لاڑکانہمیں کچھ بنگلے بڑے خوبصورت اور مشہور تھے، جن میں لاہوری بنگلہ، ایوب کھوڑو کا بنگلہ، تولانی بنگلو، گیان چند کا بنگلہ اور غیبی خان چانڈیوکا بنگلہ شامل ہیں۔ افسوس کہ بھائیوں میں کچھ مجبوریاں آڑے آگئیں جس کی وجہ سے لاہوری بنگلہ بیچ دیا گیا، جس سے ایک تاریخ ختم ہوگئی۔ ایوب کھوڑوکے بنگلے میں کرائے پرکوئی دفترکھولا گیا ہے، المرتضیٰ ہاؤس ویران پڑا ہے، تولانی بنگلے میں ہندوستان سے آنے والا ایک خاندان رہتا ہے۔ غیبی خان چانڈیوکا بنگلہ بھی ویران ہے، گیان چند کے بنگلے میں بھی ایک خاندان رہتا ہے مگر اس کی وہ تاریخی حیثیت برقرار نہیں ہے۔
نواب امیر علی لاہوری کو لاڑکانہ کی ترقی میں انگریز سرکارکے ساتھ مالی تعاون اور زمین دینے کے علاوہ اور سماجی کاموں کے بدولت خان بہادر، نواب، آرڈر آف برٹش ایمپائر، میڈلز اور سندیں ملیں اور وہ جب بھی کہیں جاتے تو انگریز سرکارکے نمائندے اور افسران انھیں سلیوٹ کرتے تھے۔ امیر علی سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اورکوئی بھی ان کے پاس کام سے آتا، تو وہ اپنی جیب سے خرچہ کرکے اس غریب کا کام کرتے۔ نواب کا انتقال 1964 میں ہوا جس کی وجہ سے انھیں کافی سیاسی دھچکا لگا۔
اس وقت لاڑکانہمیں نواب صاحب کا دوسرا بیٹا قلب حسین لاہوری محلہمیں رہتا ہے، جس سے ملنے کے لیے کچھ عرصہ پہلے لاڑکانہ جانا ہوا۔ وہ 1942 میں لاڑکانہمیں پیدا ہوئے جس نے پرائمری سندھی کے 4 اسٹینڈر لاہوری میں گورنمنٹ پرائمری اسکول سے پاس کرکے مزید انگریزی کے تین اسٹینڈرڈ اور میٹرک پاس کرنے کے لیے گورنمنٹ ہائی اسکول لاڑکانہمیں داخلہ لیا جہاں سے 1960 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد بی اے کا امتحان گورنمنٹ ڈگری کالج لاڑکانہ سے 1964 میں پاس کیا۔ بدقسمتی سے وہ ایم اے پاس نہیں کرسکے۔ ان سے باتوں کے دوران معلوم ہوا کہ ان کے والد کی بھٹو خاندان سے دوستی یہ لوگ بھی نبھاتے رہے۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو پاکستان پیپلز پارٹی بنا رہے تھے تو وہ اس سلسلے میں اجلاس ان کے لاہوری بنگلے میں ہی کرتے تھے اور اس بنگلے میں امیر علی خود بھی لوگوں سے ملتے تھے اور صبح سے لے کر شام تک ان کے پاس لوگوں کا مجمع لگا ہوتا تھا اور وہ آنے والوں کے مسائل کے لیے کسی کو خط لکھ کے دیتے اورکسی کے ساتھ بھی چلے جاتے۔
جب 1970 کے عام انتخابات کا اعلان ہوا تو لاڑکانہمیں سب سے پہلے بھٹو نے اپنی الیکشن مہم کا افتتاح اور شروعات ان کے بنگلے سے ہی کی تھی۔ لاہوری خاندان کی بھٹو سے وفاداری کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ جب ایک مرتبہ لاڑکانہ ضلع کے ایک شہر باڈہمیں بھٹوکو جانا تھا اور سارے لوگ تیار تھے تو کسی نے انھیں اطلاع دی کہ کچھ ہتھیار بند لوگ راستے میں بھٹو پر حملہ کرنے کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں مگر بھٹو نے کہا کہ نہیں وہ جائیں گے جو ہوگا اسے دیکھ لیا جائے گا۔ یہ سن کر قلب حسین اور اس کے چھوٹے بھائی مصطفی حسین بھی ان کے ساتھ نکل پڑے اور جیپ پر جب سوار ہوئے تو ایک بھٹو کے دائیں اور ایک بائیں بیٹھ گیا تاکہ اگر حملہ ہو تو بھٹوکوکوئی نقصان نہ ہو لیکن وہ لوگ نظر نہیں آئے، شاید اتنے بڑے لوگ دیکھ کر وہ گھبرا کر چلے گئے۔ امیر علی کی بھٹو سے دوستی نبھانے کے لیے لاڑکانہ سے پی پی پی میں شمولیت اختیار کی تھی اوریہ لوگ اس پارٹی کے بنیادی رکن ہیں۔
مصطفیٰ لاہوری اس زمانے میں گورنمنٹ ڈگری کالج لاڑکانہ کی اسٹوڈنٹ یونین میں تھے اور جب بھی بھٹو لاڑکانہ جناح باغ میں یا کہیں اور سیاسی جلسہ کرتے تو وہ بھٹو سے پہلے تقریر کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جوشیلی اور بھٹو کی حمایت میں تقریر کرنے پر مصطفی کو پولیس نے گرفتار کرلیا اور اسے لاک اپ میں ڈال دیا۔
یہ بھی ایک ریکارڈ ہے کہ 1970 کے الیکشن میں پارٹی کا الیکشن کیمپ لاہوری محلے میں ان کے سپرد تھا جس کا سارا خرچہ انھوں نے خود برداشت کیا اور پورے ضلع میں پارٹی کو سب سے زیادہ ووٹ ان کی پولنگ اسٹیشن سے ملے۔ سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو، قلب حسین کے بہنوئی تھے اور کہتے تھے کہ وہ پی پی پی سے الگ ہوجائیں مگر انھوں نے یہ بات سنی ان سنی کردی۔ جب بھٹو اقتدار میں آئے تو قلب حسین نے کہا کہ انھیں بڑی امیدیں تھیں کہ وہ ان کی قربانیوں کا خیال رکھتے ہوئے ان کا خیال رکھیں گے مگر ایسا نہیں ہوا اور قلب حسین کے بڑے بھائی نے کئی مرتبہ بھٹو سے اپنے بھائی کی نوکری کے لیے کہا، مگر پتا نہیں وعدہ کرنے کے باوجود بھی وہ اسے نوکری نہیں دے پائے جو بات ان کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس کے بعد بے نظیر بھٹو نے بھی کوئی خیال نہیں کیا۔
جب لاڑکانہمیں شیخ زید وومن اسپتال بنایا جا رہا تھا تو بھٹو نے لاہوری خاندان کی 6 ایکڑ زمین اسپتال کے لیے خرید لی جس کی قیمت لاہوری خاندان نے بہت ہی کم لگائی کیونکہ یہ اسکیم عوام کی بھلائی کے لیے تھی۔ اس کے بعد چلڈرن اسپتال کے لیے بھی اپنی زمین صرف 7 ہزار ایکڑکے حساب سے حکومت کو دی جب کہ سچل کالونی کی 42 ایکڑ بھی اسی طرح سستے دام لاڑکانہ کے شہریوں کے لیے دے دی۔ اب لاہوری خاندان کی ساری پراپرٹی جاتی رہی تو قلب حسین نے لاہوری بنگلے کے سامنے والے باغ کا آدھا حصہ بیچ دیا اور باقی آدھے حصے پر اپنا گھر بنالیا جو ان کا فیصلہ بڑا دانش مندانہ تھا کیونکہ آگے چل کر بھائیوں میں اختلافات کی وجہ سے سب کچھ فروخت ہوگیا۔
قلب حسین گورنمنٹ ڈگری کالج کی اسٹوڈنٹ یونین میں 1962 میں جوائنٹ سیکریٹری تھے۔ اس زمانے میں اسکول اور کالج میں شام کوکھیلوں میں حصہ لینا ضروری ہوتا تھا اور وہ وہاں بیڈمنٹن کھیلتے تھے جو انھوں نے آج تک کھیلنا نہیں چھوڑا۔ وہ کبھی آفیسرز کلب میں اورکبھی دوستوں کے ساتھ اپنے گھرکے لان میں کھیلتے ہیں۔ وہ چھٹی کے دن اپنی زرعی زمین کی دیکھ بھال کرنے جاتے ہیں۔ دوستی میں بڑے سلیکٹڈ ہیں اس لیے ان کے بہت کم مگر اچھے دوست ہیں۔
وہ ضلع اور ڈویژن سطح پرکئی کمیٹیوں کے ممبر ہیں اور آفیسرزکلب کے خدمت کمیٹی کے امن کمیٹی کے بھی ممبر ہیں۔ سب سے بڑھ کر وہ 2013 کے الیکشن سے پہلے کیئرٹیکر حکومت میں تین مہینے کے لیے وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کی طبیعت میں سادگی، نفاست ہے۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں جن سے انھیں بے حد پیار ہے۔ وہ مذہبی کتاب پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کے خاص دوستوں میں عزیز ابڑو، داؤد میمن، محمد ایاز سومرو (مرحوم)، دیدار حسین ابڑو (مرحوم)، غلام حیدر، غلام مصطفی ابڑو اور محمد نوازچانڈیوشامل ہیں۔