کسی بھی کلچر میں موسیقی کا اہم کردار ہوتا ہے کیونکہ لوک گیت اور لوک کہانیاں اس علاقے کی زبان، رسم و رواج اور تہذیب کے ساتھ تاریخ کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ لوک موسیقی سب سے زیادہ پسند کی جاتی ہے کیونکہ اس میں کوئی بناوٹ نہیں ہوتی اور اس کا تعلق دھرتی اور اس کے لوگوں سے جڑا ہوتا ہے۔
میں آپ کو سندھ کی لوک فنکارہ جیجی زرینہ کے بارے میں بتانے جا رہا ہوں جو نہ صرف گلوکارہ تھیں بلکہاستاد اور ایک جدوجہد کرنے والی سیاسی رہنما بھی تھیں، ان کا نام امینہ تھا وہ حیدرآباد کے قریب ایک گاؤں اللہ داد میں چنڈ محلہ میں 1934میں پیدا ہوئی تھیں۔ ایک جگہ پر ان کا پیدائشی نام چھوٹی آمنہ اور پیدائش کی تاریخ 12 یا 29 دسمبر 1937 بھی درجہے جسے آج تک صحیح طریقے سے واضح نہیں کیا گیا ہے جس کی بڑی ضرورت ہے۔ ان کے والد محمد موسیٰ جلبانی میونسپل کمیٹی میں انسپکٹر تھے۔ زرینہ بلوچ نام ان کا شوبز میں آنے کے بعد متعارف ہوا۔
زرینہ نے اپنی ابتدائی تعلیم قاضی عبدالقیوم اسکول حیدرآباد سے حاصل کی اور سندھی فائنل کرنے کے بعد وہ 1960 میں پرائمری استادبن گئیں۔ ان کی والدہ گل روز کا انتقال اس وقت ہوا جب وہ صرف چھ برس کی تھیں جب وہ 15 سال کی ہوئیں تو ان کی شادی ایک رشتے دار سے ہوگئی۔ انھوں نے ایک بیٹی اختر بلوچ کو 1952 میں جنم دیا اور دوسری بیٹی الماس کو 1957میں، مگر 1958 میں ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہوگئی۔ زرینہ کی دوسری شادی سندھ کے مشہور سیاستدان رسول بخش پلیجو سے ہوئی، ان کے بطن سے لطیف پلیجو اور ڈاکٹر اسلم پلیجو پیدا ہوئے۔
انھوں نے ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے اپنے فن کی شروعات کی اور انھیں متعارف کرانے کے سہرا دادی لیلاں کے سر ہے۔ وہ ریڈیو پاکستان میں برقعہ پہن کر آتی تھیں اور اپنا اصلی نام، چھپانے کے لیے ا نھوں نے اپنا نام زرینہ رکھ لیا۔ انھوں نے کئی استادوں سے گانے کی تربیت حاصل کی مگر آخر میں استاد محمد جمن سے راگ کی تعلیم حاصل کی جس کی وجہ سے ان کی گائیکی میں مزید پختگی آئی۔ انھوں نے شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست کے کلام کے علاوہ اور بہت سارے مشہور شاعروں کے کلام بھی گائے تھے جنھیں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔
جیجی زرینہ گلوگارہ کے ساتھ ساتھ اچھی کمپوزر، شاعرہ، رائٹر، اداکارہ، سوشل ورکر اور سیاسی کارکن بھی تھیں، وہ ڈکٹیٹر ضیا الحق کے زمانے میں ناانصافی، فیوڈل ازم، ظلم اور زیادتیوں کے خلاف لڑتی رہیں جس میں ان کے شوہر رسول بخش پلیجو کا بڑا ہاتھ تھا۔ وہ سندھیانی تحریک کی بنیادی رکن تھیں، سندھی ادبی سنگت اور سندھی ہاری تحریک میں بھی بڑا متحرک کردار ادا کیا۔ وہ سندھی، بلوچی، اردو، سرائیکی، فارسی، عربی اور گجراتی زبانیں بولنا جانتی تھیں۔ زرینہ کو پرائیڈ آف پرفارمنس، شاہ لطیف ایوارڈ، سچل سرمست ایوارڈ، نگار ایوارڈ، وحید مراد ایوارڈ اور کئی دوسرے بڑے ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ جب ان کے شادی بیاہ کے گانے، لوک گیت اور دوسرے گائے ہوئے کلام ریڈیو سے پھر پی ٹی وی سے نشر ہوئے تو لوگ جھومنے لگتے تھے اور ان کے گائے ہوئے گیتوں کی کیسٹ بڑی خوشی سے خریدتے تھے۔
ان کا لوک گیت" مور تھور ٹلے رانا" جب 1962 میں پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا تو ہر طرف دھوم مچ گئی، بطور اداکارہ جب ایک ٹیلی ٹی وی پلے "دنگی منجھ دریا" میں کامیابی سے کام کیا تو اسے بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا گیا۔ یہ ٹیلی فلم پی ٹی وی نے سندھ کے مچھیروں کی زندگی پر بنائی تھی جس کے پروڈیوسر ہارون رند تھے۔ اس ٹیلی فلمنے پوری دنیا میں جرمنی میں ہونے والے فلم فیسٹیول میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ اس ٹیلی فلم میں مشہور آرٹسٹ نور محمد لاشاری نے زرینہ کے شوہر کا کردار ادا کیا تھا۔ فلم میں مچھیروں کی زبان بڑے اچھے اور صحیح تلفظ سے بول کر فنکاروں نے یہ ثابت کیا کہ وہ ہر کردار میں کھو کر کام کرتے ہیں۔
رسول بخش پلیجو سے شادی کرنے کے بعد وہ بھی سیاسی پروگراموں میں باقاعدہ شریک ہوتی تھیں۔ جب ضیا الحق نے بھٹو کو پھانسی دلوائی تو اس موقعے پر ایک سناٹا سا چھا گیا تھا اور کسی کو بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ بھٹو کو پھانسی ہوگئی ہے۔ زرینہ بلوچ کو عبدالکریم بلوچ نے پی ٹی وی پر متعارف کروایا۔ انھوں نے سندھی اردو ڈراموں میں بڑے اچھے کردار ادا کیے اور دیکھنے والوں کو حیران کردیا خاص طور پر انھوں نے پی ٹی وی ڈرامہ سیریل رانی جی کہانی، جنگل، روپ بہروپ، زینت قابل ذکر ہیں۔ کئی کہانیاں لکھیں، ٹی وی ڈرامے بھی لکھے اور کچھ کتابوں کے سندھی میں ترجمے کیے۔ ان کی لکھی ہوئی کہانیاں اور تحریریں سندھی مقبول رسالے روح رہان میں چھپتی رہی تھیں۔ ان کی لکھی ہوئی کہانیوں کا مجموعہ "منجھ جی گولھا تنھن جو گالھیوں " کے نام سے شایع ہوا۔ موسیقی کا ایوارڈ انھیں ریڈیو پاکستان حیدرآباد کی طرف سے 1961 میں دیا گیا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی لگن سے موسیقی کی دنیا کو سمجھ لیا تھا۔
زرینہ کو شیخ ایاز کی شاعری نے بھی بڑی مقبولیت دی۔ خاص طور پر ایک کلام تھا خبر نا ھی تہ ملن جوں حسرتوں رہندیوں۔ اس کے علاوہ انھوں نے فیض احمد فیض، تنویر نقوی، احمد فراز اور استاد بخاری کی شاعری کو بھی بڑے پیارے انداز سے گایا ہے۔ بھٹائی، سچل اور شیخ ایاز کے گیتوں کو گانے میں ان کا Pair الن فقیر کے ساتھ بڑا اچھا فٹ ہو گیا کیونکہ دونوں کی آواز میں ایک قدرتی مٹھاس اور جادو تھا جو سننے والوں کو سحر میں جکڑ دیتا تھا۔ میں بتاتا چلوں کہ زرینہ بلوچ ایم آر ڈی کی تحریک میں اتنی متحرک تھیں کہ انھیں دو سال تک جیل میں رکھا گیا۔ اس کے علاوہ جب جام ساقی کی رہائی کے لیے احتجاج ہوا تو وہ اس میں بھی شریک ہوئیں اور بھوک ہڑتال پر بیٹھی رہیں۔
انھیں حیدرآباد کے بعد سندھ یونیورسٹی کے ماڈل اسکول میں تعینات کیا گیا جہاں سے وہ 1997 میں ریٹائرڈ ہوئیں۔ مسلسل جدوجہد اور کام کی زیادتی سے ان کی طبیعت خراب رہنے لگی مگر انھوں نے کام کرنے کی عادت کو نہیں چھوڑا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جیجی زرینہ ہم سے 25 اکتوبر 2005 کو ایک نجی اسپتال میں صرف جسمانی طور پر جدا ہوگئی ہیں مگر آج بھی ان کے پرستار اور اپنے ان کی یادوں کو بھلا نہیں سکے۔ انھوں نے اپنے بیٹے ایازلطیف پلیجو کی شکل میں ایک اچھا وکیل اور عوام کا درد رکھنے والا بیٹا بھی چھوڑا ہے جو اپنی ماں اور باپ کے چھوڑے ہوئے ورثے کو سنبھالنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔