غلام مصطفی جتوئی سندھ کے وہ سیاستدان تھے جو وزیر اعلیٰ سے لے کر وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے، عوام کی خدمت کرنے کو اپنے لیے بڑا اعزاز سمجھتے تھے۔ زمانہ طالب علمی میں جنرل محمد ایوب خان سے متاثر تھے، لیکن ون یونٹ کے سخت مخالف تھے کیونکہ اس سے سندھ کا وجود اور شناخت ختم ہوگئی تھی۔ 25 سال کی عمر میں سندھ اسمبلی کے ممبر بنے تو انھوں نے ون یونٹ کے خلاف ووٹ ڈالا اور جی ایم سید کی حمایت کرتے ہوئے ون یونٹ کے خلاف ان کیساتھ مل کر کام کیا۔
ذوالفقارعلی بھٹو کے والد اور غلام مصطفی جتوئی کے والد ایک ہی اسپتال میں بغرض علاج داخل تھے تو جتوئی کے والد نے ان سے کہا کہ" چلو تمہیں سر شاہنواز بھٹو سے ملواؤں، جہاں پر ان کے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو بھی موجود ہیں۔ شاہنواز نے جتوئی کا تعارف بھٹو سے کروایا اور پھر ملاقات نہیں ہوئی لیکن جب بھٹو 1959 میں صدر محمد ایوب خان کی کابینہمیں وزیربنے تو وہ نواب شاہ کے دورے پر آئے اور وہاں کے ڈی سی کے ہاتھوں جتوئی کو پیغام بھجوایا کہ وہ ان سے ملنے آئیں مگر جتوئی نہیں آئے۔
جتوئی 1956 میں مغربی پاکستان میں نواب شاہ سے اسمبلی سے ممبر منتخب ہوئے تھے اور یہ ایک ریکارڈ کی بات ہے کہ پورے مغربی پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ وہ 1962 اور 1966 کے الیکشن میں بھی کامیاب ہوئے تھے۔ بھٹو نے 1967 میں پی پی پی بنائی مگر جتوئی نے اس میں 1969 میں شمولیت اختیار کی اور 1970 والے جنرل الیکشن میں نواب شاہ سے ایم این اے منتخب ہوئے۔ اس کے بعد حالات کی وجہ سے انھوں نے ایم این اے کی سیٹ سے استعفیٰ دے دیا، اورپھرصوبائی اسمبلی کے لیے الیکشن میں حصہ لیا اور انتخاب جیت لیا۔
1972 میں ممتاز بھٹو کی طرف سے سندھ اسمبلی میں سندھی زبان کا بل پیش کرنے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے مخالفت ہوئی اور کئی جگہ فسادات شروع ہوگئے، جنھیں ختم کرنے کے لیے بھٹو نے غلام مصطفی جتوئی کو وزیر اعلیٰ سندھ بنا دیا۔ بطور وزیراعلی سندھ 1977 کے انتخابات ہونے تک رہے۔ 1977 کے انتخابات میں وہ ایم این اے اور ایم پی اے کی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ الیکشن کے بعد بھٹو کے خلاف ہنگامے پھوٹ پڑے اور پی پی پی کی حکومت ختم کرکے ضیا الحق اقتدار میں آگئے اور سیاستدانوں کو جیل میں ڈالا گیا اور رہا کیا گیا۔ اس کے بعد بھٹو کو پھانسی دی گئی۔
غلام مصطفی جتوئی کو پی پی پی سندھ کا صدر بنایا گیا اور جب ایم آر ڈی کی تحریک شروع ہوئی تو اس میں انھوں نے بڑا فعال کردار ادا کیا اور 1983 والی تحریک میں انھوں نے قائد اعظم کے مزار کے باہر ایک جذباتی تقریر مارشل لا کے خلاف کی اور اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے 14 اگست 1983 کو پیش کیا۔ اس موقع پر ان کے بھائی مجیب جتوئی کو بھی گرفتار کرکے مچھ جیل بھیج دیا گیا۔ جب ایم آر ڈی کی تحریک کا دوسرا دور 1986 میں شروع ہوا تو اس میں بھی انتہائی متحرک رہے۔
اس دوران ان کے کچھ اختلافات پارٹی والوں سے ہوگئے جس کی وجہ سے انھوں نے پی پی کو چھوڑ کر اپنی سیاسی پارٹی نیشنل پیپلز پارٹی کے نام سے قائم کی جس میں غلام مصطفی کھر، حنیف رامے، حامد رضا گیلانی، کمال اظفر، نواب غوث بخش رئیسانی، آفتاب شاہ جیلانی، نفیس صدیقی، رضا ربانی اور رانا محمد حنیف بھی شامل ہوگئے۔ 1988 کے عام انتخابات میں پی پی پی کامیاب ہوئی۔ اس الیکشن میں جتوئی ہار گئے مگر انھیں اسلامی جمہوری اتحاد کا صدر بنایا گیا اور انھیں کوٹ ادو سے ایم این اے منتخب کروایا گیا اور اپوزیشن لیڈر کے طور پر قومی اسمبلی میں اپنی ذمے داریاں نبھانے لگے۔ اس دوران بے نظیر بھٹو وزیر اعظم کے خلاف ایوان میں عدم اعتماد تحریک لائی گئی جو ناکام ہوگئی۔
جب 1990 میں صدر اسحاق خان نے بے نظیر کی حکومت کا خاتمہ کیا تو انھوں نے دوبارہ عام انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے غلام مصطفی جتوئی کو نگراں وزیر اعظم بنا دیا، جس کی مدت 6 اگست سے 6 نومبر 1990 تک رہی۔ اس الیکشن میں جتوئی نوشہرو فیروز سے ایم این اے منتخب ہوگئے، جب کہ نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ جب نواز شریف وزیر اعظم بنے تو بے نظیر بھٹو نے ان کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ شروع کیا جس میں جتوئی نے بھی شرکت کی، اور یوں نواز شریف کی حکومت ختم کردی گئی۔ اس کے بعد جتوئی نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ قومی اسمبلی میں تعاون برقرار رکھا جو 1996 تک چلتا رہا۔ طبیعت کی ناسازی اور کچھ سیاست سے اکتاہٹ کی وجہ سے جتوئی نے اپنے بیٹے غلام مرتضیٰ جتوئی کے حوالے سیاست کی باگ ڈور کردی۔
جب 1938 میں قائد اعظم سندھ کے دورے پر آئے تو اس وقت وہ 7 سال کے تھے اور ان کے دادا خان بہادر امام بخش خان صابر جو 1920 میں ایم ایل اے بھی رہ چکے تھے اور اس کے بعد بھی وہ مسلسل تین مرتبہ ایم ایل اے منتخب ہوتے رہے۔ وہ ممبر بمبئی لیجسلیٹیو کاؤنسل تھے جس کی وجہ سے ان کے قائد اعظم محمد علی جناح کیساتھ قریبی تعلقات تھے۔ جب قائد اعظم نوابشاہ آئے تو اس وقت بھی جتوئی کے دادا نواب شاہ لوکل گورنمنٹ کے صدر تھے۔ جتوئی کے دادا نے قائد اعظم کو جلوس میں لے کر آنے کے لیے ایک ہاتھی کا بھی بندو بست کیا تھا مگر قائد اعظم نے اس پر بیٹھنے سے انکار کیا اور پھر انھیں ایک بڑے جلوس کی شکل میں نوابشاہ ڈسٹرکٹ کونسل کے ہال میں لایا گیا۔
پروگرام کے اختتام کے بعد بھی وہ قائد اعظم کو الوداع کہنے کے لیے نواب شاہ ریلوے اسٹیشن تک گئے تھے۔ اس موقع پر جتوئی کے والد غلام رسول خان بھی موجود تھے۔ الوداع کہتے ہوئے قائد اعظم نے مصطفی جتوئی کے گال پر پیار سے تھپتھپایا تھا جو ان کے لیے ساری عمر بڑے اعزاز کی بات رہی۔ انھیں شکار کا بہت شوق تھا اور ان کے والد ہمیشہ شکار پر انھیں ساتھ لے جاتے تھے۔ اس زمانے میں جنگل میں تیتر اور stag بڑی تعداد میں ہوتے تھے اور شکار صرف بڑے زمیندار کیا کرتے تھے اور وہ بھی ایک سیزن میں تاکہ ان پرندوں اور جانوروں کی نسل بڑھتی رہے۔
جتوئی کو تاریخ سے بہت زیادہ دلچسپی تھی اور وہ دنیا کے بڑے بڑے سیاستدانوں پر لکھی گئی کتابیں پڑھتے تھے جن میں چرچل، ہٹلر، نپولین، روز ویلٹ اور فال آف شہنشاہ شامل تھے۔ وہ اچھے اور نئے کیمرے خریدتے رہتے تھے، وہ خوبصورت پرندوں، جانوروں، درختوں، پھولوں، جھیلوں، پہاڑوں کی تصویریں اتارتے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ بہترین اقسام کی بندوقیں اور رائفل خرید کر جمع کیاکرتے۔
ان کے والد نے 1953 میں ڈسٹرکٹ کونسل کی صدارت سے استعفیٰ اس لیے دیا تھا کیونکہ وہ غلام مصطفی کو سیاست میں متعارف کروانا چاہتے تھے۔ اس وقت ان کی عمر صرف 21 سال ہ اپنی زندگی میں وفاقی وزیر برائے سیاسی امور، پورٹ قاسم، نیشنل شپنگ کارپوریشن، کمیونیکیشن، پٹرولیم اور نیچرل ریسورسز انفارمیشن ٹیکنالوجی، ریلویز اور ٹیلی کمیونیکیشن رہے۔ کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد 20 نومبر 2009 کو لندن میں انتقال کرگئے، ان کی میت کو پاکستان لاکرخاندانی قبرستان دفن کیا گیا۔