ہماری تمام سیاسی جماعتیں ملک میں نئے صوبے کے حق میں اپنی اپنی رائے بلاشبہ دیتی رہی ہیں جب کہ یورپی ممالک کی ترقی کا راز بھی یہی ہے کہ وہ کم آبادی ہونے کے باوجود انتظامی سطح پر خود انھوں نے اپنے یونٹوں کی تعداد زیادہ رکھ کر عوام کو مساوی انصاف فراہم کرنے کے آسان راستے بنائے تاکہ لوگوں کی زندگی میں سکون کے ساتھ ان کی آزادی میں بھی کوئی فرق نہ آئے۔
عوام کے تمام تر مسائل میں سب سے زیادہ ان کے نزدیک انصاف کا حصول اہم نظر آتا ہے۔ اس ہی طرح کے مسائل کو سلجھانے کے لیے ہم نے بھی حصول انصاف کے لیے قانون سازی کی صورت میں 2013ء کی قومی اسمبلی میں ہائی کورٹس کی بینچز ڈسٹرکٹ کی سطح پر قائم کرنے کے لیے بل کی صورت میں حل پیش کرنے کی بھرپور کوششیں کی جو جان بوجھ کر اس لیے نظر انداز کر دی گئیں کہ ہر آنے اور جانیوالی حکومت عوام کی سہولتوں کو مدنظر رکھنے کے بجائے اپنی کرسی کو محفوظ کرنے میں زیادہ مصروف نظر آئی۔
میں ماضی کی ایک بات یاد دلا دوں کہ پہلے اس ملک کو مشرق اور مغرب کے نام سے پکارا جاتا تھا تاہم سانحہ سقوط ڈھاکہ کے بعد اچانک ملک کو چار علاقائی نام دے کر اور غیر متوازن طور پر آبادی کے بڑے حجم کو پنجاب صوبے کا نام دے دیا گیا اور بقیہ آبادی کو سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کا نام دے کر تین صوبوں میں دھکیل کر لڑنے کے لیے چھوڑ دیا گیا جس میں ذیلی قومیتیں اپنا وجود آج تک تلاش کر رہی ہیں اگر اس وقت مغربی پاکستان کو سات یا آٹھ حصوں میں تقسیم کردیا جاتا تو آج عام آدمی کے ذہن میں نہ احساس محرومی ہوتا اور نہ ہی انتظامی مشکلات پیش آتیں اس کے علاوہ دیگر تحفظات نسبتاً کم سے کم ہوتے جس کا تدارک ممکن ہوتا میں یہاں اختصار کے ساتھ ملک کی ایک سابق حکومت کا ذکر کرنا بھی اس لیے چاہوں گی کہ ان کے دور اقتدار میں ملک کی وفاقی پارلیمنٹ نے دستور میں ایک نئی ترمیم کر ڈالی جسے سینیٹ آف پاکستان نے بھی منظورکر لیا اور بتایا گیا کہ اس ترمیم کے ذریعے وفاق نے اپنے تمام حقوق صوبوں کو منتقل کر دیے ہیں لیکن اس ترمیم کے کرتے وقت سب سے اہم مالی وسائل کی تقسیم سے متعلق کوئی وضاحت نہیں کی گئی جو صوبوں کے اندر سے وفاق محصول کی صورت میں حاصل کرتا ہے یعنی وفاقی آمدنی جس پر صوبے کے عوام کا آئینی و قانونی حق ہوتا ہے اس ملنے والی رقم کو پہلے کس مقام کی تعمیر و ترقی کے لیے ترجیح پر رکھا جائے گا تو اس بنیادی نکتے کو صرف صوبے کے وزیر اعلیٰ کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
گزشتہ دنوں لندن میں ہونے والی کامن ویلتھ کی ایک میٹنگ جو پارلیمنٹیرین اراکین پر مشتمل تھی اور میں بھی اس کی رکن کی حیثیت سے اسی گروپ میں شامل تھی، ہمیں بتایا گیا کہ میئر لندن کے اختیارات میں مزید اضافہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ان کے نظام میں اور بہتری آئی ہے کیونکہ میئر عوام کے سامنے جوابدہ ہوا کرے گا تاکہ شہریوں میں احساس تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔ دراصل یہ ہوتی ہیں اصلاحات جہاں عوامی نمایندے اور انتظامیہ باہمی اشتراک کے عمل کو شفاف بنانے میں ایک دوسرے کے معاون اور مددگار تصورکیے جاتے ہیں۔ اب آئیے! اٹھارہویں ترمیم پر اس کے اسمبلی میں پاس ہونے کے بعد صوبوں نے آئین کی آرٹیکل 140.A کے تحت اپنے اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل نہیں کیے جس کی وجہ سے بلدیاتی اداروں کو انتظامی اور مالی امور میں ہمیشہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس کے علاوہ اختیارات کے عدم توازن کی وجہ سے ایسے کام جو بلدیاتی کونسلرز کے کرنیوالے ہوتے ہیں ان میں صوبائی وزیر اپنا اختیار استعمال میں لاتے ہوئے مداخلت کر رہے ہوتے ہیں اور وہ اختیارات جو بلدیاتی سطح پر منتخب نمایندوں کے پاس ہونا چاہیے وہ صوبے کی بیوروکریسی کے پاس ہوتے ہیں اور صوبے اپنی سیاسی اور مالی اختیارات کے حصول کے خاطر عوام کی اکثریت کی رائے کے برخلاف نئی تحصیلیں اور نئے ضلعے سیاسی ضرورت کے تحت جب چاہتے ہیں بنا لیتے ہیں جو زمینی حقائق سے الگ ہوتے ہیں اور یہ سب اس لیے بھی کیا جاتا ہے کہ مقامی حکومتوں کا کنٹرول صوبائی حکومتوں نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے جب کہ اس وقت ضرورت نئے صوبوں کی ہے۔
میں نے موجودہ اسمبلی میں اپنی سیاسی جماعت ایم کیو ایم اور اس کے دیگر اراکین اسمبلی کی تائید حاصل کرتے ہوئے آئین کی آرٹیکل 140 A کے اندر ایک اضافی ترمیم 140 B مقامی حکومتوں کے حوالے سے قومی اسمبلی میں جمع کروائی ہے جو انشا اللہ آیندہ سیشن میں بحث کے لیے پیش کی جائے گی اور اگر کسی قسم کا رخنہ نہ ڈالا گیا تو امید ہے کہ اس ترمیم کے منظور ہو جانے کے بعد مقامی حکومتیں با اختیار ہوکر جب کام کریں گی تو صورتحال بہت بہتر ہوگی کیونکہ اس اضافی ترمیم میں ہم نے عوام کے لیے سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات صوبائی حکومتوں سے ضلعی بلدیاتی حکومتوں کو منتقل کرنے کے حوالے سے درج کیے ہیں لہٰذا اس ترمیم سے صوبائی حکومت پرکام کا دبائو کم سے کم ہوجائے گا اور وہ اپنی توجہ صوبے کے بڑے مسائل پر مرکوزکرسکیں گی۔
اقتدار میں آنیوالی حکومتیں اپنے بیانیے میں کہتی رہی ہیں کہ کسانوں کی سہولت کے لیے کھیت سے منڈیوں تک آمد رفت کو آسان بنایا جائے گا لیکن صورت حال اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ دیکھیے ترقی کی منزلیں کس طرح سے طے ہو رہی ہیں کہ موٹر ویز، نئے ایئرپورٹ، بڑی بڑی ہائوسنگ سوسائیٹیز اور پلازہ تو تعمیر ہوگئے جو ایک اچھے ماحول کے لیے ضروری بھی ہیں جب کہ ایک کسان کے لیے اس کے بنیادی مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی جو ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا حصہ دار ہے۔
اب غور کیجیے یہ ذمے داری ان لوگوں کی سب سے زیادہ ہے جو دیہی علاقوں سے بہت بڑی تعداد میں عوامی نمایندے بن کر اور جمہوریت کے نام کا لقب حاصل کرکے بار بار باریاں تو لیتے رہے لیکن آج بھی کھیت اور گائوں سے گزرنے والی سڑک کی چوڑائی 10 فٹ سے زیادہ آگے نہ بڑھ سکی کہ ان سڑکوں پر ایک وقت میں ایک ٹریکٹر ٹرالی یا بیل گاڑی گزر رہی ہو تو کئی کلو میٹر دور تک اس کو بائی پاس کرنے کے لیے کسی دوسری گاڑی کولگ جاتے ہیں اور اگر سامنے سے کوئی چھوٹی یا بڑی گاڑی آجائے تو ایک گاڑی کو لازمی کچے میں اترنا پڑتا ہے۔
اب ان دیہی علاقوں کا ایک ایسا بے فیض منظر بھی ہے جو وجود تو رکھتا ہے لیکن اپنے سماج اور ماحول کے لیے مفلوج ہے تعلیمی اداروں میں یہ لوگ دیہی علاقے کے طلبہ کے کوٹہ کی بنیاد پر میڈیکل اور انجینئرنگ کے لیے داخلہ تو حاصل کر لیتے ہیں ڈگریاں بھی مل جاتی ہیں لیکن کامیابی کے بعد وہ ان پسماندہ علاقوں میں کام کرنے کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں رکھتے بلکہ ان کی تمام تر توجہ بڑے شہروں یا اعلیٰ عہدوں پر ملازمت حاصل کرنے پر مرکوز ہوتی ہے۔
ان کی اس بے اعتنائی کا سبب وہ علاقے جہاں سے وہ ہیں یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ جب عوام یا اقوام اپنے حق کو حاصل کرنے کے لیے موجود نظام سے متنفر ہو جائیں تو وہ اپنی محرومیوں کے سبب ان کا رجحان بغاوت کی طرف جانے لگتا ہے تب ایسی صورت میں نہ تو آئین اور نہ ہی قانون ان کو روک سکتا ہے اور نہ ہی وہ افرادی قوت جو طاقت کا استعمال حکومتوں کے کہنے سے عوام پر لازم کرتی ہے۔ ایک وقت وہ بھی عوام کے غیظ وغضب کے سامنے بے بس اور پسپا ہوجاتے ہیں۔
اب ملک اور عوام کے مفاد کو اولیت دیتے ہوئے ضرورت اس امرکی ہے کہ ملک میں نئے صوبے بنائے جائیں یا مقامی حکومتوں کو با اختیار بنا کر اصل اقتدار عوام کو منتقل کیا جائے تاکہ عوام کے بنیادی مسائل حل ہو سکیں۔ لہٰذا سب سے پہلے جو بنیاد بنتی ہے وہ ہے اختیارات کا عدم توازن معاشرے میں بگاڑکا ذمے دار یہ ہی نکتہ ہوتا ہے جو افراد سے اقوام تک بے چینی پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں انسان کے دامن سے صبر کا کھسکنا دراصل انتشار کی طرف جانے کا پہلا قدم ہوتا ہے لہٰذا ہمیں اجتماعی اور انفرادی ہر طور پر ان کے تدارک کی طرف جانا ہوگا اور ملک میں افہام وتفہیم کی قومی یکجہتی کو عملی طور پر آئین وقانون کے ذریعے اس کی اصل روح کے مطابق نافذکرنا ہوگا جس سے ملک مضبوط اور مستحکم ہو۔