موسیقی روح کی غذا ہے اور اس کی روح شاعری ہے اور اگر صوفیانہ کلام ہو تو پھر سننے والے پر اس کا اثر اتنا گہرا ہوتا ہے کہ وہ اپنے وجود کو کہیں چھوڑ آتا ہے، اگر شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی جیسا ہو اور کلام کو الن فقیر جیسا گائیک گاتا ہو تو محفل میں بیٹھے ہوئے یا ٹی وی اور ریڈیو پر سننے والوں پر وجد طاری ہونا لازمی ہے۔
انھیں تنبورو ساز سے بڑی محبت تھی، جسے وہ پیار سے اور آہستگی سے بجاتے تھے، تار کے سروں سے بھی رب کی تعریف سنائی دیتی تھی۔ الن جب بھٹائی کی وائی گاتے تو سننے والے اس کے سحر میں گرفتار ہو جاتے۔ اس کے علاوہ انھوں نے شیخ ایازکا کلام بھی بڑی خوبصورتی سے گایا ہے، جس سے انھیں ہی نہیں بلکہ شیخ ایازکو بھی زیادہ شہرت ملی۔ الن کا دوران گائیگکی ہاتھوں کا استعمال اور اسٹیج پر دھیمے انداز میں سندھی جھمر کرنا، عوام کو بڑا اچھا اور پیارا لگتا تھا اور لوگ بھی بے خودی میں ان کے ساتھ ناچنے لگتے تھے۔
الن فقیر 1932ء میں ضلع دادو کے ایک چھوٹے گاؤں مانجھند میں پیدا ہوئے تھے، جو پاکستان بننے سے پہلے مشہور تھا جہاں پر ہندو بیوپاری رہتے تھے اور ان کی بنائی ہوئی عمارتیں فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ تھیں۔ وہ منگنھار (مانگنے) والے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس قبیلے کا یہ کام تھا اور ہے کہ وہ شادیوں، میلوں اور فنکشنوں میں جا کر ساز بجا کر گانا گا کر، شاعری سنا کر اپنا پیٹ پالتے تھے۔ جب الن بھی جوان ہوئے تو وہ بھی اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پروگراموں میں لطیفے سناتے، گانے گاتے اور مزاح کر کے اپنے اس فن سے لوگوں کا دل بہلاتے اور وہاں سے ملنے والی رقم سے اپنا اور اپنے گھر والوں کے اخراجات پورے کرتے۔
بچپن میں ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا، دادا نے پال پوس کر جوان کیا تھا کیونکہ ان کے والد بھی بعد ازاں اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ اب زندگی کا کاروبار اورگھر بار چلانے کے لیے ٹرین، بس اور میلوں میں گاتے تھے جس میں زیادہ تر بھٹائی کا کلام ہوتا تھا کیونکہ شاہ لطیف سندھ کے لوگوں کے دل اور دماغ میں بسا ہوئے ہیں جنھیں عوام سننا چاہتے ہیں۔ اس وقت بھی الن کے ہاتھ میں لاٹھی ہوتی تھی، جس میں مختلف اقسام کے نگینے جڑے ہوتے تھے۔ انھیں نگینے اکٹھے کرنے اور اسے ہاتھوں کی انگلیوں میں پہننے کا بڑا شوق تھا۔
جوانی والے دور میں وہ پینٹ شرٹ پہنتے تھے، لوگ انھیں مسخرہ کہتے تھے کیونکہ وہ لطیفے سنا کر لوگوں کا دل بہلاتے تھے اور لوگ انھیں بابو کے نام سے پکارتے تھے۔ وقت گزرتا رہا اور وہ بھٹائی کے مزار پر اب زیادہ جانے لگے اور ان کے کلام کو دل سے گانے میں خوشی اور سکون محسوس کرنے لگے جس کی وجہ سے ان کے فن میں ایک نکھار آگیا اور آواز میں پختگی پیدا ہوگئی۔ اب وہ مختلف پروگراموں میں اسٹیج پر بھی گانے لگے وہ پاپولر ہوتے چلے گئے اور خاص طور پر شاہ بھٹائی کے سالانہ عرس پر مختلف جگہوں پر گانے لگے۔ اب الن فقیر کی زندگی میں ایک تبدیلی آئی جب انھیں کلچر ڈپارٹمنٹ کے ممتاز مرزا نے اسٹیج پرگاتے ہوئے دیکھا اور سنا تو وہ انھیں ریڈیو پاکستان حیدرآباد لے آئے، جہاں پر انھیں اپنا فن پیش کرنے کا موقع دیا گیا، جسے سن کر لوگوں نے بہت پسند کیا۔
الن فقیر اچھے دن شروع ہوچکے تھے اور ان کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا اور وہ مقبولیت کی بلندی کو چھونے لگے۔ پی ٹی وی پر سندھی فنکاروں کو متعارف کروانے میں عبد الکریم بلوچ کا بڑا اہم کردار رہا ہے اور انھوں نے ممتاز مرزا کی وجہ سے الن کو پی ٹی وی میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع دیا جس سے وہ اور زیادہ مشہور ہوگئے۔ الن کی ملک کی سطح پر مقبولیت وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو تک بھی پہنچ گئی جنھوں نے الن کو او آئی سی کے پروگرام کے موقع پرگانا گانے کے لیے مدعوکیا، ان کی پرفارمنس غیر ملکی مہمانوں کو بہت زیادہ پسند آئی۔
اس کے علاوہ بیرونی ممالک میں الن فقیر کی ڈریسنگ، ناچنے کے انداز اور ان کی آواز کو بہت پسند کیا گیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے سنگر محمد علی شہکی کے ساتھ کچھ گیت گائے جنھیں بڑی مقبولیت ملی جس میں "اللہ اللہ کر بھیا، اللہ ہی سے ڈر بھیا، اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا، ہو اللہ" مقبولیت کی انتہا کو چھونے لگے۔
الن فقیر نے شیخ ایازکی شاعری اتنے اچھے انداز سے پیش کی کہ لوگ ان کو پہلے سے بھی زیادہ چاہنے لگے اور جب شیخ ایاز سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے تو انھوں نے الن فقیرکوگریڈ 16 میں نوکری دی، ایک اچھا سا بنگلہ بھی الاٹ کیا جہاں وہ بڑے اچھے طریقے سے رہنے لگے، بھینسوں کو پالنے لگے جس سے انھیں کچھ اضافی آمدنی بھی ہونے لگی۔ جب شیخ ایاز یونیورسٹی سے چلے گئے تو نئی انتظامیہ نے الن فقیر سے سرکاری بنگلہ واپس لے کر ایک چھوٹا کوارٹر دے دیا جہاں پر وہ مرتے دم تک رہے۔
1976ء میں اپنی رشتے دار لڑکی سے شادی کی، تین بیٹے اور دو بیٹیاں اللہ تعالی نے عطا کیں۔ اپنے فنی سفرکے دوران ان کا واسطہ کئی اچھے اور نامور لوگوں سے ہوا جو اپنی اپنی فیلڈ میں اہمیت رکھتے تھے۔ ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے غلام حسین شیخ، محمد اسماعیل، عبدالحمید آخوند، امداد خواجہ، منصور ویراگی، ظفر کاظمی، ممتاز مرزا، عبدالکریم بلوچ، شیخ ایاز وغیرہ جنھوں نے الن فقیرکے فن اور شخصیت کو بنانے اور نکھارنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا، انھیں صدارتی ایوارڈ، شاہ لطیف ایوارڈ، سچل ایوارڈ، قلندر شہباز ایوارڈ اور کئی ملکی سطح پر انعام اور ایوارڈ ملے۔
دنیا کے کئی ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ امریکا، جرمنی، جاپان، کینیڈا، شارجہ، دبئی، ترکی، منیلا، یو ایس ایس آر، اٹلی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے فنی اسٹائل اور آواز اور انداز سے باہر ممالک کے لوگ اتنے خوش ہوتے تھے کہ وہ ان کے ساتھ ناچنا شروع کر دیتے اور ان کے ساتھ تصویریں بنواتے رہتے۔
ان کے گانوں کی آڈیو اور ویڈیو کیسٹیں بے شمار بنائی گئیں، ان کی کیسٹ مارکیٹ میں آتی اور ہاٹ کیک کی طرح فروخت ہو جاتیں مگر انھیں اس کی انتہائی قلیل رائلٹی ملتی۔
الن فقیر نے ملک اور سندھ کو موسیقی کی دنیا میں نام کما کے دیا حکومت اور ان کے مداحوں نے بالکل بھلا دیا جس کی آواز آج بھی ریڈیو اور ٹی وی پر سنائی دیتی ہے تو دل خوش ہو جاتا ہے۔ کسی نے کبھی ان کی فیملی سے یہ نہیں پوچھا کہ ان کا کیا حال ہے اور وہ مفلسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ایسے فنکاروں کو حکومت بھی نہیں یادکرتی انھوں نے اپنی آواز سے ملک کی عزت میں اضافہ کیا۔ الن کی برسی آتی ہے اور چلی جاتی ہے مگر کوئی بھی ان کی یاد میں پروگرام منعقد نہیں کرتا۔
الن زندگی کے سفر میں ایسا مصروف ہوئے کہ انھوں نے اپنی صحت کا بھی خیال نہیں رکھا، ان کی طبیعت عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ خراب ہوتی چلی گئی، ایک دن ان پر فالج کا حملہ ہوا اور یہ تاریخ تھی 30 جون 2000ء اورگرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ انھیں کراچی کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔ آہستہ آہستہ حکومت، بیورو کریسی اور ان کے چاہنے والے دور ہوتے گئے اور آ کر صرف ہمدردی کر کے چلے جاتے تھے مگر مالی طور پر زیادہ مدد نہیں کر سکے جس کی وجہ سے ان کا درست علاج نہیں ہو سکا اور طبیعت ہرگزرتے دن کے ساتھ مزید خراب ہوتی چلی گئی۔ 4 جولائی 2000ء کو انھوں نے اس دنیا کو الوداع کہا لیکن اپنے ساتھ کئی غم کی پوٹلیاں لے گئے۔
اس وقت الن فقیرکا صرف ایک بیٹا فہیم الن فقیر باپ کے فن کو اور اسٹائل کو اپنائے ہوئے ہے مگر ان کی جگہ پر کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ الن فقیر کا اصلی نام علی بخش تھا، ان کے والد ڈھول بجاتے تھے، الن ان پڑھ ضرور تھا لیکن ان کی یادداشت غضب کی تھی اور وہ جو بھی شاعری سنتے، وہ ازبر ہو جاتی تھی۔ انھوں نے 1980ء میں پرائیڈ آف پر فارمنس حاصل کیا تھا۔