Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Akhtar Ali Jee Qazi Ki Yaad Main

Akhtar Ali Jee Qazi Ki Yaad Main

یہ بات1968 کی ہے جب میں میٹرک کا طالب علم تھا، اپنے دوست منظور حسین لاڑک کے ہمراہ لاہوری محلے میں رہنے والی پر وقار شخصیت سے ملنے کا اتفاق ہوا، جن کا نام قاضی اختر تھا، ہم دونوں دوست بھی اسی محلے کے رہائشی تھے، جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی بنائی تو میں نے انھیں وہاں بھی کام کرتے دیکھا، پھر وہ لاڑکانہ لا کالج میں بطورپرنسپل اپنے فرائض سرانجام دیتے ہوئے ملے اور مجھے ہمیشہ کہتے تھے کہ میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کروں اور وکیل بن جاؤں لیکن میری نوکری محکمہ اطلاعات سندھ میں تھی جہاں پر مجھے ٹائم ہی نہیں ملتا تھا کہ میں ایل ایل بی جیسے سخت امتحان کی تیاری کرسکتا۔ قاضی صاحب کے قریبی دوستوں میں عبدالمنان چانڈیو، صاحب خان چانڈیو، حاجی خان منگن اور مولچند تھے۔

اختر علی قاضی 17 ستمبر 1936 کو قاضی غلام مصطفیٰ کے گھر حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کلیکٹر، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اورکئی محکموں کے سیکریٹری اوراینٹی کرپشن سربراہ کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دے چکے تھے۔ ان کے خاندان میں علامہ آئی آئی قاضی، خان بہادر، غلام نبی قاضی اور اے جی این قاضی شامل ہیں، جو بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے، ان کی فیملی کے 7 افراد سندھ ہائی کورٹ کے جج بھی رہے ہیں۔ اے جی این قاضی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر بھی رہ چکے ہیں۔ اختر قاضی کے بھائی امام علی قاضی بھی سندھ ہائی کورٹ کے جج رہے تھے، جب کہ وہ خود بھی ہائی کورٹ کے جج رہے ہیں۔

انھوں نے پرائمری، سیکنڈری کی تعلیم دادو، حیدرآباد اورکراچی سے حاصل کی اور میٹرک کا امتحان 1956 میں این جے وی آئی اسکول کراچی سے پاس کیا۔ اس کے بعد کراچی یونیورسٹی سے ایم۔ اے کی ڈگری اکنامکس میں حاصل کی، ایل ایل بی کی ایس ایم لا کالج کراچی سے 1958 میں حاصل کرنے کے بعد وہ لاڑکانہ شہر میں آکر بس گئے اور وہاں پر خان بہادر یار محمد جونیجوکے جونیئر کے طور پر قانون کی پریکٹس شروع کر دی۔ اسی سال انھیں اسسٹنٹ پبلک پراسکیوٹر اورگورنمنٹ Pleader کے طور پر بھرتی کیا گیا۔ انھوں نے تھوڑے ہی عرصے میں بڑا نام کمایا۔

قاضی صاحب کو شروع ہی سے تعلیم کے فروغ کے ساتھ بڑا لگاؤ تھا، انھوں نے ایک سوسائٹی بنائی، جس کے پلیٹ فارم سے کئی کام سر انجام دیے۔ اس کے علاوہ انھوں نے باقی دوستوں سے مل کر لاڑکانہ آرٹ اینڈ کامرس کالج لاڑکانہ کے قیام میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ وہ قاضی فضل اللہ لا کالج لاڑکانہ کے بانی پرنسپل بھی تھے جہاں پر وہ 1966 سے 1985 تک رہے۔ وہ قابل تو تھے مگر بڑے با اصول اور ایماندار کے طور پر مشہور تھے اورکوالٹی ایجوکیشن یا قانون کی بالادستی پر کبھی بھی سودے بازی نہیں کی حتیٰ کہ اپنے قریبی دوستوں کی بھی سفارش نہیں مانتے تھے۔ اپنے کیریئرکے دوران وہ کئی عہدوں پر فائز رہے اورکئی ذمے داریاں نبھائیں۔

وہ ڈین آف فیکلٹی آف لا سندھ یونیورسٹی جامشورو، اور اس کی Synticate کے ممبر بھی رہے۔ وہ ایک اچھے نامور وکیل کے طور پر بھی مقبول تھے جس کی مقبولیت پورے سندھ میں چھائی ہوئی تھی اور وہ زیادہ تر فوجداری مقدمات کو لڑتے تھے۔ وہ 1979 میں سندھ بارکونسل کے ممبر بھی رہے اور 1980 میں وہ اسی کونسل کے وائس چیئرمین بھی منتخب ہوئے۔

قاضی اختر تعلیمی اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، لاڑکانہ سر شاہنواز بھٹو میموریل لائبریری کی ترقی میں ان کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ لاڑکانہ ڈسٹرکٹ ہسٹاریکل سوسائٹی کو فعال بنانے میں بھی کافی پیش پیش رہے۔ انھیں لاڑکانہ ہلال احمر اسپتال کے جنرل سیکریٹری کے طور پر بھی ذمے داریاں ملی ہوئی تھیں۔ جہاں پر وہ 1988 تک کام کرتے رہے جب کہ وہ ٹی بی ایسوسی ایشن لاڑکانہ کے صدر، سٹیزن کلب لاڑکانہ کے صدر بھی رہے۔

سیاسی طور پر وہ قاضی فضل اللہ کے ساتھ ہمدردی رکھتے تھے لیکن وہ بھٹو صاحب کی شخصیت سے بے حد متاثر تھے، اس لیے 17 ستمبر 1970 کو پاکستان پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے اور انھیں لاڑکانہ سٹی کا نائب صدر بنایا گیا بعد میں انھیں صدر بنایا گیا۔ جب ضیا الحق نے بھٹوکی حکومت ختم کرکے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تو قاضی نے کچھ عرصے کے لیے سیاست سے اپنے آپ کو دور رکھا مگر 1980 میں وہ سندھ مجلس شوریٰ کونسل میں شامل ہوگئے اور جب 1985 میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے تو وہ لاڑکانہ ضلع کے وارہ سے ایم پی اے منتخب ہوگئے۔ سندھ اسمبلی میں حلف لینے کے بعد انھیں ڈپٹی اسپیکر منتخب کرلیا گیا اور وہ کچھ عرصہ عارضی طور پر اسپیکر کے عہدے پر بھی رہے۔

1988 میں سندھ ایجوکیشن محکمے اور لا اینڈ پارلیمنٹری افیئرزکے وزیر بنائے گئے انھیں کھیلوں کا اضافی محکمہ بھی دیا گیا۔ اسی دوران انھیں فنانس پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ، ٹرانسپورٹ، لوکل گورنمنٹ جیسے محکموں میں کام کرنے کا موقعہ ملا۔ جب ضیا الحق نے سیاسی اسمبلیاں توڑ دیں تو انھیں سندھ کا کیئر ٹیکر وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا جس عہدے پر وہ 1988 میں ضیا الحق کی موت کے بعد ہونے والے انتخابات تک رہے۔ وہ وارہ سے انتخاب میں بھی ایم پی اے کی سیٹ کے لیے الیکشن لڑے اور اپنے حریف نثارکھوڑو جو پی پی کے امیدوار تھے سے شکست کھائی۔ جب وہ چیف منسٹر تھے تو انھوں نے لاڑکانہ کو ڈویژن کا درجہ دلوایا۔

قاضی صاحب کی ذہانت اور ایمانداری کی وجہ سے انھیں کئی عہدوں پرکام کرنے کا موقعہ ملتا رہا۔ جب وہ وزیر تعلیم تھے تو وہ تعلیم کے فروغ اورکوالٹی کے لیے کوششیں کرتے رہے بلکہ کاپی کلچرکو بھی بڑا دھچکا دیا۔ سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے قاضی اختر نے بھی اپنے آپ کو تبدیل کرتے رہے، پی ایم ایل این کے سندھ میں صدر بھی رہے اور 1985 سے 1992 تک کام کرتے رہے۔ اس کے بعد 1992 میں ہی انھیں سندھ ہائی کورٹ کا جج بنا دیا گیا جہاں پر وہ 1997 تک اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اس کے بعد انھیں پرتگال کا سفیر بنایا گیا جہاں پر انھوں نے اپنی ذمے داریاں 1999 تک نبھائیں۔

انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ تین مرتبہ یو این او میں پاکستان کی نمایندگی اور کئی موقعوں پر وہ جنرل اسمبلی میں تقریر بھی کرچکے تھے۔ ایک مرتبہ انھوں نے Afro Asia لیگل کانفرنس جسے یو این نے نیویارک میں بلوائی تھی اس کی صدارت بھی کی تھی۔ انھوں نے تین مرتبہ حج اورکئی عمرے ادا کیے، یورپ اور مڈل ایسٹ کے کئی ممالک سرکاری اور غیر سرکاری طور پر دیکھ چکے تھے۔

مزاج میں بڑے سخت تھے اور ان کے چہرے پر شاید کسی نے مستقل مسکراہٹ دیکھی ہو، وہ وقت کے پابند اور کام کو ترجیح دینے والے سخت ایڈمنسٹریٹر تھے، جب زندگی کے آخری دنوں میں بیمار پڑگئے تو بہت کم لوگ ان سے ملنے آتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب وہ کسی بھی عہدے پر فائز ہوتے تو اپنے چہرے پر سختی نمودارکرتے تاکہ ان سے کوئی فری نہ ہو یا کوئی غیر ضروری سفارش نہ کروائے۔ جب چیف منسٹر بنے تھے تو اس دوران ان کے دوست مولچند بیچ شہر سے اغوا ہوئے، مگر حالات کی وجہ سے وہ اسے بغیر تاوان کے رہا نہیں کروا سکے۔

انھوں نے شادی کی تھی مگر ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ وہ قانون پر سختی سے خود بھی عمل کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ دوسرے بھی قانون شکنی نہ کریں۔ آخری دنوں میں انھیں کمرکے درد نے کافی پریشان کیا اور آخرکار 15 اکتوبر 2010 کو اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے۔