کراچی کے بعد حیدرآباد، سندھ کا دوسرا بڑا اہم ترین شہر ہے۔ علم، ادب، تاریخ، تہذیب، آرکیالوجی اور سیاست اس شہرکا معتبر حوالہ ہیں اور یہ اعتبار اور پہچان اسے بہت سے شخصیات نے دی ہے۔ ان ہی میں سے میں ایک شخصیت ممتاز مرزا کی بھی ہے، جن کی خدمات کو ہم کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتے۔
رائٹر، محقق، دانشور، کمپیئر، ریڈیو، ٹی وی کے ڈرامہ نگار کے علاوہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے شیدائی تھے۔ ان کی آواز اور تحریر انتہائی پر اثر تھی۔ پڑھنے، سننے اور دیکھنے والے ان کے مداح بن جاتے۔
ممتاز مرزا 29 نومبر 1940 کو حیدرآباد کے محلے ٹنڈو غلام علی میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول آسودومل حکمت رائے سے حاصل کی، آزادی کے بعد اسکول کا نام تبدیل کر کے سیٹھ حافظ پرائمری اسکول پھلیلی رکھا گیا۔ نور محمد ہائی اسکول سے میٹرک، انٹرمیڈیٹ سندھ اورینٹل کالج سے کرنے کے بعد انھوں نے سندھ یونیورسٹی جامشورو سے عالم و فاضل کا امتحان پاس کیا، جوکہ ایم اے سندھی کے برابر ہے۔
ان کے والد شاعر، ادیب اور محقق تھے، اپنے والد کو دیکھ کر ان میں بھی ادب، علم اور تحقیق کی طرف میلان ہونے لگا۔ ان کے والد ریڈیو حیدرآباد میں بطور اسکرپٹ رائٹر فرائض سر انجام دے رہے تھے اور یہ سال تھا 1955 کا۔ اپنے بیٹے کے شوق کو دیکھتے ہوئے، انھیں اپنے ساتھ ریڈیو اسیٹشن لے جاتے، جہاں انھوں نے اسکرپٹ کے شعبے میں کافی جانکاری حاصل کر لی اور پھر وہ ریڈیو کے لیے اسکرپٹ لکھنے لگے۔
ریڈیو کے لیے ڈرامے بھی لکھنے شروع کیے، جنھیں سامعین نے بہت پسندکیا، یوں ان کا حوصلہ مزید بڑھا۔ ریڈیو پر جب اسکول براڈکاسٹنگ کا شعبے کا آغاز ہوا تو انھیں وہاں کا انچارج بنایا گیا اور وہ سندھی شعبے کے پروگرام پیش کرنے لگے۔ بچپن ہی سے مرزا کو موسیقی سے بڑا لگاؤ تھا اور اس شوق کو پورا کرنے کے لیے انھوں نے ریڈیو سے سندھی موسیقی کے پروگرام بھی شروع کر دیے۔
سندھ کے مقبول گلوگاروں سے گفتگوکرتے اور ان سے گیت بھی عوام کو سنواتے۔ اب انھوں نے اپنے پروگراموں کو مزید بہتر اور معلوماتی بنانے کے لیے کتابیں پڑھنا اور تجربہ کار شخصیات سے مل کر سندھ کی تاریخ، جیوگرافی، کلچر، تہذیب وغیرہ کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہے۔ اس سلسلے میں لوگوں کے اصرار پر انھیں لوک ادب، تاریخ، سندھی موسیقی وغیرہ پر بھی پروگرام پیش کرنے شروع دیے، ان پروگرامز کی بدولت ریڈیو پاکستان حیدرآباد کا معیار بلند ہوا۔ اس زمانے میں ریڈیو پاکستان حیدر آباد سے محمد علی، مصطفیٰ قریشی، مشتاق مغل، عبد اللطیف ساقی، زرینہ بلوچ اور کئی نامور براڈ کاسٹرز نے بھی اپنا کیریئر شروع کیا تھا۔
1960 کا ذکر ہے کہ اس وقت کے کمشنر نے سندھ کی تاریخ پر ایک پروگرام کروایا تھا، جس میں تاریخ کی ابتدا موئن جو دڑو کی تہذیب سے شروع ہوتی ہے۔ اسی تناظر میں ممتاز مرزا نے ایک ڈرامہ پیش کیا تھا "موئن جو دڑو، آخری رات" جو ایک فیچرکی شکل میں تھا۔ انھیں اس ڈرامے، فیچر سے مقبولیت اور شہرت ملی اس پروگرام کے پروڈیوسر تھے مراد مرزا۔ اس فیچر کی اہم بات یہ تھی کہ اس میں سید صالح محمد شاہ، مہتاب چنہ (اب مہتاب راشدی) اور مشتاق مغل نے بطور براڈ کاسٹر کام کیا تھا۔ اس ریڈیو فیچر، ڈرامے کو کولمبیا انٹرنیشنل ریڈیو پروگرام مقابلے میں پیش کیا گیا تھا، جس نے دوسرے نمبرکا کولمبیا براڈ کاسٹنگ ایوارڈ حاصل کر لیا۔
یہ فیچر ڈرامہ اتنا اہم ثابت ہوا کہ اس کوکتابی صورت دی گئی اور اب اسے سندھ یونیورسٹی جامشورو میں سندھی شعبے کے نصاب میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے افسانے اور لوک کہانیوں کی طرف بھی توجہ دینی شروع کی۔ ایک انٹرویومیں انھوں نے بتایا تھا کہ کہانیاں لکھنے کا آغاز 16 سال کی عمر سے کیا اور انھیں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی سرپرستی حاصل کی تھی۔
اس سلسلے میں جامع سندھی، 1954 میں لغات اور لوک ادب آٖس میں بھی کام کرتے رہے۔ 1971 میں جب مرزا کو شاہ لطیف ثقافتی مرکزکا انچارج بنایا گیا تو انھوں نے وہاں لطیف پر کام کرنا شروع کیا، وہ اپنا تمام وقت بھٹ شاہ میں تحقیقی کام کے حوالے گزارتے۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کے کہنے پر ہی، انھوں نے سندھ یونیورسٹی جامشورو میں 1974 میں پبلک ریلیشن آفیسر (PRO) کی ذمے داری قبول کی، پھر ممتاز مرزا کو پی ٹی وی کراچی مرکز میں اسکرپٹ ایڈیٹر اور پروڈیوسرکی پوسٹ کی آفر ہوئی جسے انھوں نے قبول کرلیا۔
پی ٹی وی کا معیار تو پہلے ہی بڑا اچھا تھا لیکن مرزا کے آنے کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا، ڈراموں کے اسکرپٹ کی زبان اور دوسرے پروگراموں میں بولی جانے والی زبانوں میں مزید بہتری آنے لگی۔ پی ٹی وی پر بھی ان کی دھاک بیٹھ گئی اور انھیں کئی معلوماتی، لوک موسیقی کے پروگراموں کا میزبان بنایا گیا خاص طور پر سندھی پروگراموں میں شاہ لطیف کے پروگراموں میں بہت مزہ آیا۔ اس میں سندھ کی مشہور شخصیت حافظ ارشد انڈھر کا بڑا ہاتھ تھا اور مزید پروگراموں میں بہتری لانے کے لیے پروڈیوسر تاجدار عادل نے نواز علی شوق کو بھی شامل کردیا۔
جب حکومت سندھ نے 1990 میں کلچر، اسپورٹس، ٹوئر ازم اور یوتھ افیئرز کا محکمہ بنایا توممتاز مرزا کو اس کا پہلا ڈائریکٹر جنرل بنایا گیا جہاں پر انھوں نے سندھ کی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے کئی ثقافتی پروگرام کروائے۔ فن اور فنکاروں میں مالی اور فنی بہتری لانے کے لیے کئی پروجیکٹ شروع کروائے، فنکاروں کی برادری میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مرزا کو کچھ عرصے کے لیے سندھی لینگویج اتھارٹی کے چیئرمین کی بھی ذمے داری دی گئی تھی۔
انھیں شاہ لطیف سے بڑا پیار تھا اور وہ جو بھی پروگرام کرتے تھے اس میں بھٹائی کے اشعار ضرور پڑھتے۔ یہ کریڈٹ مرزا کو جاتا رہا کہ انھوں نے گنج میں استعمال کی ہوئی پرانی سندھی زبان کو شاہ جو رسالو میں موجودہ تختی میں لا کر بڑا کام کیا۔ تقریباً 30 سال تک بھٹائی کے سالانہ عرس، سخی شہباز قلندر کے سالانہ عرس اور سچل سرمست کے سالانہ عرس میں وہی کمپیئرنگ اور میزبانی کرتے تھے اور موسیقی کے پروگرام میں وہ تقریباً ہر فنکار کو موقع فراہم کرتے تھے۔ سندھ کی تاریخ کو تحقیق کی غرض سے انھوں نے سندھ کے آثار قدیمہ اور دوسرے مقامات بھی دیکھے۔
مرزا نے امریکا، جاپان، فرانس، اٹلی، انگلینڈ، دبئی، جرمنی، ترکی، ایران، روس کے علاوہ پوری دنیا میں سندھ سے موسیقی کو فروغ کام کیا۔ فنکاروں اورگانے والوں کو پیش کیا۔ حکومت پاکستان نے انھیں تمغہ حسن کارکردگی، بھٹائی ایوارڈ، قلندر شہباز ایوارڈ، سچل ایوارڈ کے علاوہ کئی ایوارڈز سے نوازا۔ سندھ کی خدمت کرتے ہوئے وہ کبھی نہیں تھکے لیکن 6 جنوری 1996 کو انھوں نے فرشتہ اجل کو لبیک کہا۔ محکمہ کلچر نے کراچی میں ایک اسٹوڈیو اور حیدرآباد میں سندھ میوزیم کا نام ممتاز مرزا رکھ کر انھیں ہمیشہ یاد رکھنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔