فاضل راہو سندھ کی سیاست میں عوام کے ہر دلعزیز سیاسی رہنما رہے، 1937 میں ضلع بدین کے گاؤں راہوکی میں پیدا ہوئے، ان کے والد ایک ہاری تھے۔ فاضل راہو غریبوں کی مدد کے لیے ہمہ وقت کمربستہ رہتے۔ ان کے اندر غریبوں سے پیار اور انسانوں کی خدمت کرنے کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ ہاری اور مزدوروں کے مسائل حل کرانے کے لیے افسران بالا تک جاتے۔
عوام میں ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت وڈیروں سے ہضم نہ ہوئی، اور انھیں 17 جنوری 1987 کو گولارچی شہر کے قریب کلہاڑیوں کے وارکرکے قتل کیا گیا اور اس قتل کو ذاتی دشمنی کا رنگ دیا گیا۔
سیاست میں راہو نے ایک نیا ٹرینڈ دیا، جو عوامی تھا جس میں وہ ہر غریب کے پاس خود جاتے اور ان کے ساتھ زمین پر یا چارپائی پر بیٹھ کر مسائل سنتے۔ خاص طور پر وہ زمیندار جو ہاریوں کو ان کا حق نہیں دیتے تھے یا پھر سرمایہ دار مزدوروں اور محنت کشوں کا حق مارنے کی کوشش کرتے تھے، اگرکوئی بیورو کریٹ غریبوں کا حق دینے کے لیے ان سے رشوت مانگتا تو یہ بیچ میں آکر ان سے لڑائی مول لیتے۔
فاضل نے اپنی سیاست کا باقاعدہ آغاز 1962 میں بی ڈی الیکشن سے کیا جو صدر محمد ایوب خان کے زمانے میں ہوئے تھے۔ اعجاز تالپرکے مقابلے میں یوسی ترائی سے الیکشن لڑا۔ ون یونٹ کے خلاف تحریک چلی تو انھوں نے تحریک میں بڑے جوش سے حصہ لیا اور بدین سے حیدرآباد تک ہزاروں لوگوں کا جلوس نکال کر احتجاج میں شریک ہوئے۔ 1970 کے الیکشن ہو رہے تھے تو ووٹر لسٹیں اردو میں چھپ رہی تھی، ان لسٹوں میں گاؤں، دیہات کے نام اور کاسٹ میں بہت غلطیاں تھیں، انھوں نے سندھی زبان میں ووٹر لسٹ چھپوانے کے لیے تحریک چلائی۔ حکومت نے ان کا مطالبہ مانتے ہوئے لسٹ کو سندھی زبان میں شایع کیا۔ اس بہت کا سارا کریڈٹ راہو کو جاتا ہے کہ ابھی تک ووٹر لسٹ اور قومی شناختی کارڈ کا اجرا سندھی زبان میں بھی ہوتا ہے۔
صدر ایوب خاں کے دور میں سندھ متحدہ محاذ بنایا گیا تھا جس میں جی ایم سید اور محمد ایوب کھوڑو بھی شامل تھے لیکن کچھ اختلافات کی وجہ سے رسول بخش پلیجو، فاضل راہو، عالم شاہ، تنویر عباسی اور حفیظ قریشی نے مل کر عوامی تحریک کی بنیاد ڈالی جس کے پلیٹ فارم سے سندھی شاگرد تحریک، سندھی شاگردیانی تحریک، سندھی مزدور تحریک، سجاگ بار (Childern) وجود میں آئیں، جس کا مقصد یہ تھا کہ زندگی کے ان شعبوں کو بھی سندھ کی سیاست میں لاکر انھیں اپنے حقوق کے بارے میں بتایا جائے۔ اس میں ہاری تحریک بھی شامل تھی۔
1971 میں عوامی تحریک کی طرف سے ایک ہاری کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ سندھ ہاری تحریک قائم کرنے کا اعلان ہوا تاکہ ہاری طبقہ جو زمینداروں کے ہاتھوں نا انصافی کا شکار ہے وہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر سکے اور وڈیرے اپنے ظلم اور زیادتیاں بند کرسکیں۔ اس پلیٹ فارم سے ایک تحریک کا آغاز کیا گیا جس کے تحت جاگیرداروں اور زمینداروں کو خبردار کیا گیا کہ وہ اب کسی بھی ہاری کو زرعی زمین یا اس کے حقوق سے دستبردار نہیں کرسکیں گے اور سرکار کو کہا گیا کہ وہ سرکاری زمین بے زمین ہاریوں میں تقسیم کریں۔
صدر ضیا الحق کے دور میں 1978 میں آزادی صحافت کے لیے ایک تحریک کا اعلان ہوا جس میں صحافیوں کے علاوہ ملک بھر سے طلبا، مزدور اورکسانوں نے حصہ لیا۔ اس وقت راہو جیل میں تھے مگر انھوں نے اپنے بیٹے کو اس تحریک میں شامل ہونے کے لیے بھیجا جس کا نام صادق تھا۔ جب بھٹو کو 1979 میں پھانسی دی گئی تو پورے ملک میں ایک سناٹا چھایا ہوا تھا مگر راہو نے دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے گاؤں میں ہاری کانفرنس بلوائی جس میں ہاری، مزدور اور سیاسی لیڈر بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ کانفرنس کو بین الاقوامی سطح پر میڈیا میں کوریج دی گئی، خاص طور پر بی بی سی اور وائس آف امریکا سرفہرست تھے۔ اس کانفرنس کے خاص لیڈروں کو جن میں رسول بخش پلیجو، فاضل راہو، حسین بخش ناریجو اور دوسروں کو گرفتار کرکے جیل بھیجا گیا۔
ایم آر ڈی تحریک شروع ہوئی تو انھیں سندھ لیول پر جوائنٹ سیکریٹری بنایا گیا، انھوں نے بدین میں ایک بڑا جلسہ حکومت کے خلاف کروایا، انھیں گرفتارکرکے نارا جیل بھیجا گیا، پھر مچ جیل منتقل کیاگیا اور جب ان کے بیٹے سچل کا انتقال ہوا تب بھی انھیں پیرول پر رہا نہیں کیا گیا اور وہ اپنے بیٹے کی تدفین اور نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوسکے۔ 1984 کے دوران وہ لانڈھی جیل میں بند تھے تو انھیں کیپسول میں زہر دے کر مارنے کی کوشش کی گئی مگر انھیں بچا لیا گیا اور پھر سکھر جیل اسی حالت میں بھیجا گیا اور انھیں کوئی طبعی امداد بھی مکمل طور پر نہیں دی گئی تھی، اس بات کا ذکر میں نے ایک مضمون میں پڑھا تھا۔ اسی اسیری کے دوران ان کے دوسرے بیٹے صدیق کا بھی انتقال ہو گیا تھا۔
1986 میں عوامی تحریک، مزدور کسان پارٹی، بی این پی اور این ڈی پی پارٹیوں نے مل کر عوامی نیشنل پارٹی بنائی گئی جس کا فاضل راہو کو مرکزی نائب صدر چنا گیا۔ اس پلیٹ فارم سے ان کی کوشش سے جو 14 لاکھ ایکڑ زمین کی الاٹمنٹ رد کرکے بے زمین ہاریوں میں تقسیم کی گئی جس میں کولہی، جت، لانگاہ اور دوسری قوموں میں شامل تھے، یہ زمین تعلقہ راہوکی میں تھی۔ اس کے علاوہ ان کی کوشش سے شوگر ملوں کے مالکان کو اس بات پر راضی کرلیا گیا کہ وہ مقامی لوگوں کو ملوں میں نوکری پر رکھیں۔ آگے چل کر بدین ضلع میں تیل کمپنیوں کو بھی مجبور کیا گیا کہ وہاں پر حق ان مزدوروں کا ہے جو اس علاقے میں رہتے ہیں۔
ایک مرتبہ صدر جنرل ضیا الحق سندھ کے سیاسی لیڈروں سے مل رہے تھے تو سارے ان سے اٹھ کر ہاتھ ملا رہے تھے مگر جب وہ فاضل راہو کے پاس آئے تو انھوں نے ان سے بیٹھ کر ہاتھ ملایا جس پر وہ بڑے برہم ہوئے اور وہاں پر موجود افسر نے راہو کوکہا کہ شاید انھوں نے ضیا الحق کو نہیں پہچانا جس پر فاضل نے جواب دیا ہاں وہ انھیں جانتے ہیں۔ غریبوں کی حمایت کرنے پر جاگیردار اور سرمایہ دار ان کے جانی دشمن بن گئے تھے۔ انھوں نے کبھی بھی اپنے ساتھ کوئی سیکیورٹی گارڈ نہیں رکھا اور وہ اکیلے گاڑی چلایا کرتے تھے۔ اگر راستے میں انھیں کوئی غریب پیدل چلتا ملتا تو اسے گاڑی میں بٹھا کرگھر پہنچاتے تھے۔
ان کی فطرت سادہ اور محنت کرنے والی تھی 20 سال کی عمر تک زرعی زمین پر ہل چلاتے رہے اور بھینیسں چراتے رہے، جانوروں کے لیے چارہ کاٹ کر گھر لاتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جب تک عورت مرد کے شانہ بشانہ کام نہیں کرگی، ملک ترقی نہیں کرے گا۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے انھوں 1982 میں سندھیانی تحریک کی بنیاد رکھی۔ 1967 میں بھی ان پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا مگر وہ بچ گئے تھے۔ انھوں نے جیل بھرو تحریک میں حصہ لیا جس کی ابتدا انھوں نے سندھ یونیورسٹی اولڈ کیمپس حیدر آباد سے کی۔
مجھے اس بات کا شدید رنج ہوتا کہ جو لوگ غریبوں کو انصاف دلواتے ہیں، جاگیردار اور سرمایہ دار اور بیوروکریٹس اس کا نام ونشان مٹانے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں مگر ایسے لوگ اس دنیا سے چلے ضرور جاتے ہیں لیکن تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے زندہ اور امر ہوتے ہیں۔