ملک میں تبدیلی کا بیانیہ جاری ہے۔ ایسے میں اب پاکستان کی تقدیر بدلنے کے لیے چند فیصلوں کی اشد ضرورت ہے، جس کی مدد سے دیہی و شہری علاقوں میں بسنے والے لوگوں کے طرز زندگی کو مکمل نہ سہی پرکسی حد تک اتنا ضرور بدل دیا جائے کہ کم ازکم وطن عزیز میں بسنے والے تمام لوگ اپنے آپ کو ایک ہی ریاست کا فرزند سمجھیں۔ ان کے رہن سہن اور بود وباش میں اتنی تفریق نہ ہوکہ کوئی تو خود کو آقا بنا لے اور دوسرا غلام ابن غلام بن کے رہ جائے جو ہمارے موجودہ اور گزشتہ حالات میں ہوتا چلا آرہا ہے جس کی نہ تو قانون قدرت میں گنجائش ہے اور نہ ہی قانون فطرت میں کوئی جگہ۔
اس خود ساختہ ماحول کی وجہ یہ ہے کہ ظالم کا جبر اور مظلوم کے پیٹ کی آگ جو اسے موت سے قریب ترکر دیتی ہے لہٰذا یہی وہ خوف ہے جو اس کی سوچ کے ساتھ شخصیت کو بھی اتنا مسخ کرکے رکھ دیتا ہے اور وہ آقا کا حکم سننے کے بعد نظریں جھکائے ہاتھ باندھے الٹے قدم لوٹتا ہے۔ اسی طرز عمل کے سبب معاشرے میں انسانوں کے درمیان درجہ بندیوں کی وجہ سے خلیج بڑھتی چلی جا رہی ہے، جس کی چند معروضی وجوہات ماضی میں کیے گئے کچھ ایسے فیصلے ہیں جنھوں نے ترقی کا ذریعہ بننے کے بجائے تنزلی کے ساتھ ساتھ قومی اتفاق رائے کی راہ کو بھی معدوم کردیا۔ ان میں سے چند کا ذکر کرنا ضروری سمجھوں گی۔
نمبر ایک۔ پاکستان کی 80 فیصد آبادی کا ذریعہ آمدنی زراعت ہے، جس کی آمدنی میں چند ہزار روپے کمانے والے ہاری اور کسان کو چھوڑ کر اصل کمائی حاصل کرنے والے کروڑوں اور اربوں روپوں کے مالک جاگیردار، وڈیرے اور زمیندار ہیں جو شروع ہی سے قانون ساز اداروں کے ہمعصر رہے اور پھر سیاسی طور پر ان صفوں کا حصہ بننا شروع ہوگئے جو طاقت کے بل بوتے پر اپنی زمینوں پر برسنے والے ہاری اورکسان کو اپنے مالکانہ رویوں سے غلام ابن غلام بناتے چلے آرہے ہیں اور ان کی زندگی میں مقامی طور پر کوئی بہتری لانے کے بجائے خود وسائل سے فیضیاب ہونے کے لیے انھوں نے شہروں کا رخ کیا اور اپنے آبائی دیہات میں بڑے بڑے قلعے نما محل تعمیر تو کیے جب کہ ان میں سے بیشتر میں ملازمین کی فوج ان کے محلات کی حفاظت پر مامور رہتی ہے۔
ان مالکان کا پڑاؤ صرف الیکشن یا کسی کی موت ہوجانے پر ہی ہوتا ہے اور بچوں کی شادیاں بھی شہروں کے 5 اسٹار ہوٹلوں میں ہوتی ہیں اور گاؤں میں وہاں کی عوام کے لیے محض ایک لنگر جاری کردیا جاتا ہے۔ اس دن وہ معصوم پیٹ بھرکر کھانا کھاتے ہیں اور ان کی واہ واہ کرتے ہیں جب کہ ان کی آبائی بستیوں میں بسنے والوں کے لیے نہ اسکول، نہ اسپتال اور نہ ہی باقی سہولتیں میسر ہیں بلکہ ان کے علاقے مزید سے مزید بد حالی کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
یہاں کی کچی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر دوڑتی بڑی بڑی تیز رفتارگاڑیوں کی دھول میں اٹے عوام بھی جب کسی آفت سے دوچار ہوتے ہیں تو وہ بھی شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ شہروں کی صورت حال آبادی کے دباؤ کے سبب غیر متوازن ہوتی چلی جا رہی ہے جب کہ شہروں میں بسنے اورکام کرنے والے خواہ تاجر ہوں، کاروباری افراد ہوں یا ملازمتیں کرنے والے جو ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں، اس اعتبار سے پانی، بجلی، تعلیمی سہولتیں، بہتر سڑکیں اور علاج معالجہ ریاست کی ذمے داری بنتی ہے جب کہ سب ندارد۔ پانی نہیں توکنواں کھدواتے ہیں، بجلی نہیں تو جنریٹر لگواتے ہیں اور علاج کی ضرورت پڑے تو مہنگے ترین پرائیوٹ اسپتالوں میں جاتے ہیں کیونکہ سرکاری اسپتال میں نہ تو مکمل سہولتیں موجود ہیں اور جو میسر ہیں وہ اندرونی علاقوں سے بھاری تعداد میں آنے والوں کے لیے بھی کم پڑتی ہیں۔
میں بحیثیت سوشل ورکر ایک ایسے ادارے سے وابستہ رہی ہوں جو مفت طبی سہولتیں فراہم کرتا ہے اس کا ڈیٹا اگر چیک کیا جائے تو 12 سے 15 فیصد لوگ مقامی ہوتے ہیں باقی ماندہ غیر مقامی۔ ظاہر ہے کہ جب ان کے علاقوں کی اتنی ڈیولپمنٹ ہی نہ ہوسکی تو وہ کہاں جائیں؟ جب کہ ان کے آبائی علاقوں کا بجٹ کہاں جاتا ہے کسی کو نہیں معلوم؟ اور یوں وہ بحالت مجبوری شہری بجٹ میں ہی حصہ دار بن جاتے ہیں۔
کسی بھی ریاست کی ترقی کا دارو مدار مملکت میں موجود ہر فرد کے انفرادی اور اجتماعی رویے کے وہ سنہری اصول ہوتے ہیں جو ایک فلاحی و معاشی ریاست میں تسلیم کیے جاتے ہیں جس میں سب سے پہلے ٹیکس ادا کرنے کا وہ باشعور فیصلہ ہی اولین ترجیح ہوتا ہے جو معاشرے کی اصلاحات میں ایک کلیدی درجہ رکھتا ہے جس سے حاصل ہونے والی مادی دولت سے سماج اپنی زندگی کے دیگر لوازمات ریاست سے وصول کرنے کا حقدار کہلاتا ہے لیکن ہمارے ملک کے معاشرتی اصول ابتدا ہی سے بے ترتیب ہیں اب دیہی علاقوں کے حوالے سے ایک نکتہ جو غور طلب ہے وہ یہ کہ کروڑوں روپے کی املاک کی ملکیت رکھنے والے قانون و دستور میں اپنے آپ کو ہر قسم کے ٹیکس سے مبرا رکھنے کے لیے خود کو پیشہ زراعت سے وابستہ لکھ کر 80 فیصد ایسے افراد میں شامل ہوجاتے ہیں جو ٹیکس ادا نہیں کرتے جب کہ دوسری جانب ملک میں صرف 20 فیصد ہی ایسا طبقہ ہے جو ٹیکس کی ادائیگی کر رہا ہے۔
ماضی بعید میں حکمرانوں نے دیہی علاقوں کی بگڑتی صورتحال بہترکرنے کے بجائے اصلاحات کی نیت سے کوٹہ سسٹم رائج کردیا، جس میں 60 فیصد حصہ دیہی علاقوں کے لیے اور 40 فیصد حصہ شہری علاقوں کے لیے مختص کیا گیا۔
اس فیصلے کی نیک نیتی پر شبہات اور تحفظات اپنی جگہ پہلے بھی موجود تھے اور آج بھی موجود ہیں جو کسی حد تک درست معلوم ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ دیہی علاقوں سے منتخب ہونے والوں نے شہری حصے کی ملازمتوں پر تعیناتیاں بھی دیہی علاقے والوں کی کروائیں تو پھر ان کے آبائی علاقوں کی ترقی کیسے ممکن ہے جیساکہ آج کل جعلی ڈومیسائل کے معاملات کھل کر اب سامنے آ رہے ہیں جس پر اعلیٰ عدلیہ نے بھی نوٹس لیا ہے جب کہ شہر میں ٹیکس ادا کرنے والے کا بچہ حصول علم و ملازمت کے لیے دھکے کھاتا پھر رہا ہو اور وہیں دیہی علاقوں سے بے چارے ہاری کے بچے جن کو نہ تعلیم دی گئی اور نہ ہی ان کی طرز زندگی میں کوئی خاطر خواہ بہتری آئی اور زمیندار و جاگیردار جو نہ ایف بی آر کے دائرہ کار میں آنا چاہتا ہے اور نہ ہی کوئی ٹیکس ادا کرنے کی ذمے داری میں خود کو شامل کرنا ضروری سمجھتا ہے۔
اب ان تمام مسائل کی موجودگی میں معیشت کی اس غیر متوازن صورتحال کوکیسے سنبھالا جاسکتا ہے؟ معیشت کی ترقی، اصلاحات کا عمل، تعلیم کا حصول، بے روزگاری کا خاتمہ اور صحت جیسے امور پر توجہ دینا ہماری اولین ضرورت اس وقت کارآمد ہوگی جب ٹیکس کے موجودہ نظام کو جدید اور آٹومیشن نظام کے دائرہ عمل میں لایا جائے گا۔ جو ہر فرد کو الیکٹرانک زاویے سے دیکھ رہا ہوگا اور اس خودکار تبدیلی کے ہونے سے ریاست کا باشندہ این ٹی این نمبر کا مالک اور ٹیکس پیئر ہونے پر فخر کرے گا۔
ریاست پاکستان کے آئینی اداروں اور مقتدر قوتوں کو ملک کے مستقبل کو تحفظ، استحکام، امن اور معیشت کے خد و خال کو درست انداز میں جاری رکھنے کے لیے مدبرانہ فیصلہ سازی کرنا ہوگی، جو عوام میں ایک توانائی سے بھرپور بیانیہ اجاگرکرسکے۔ جس کے اثرات دیرپا اور پراثر حالات کا پیش خیمہ ہوں۔ ملک کی سرحدوں کا نظریاتی اور پیشہ ورانہ تحفظ ہماری بنیادی ضرورت ہے، کیونکہ یہ ہمارے اجداد کی میراث بھی ہے لہٰذا ملک کو معاشی بحران سے نکالنے اور خصوصاً سندھ میں استحکام کو جاری رکھنے کے لیے جہاں تقریباً ڈھائی سے تین کروڑ کی آبادی رہائش پذیر ہو جو پورے ملک کا معاشی اکلوتا حب رکھنے والے شہر کا درجہ رکھتا ہو تو وہاں وفاق پاکستان کو ریاست کی تقدیر بدلنے کے لیے فیصلہ کرنا ہوگا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اربوں روپے ریونیوجمع کرکے دینے والا شہرکیوں ایسے ہاتھوں میں چلا جائے کہ جن کی جائیدادیں بیرون ملک میں ہوں، خفیہ اکاؤنٹ ہوں اور منی لانڈرنگ کے مقدمات کسی ایک فرد پر نہیں بلکہ خاندان بھر اور پارٹی اراکین پر بھی تواتر سے قائم ہو رہے ہوں۔ اب ان پر اعتماد کرنا اخلاقی، قانونی اور آئین کے حلف کی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا اگر موجودہ صورتحال کو برقرار رکھا گیا تو عین ممکن ہے کہ وفاق میں جگہ حاصل نہ کرنے والے سندھ کو بحرانی کیفیت میں مبتلا کرکے کسی آئینی تصادم پر نہ لے جائیں لہٰذا مقتدر حلقوں کو اب پہلے کی نسبت زیادہ غور سے دیکھنا ہوگا کہ سندھ کو پسماندگی کی جانب جانے دیا جائے یا ترقی کی رفتار میں شامل کرنے کے لیے کردار ادا کیا جائے۔ قومی یکجہتی اور ملکی سالمیت کے جو تقاضے آئین پاکستان نے وفاق اور ریاست کو دیے ہیں، ان کا استعمال قومی مفاد میں پاکستان سے وفاداری اور آئین کی پاسداری تسلیم کیا جائے گا۔