹ اور رسالوں میں دلچسپی رکھتیں تھیں، بچے کہانیوں کی اور بڑے افراد ناولوں اور اخبارات کے مطالعے کے شوقین تھے۔ آرٹ کے شعبہ میں پینٹنگ روشناس کرانے والے صادقین اور گل جی جو اپنے فن پاروں سے اسی علاقے کو پہچان بناکر دنیا کو متوجہ کراگئے۔
ایٹمی سائنسداں بھی ہجرت کرنے والوں میں شمار رکھتے ہیں، ان کے ساتھ جو کچھ ہوا، سب نے دیکھا لیکن ر یا ست مدینہ میں ہجرت کر کے آ نے والو ں کو جو کچھ دیا یہا ں اس کا عشرے عشیر بھی نہیں۔ یہا ں تو مہا جر بستو ں میں ایو ب خا ن کے اشا رے پر گو لیو ں کا نشا نہ بننا اور اپنی املا ک کو نذ ر آ تش ہو تے دیکھنا پڑا تو کبھی اپنی ہی آبادیوں میں جیسے کہ قصبہ و علیگڑھ کا لو نی اور پکا قلعہ حیدر آ با د فرا مو ش نہیں کیے جا سکتے تو کبھی ریاستی آ پر یشن کے نا م پر رسوائی کا سامنا کر نا تو کبھی مہا جر نو جوا نو ں کی با ز یا بی کا انتظا ر! لیکن اس سب کے با و جو د قومی یکجہتی، ملکی سا لمیت اور ریا ست کی بقاء کے خا طر مہا جر پو ر ے ملک کے عوام کے لیے ایک نادر و نمو نہ ہے جو تما م تلخیو ں اور سختیو ں کے سہنے کے بعد بھی اب کرا چی کے مستقل شہر ی کے طو ر پر ر یا ست مدینہ کے نقشے قدم پر چلتے ہو ئے انصا ر بن کر ملک بھر کے بے روزگارو ں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔
ایک ہجر ت 1965 میں بھی معرض وجو د میں آئی جس میں جنگ کے بعد بہت سے ہندو اور سکھ گھرانو ں پرجا سو سی کی پاداش میں انھیں یہا ں سے بے دخل کر دیا گیا اور ان کی جا ئیدا دیں پا کستا ن میں رہ گئیں جس کے بد لے میں ہندوستا ن نے بھی وہا ں پر مو جو د مسلما نو ں پر الزا م تراشی کر کے ہندوستا ن سے نکا ل دیا اور ان کی زمین و جا ئیدا دیں حکو مت ہند نے لے لیں جب کہ یہا ں سے جا نے وا لے ہندو ؤ ں کو مسلما نو ں کی چھوڑی ہو ئی ملکیت دی جا چکی ہیں اور وہا ں سے بے دخل کیے گئے مسلمانو ں کو یہا ں پر اس کا کو ئی متبا دل فرا ہم نہیں کیا گیا۔
(جاری ہے)