Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Bahut Shor Sunte Thay Pehlu Mein Dil Ka

Bahut Shor Sunte Thay Pehlu Mein Dil Ka

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات

تو جھکا جب غیر کے آگے، نہ تن تیرا، نہ من

تیرابالآخر اپوزیشن جماعتوں کی تحریک کا آغاز ہو گیا اور آغاز بھی ایسا کہ "بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا، جو چیرا تو ایک قطرہ خوں نہ نکلا"۔ گوجرانوالہ سے شروع ہونے والی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں "جمہوریت" اتنی ہی ناپید ہے، جتنے آج کے دور میں شریف اور بیلوث انسان۔ اپنے والدین سے وراثت میں ملی آرام دہ کرسیوں پر براجمان بلاول زرداری صاحب اور مریم صفدر صاحبہ عوام کو جمہوریت پر درس دیتے ہیں تو ہمیں قوم کی قسمت پر رشک آتا ہے۔ اور بلخصوص یہ سوچ کر مزہ دوبالا ہو جاتا ہے کہ مریم صاحبہ اپنے والد نواز شریف صاحب کی تیمارداری کے لئے ضمانت پر جیل سے رہا ہو کر سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ اور اپنے علاج کی غرض سے لندن گئے نواز شریف صاحب ہمیں وہاں اپنے علاج کے علاوہ تقریباً ہر دوسرے کام میں ذوق و شوق سے مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی عدالت سے مفرور اسحاق ڈار صاحب کے ساتھ چہل قدمی کر لی تو کبھی عدالت سے وہی رتبہ پانے والے ن لیگی کارکن ناصر بٹ کے ساتھ لندن کی تازہ ہوا کے مزے لے لئے۔ جب طبیعت جمہوری لطافت محسوس کرنے کی طرف مائل ہو تو ویڈو لنک کے ذریعے پاکستان میں بیٹھی عوام کی یاداشت کمزور سمجھتے ہوئے انہیں جمہوریت پر درس دے لیا اور اپنے سیاسی سفر کے آغاز اور ارتقا کو نکال کر دنیا میں ہونے والے تقریباً ہر غلط کام کا ذمہ دار پاکستان کی فوج کو ٹھہرا لیا۔ آج کراچی میں پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف اپنی طاقت کا مظاہرہ کرے گی۔ 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ میں اس حکومت مخالف تحریک کا پہلا جلسہ تھا، جو سیاسی مبصرین کے مطابق کچھ خاص متاثر کن نہ تھا۔ ایک طرف ن لیگی اور پیپلز پارٹی کی قیادت پنڈال میں پہنچنے کے تین گھنٹے تک فضل الرحمن صاحب کے منتظر رہے۔ کہنے والوں نے کہا کہ مولانا نے اپنی پچھلے سال کے دھرنے میں اور حالیہ APC میں اپنی تقریر ٹیلی ویژن پر نہ چل پانے کی وجہ سے ہونے والی تذلیل کا حساب چکتا کر لیا ہے۔ افسوس ناک بات یہ کہ نہ مریم نواز نے قافلے سمیت ٹول ٹیکس ادا کیا، نہ ہی فضل الرحمن صاحب نے۔ چاول کا ایک دانہ چکھ کر پوری دیگ کا ذائقہ محسوس کر لینے کے مترادف ان "بظاہر" چھوٹی چھوٹی قانون شکنیوں سے مجموعی طور پر انسان کے کردار کا پتا چلتا ہے کہ وہ قانون کی بالا دستی پر کس حد تک یقین رکھتے ہیں۔ موٹروے پر ٹول ٹیکس ادا نہ کرنے سے لے کر سابق نااہل وزیر اعظم پاکستان، نواز شریف صاحب کی تقریر تک، ہر چیز پاکستان کے قانون اور آئین کی دھجیاں اڑاتی چلی گئی۔ کل تک ایک دوسرے کے پیٹ پھاڑ کر پیسے نکالنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے کرنے والے، ایک دوسرے پر کرپشن اور بدعنوانی کے مقدمے بنانے والے آج ایک دوسرے کی پارسائی کے وکیل ٹھہرے۔ واہ رے جمہوریت کے لبادے میں چھپی اخلاقیات سے عاری سیاست۔ تیرے کیا کہنے!

اگرچہ جلسے، جلوس، ریلیاں، دھرنے، پاکستان کے لئے نئی بات نہیں۔ ہم نے 2014ء میں عمران خان کا دھرنا بھی دیکھا اور آج ان بارہ اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ جلسوں کا حال بھی۔ عمران خان کا دھرنا الیکشن دھاندلی کے خلاف تمام تر قانونی دروازے کھٹکھٹانے کے بعد کہیں سے بھی دادرسی نہ ہو پانے پر دیا گیا، جس پر ہم نے پولیس کے ذریعے عمران خان کے کارکنان کی پکڑ دھکڑ، سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ، پرویز خٹک کے قافلے اور آزادی مارچ کے شرکا پر آنسو گیس اور شیلنگ کے حملے دیکھے۔ میڈیا کی گاڑیاں توڑ پھوڑ کا شکار ہوئیں، میڈیا کے نمائندے رپورٹنگ کے دوران زخمی ہوئے۔

لیکن اس بار ایسا کچھ نہ ہوا۔ عمران خان نے اپوزیشن کو مکمل آزادی دی کہ وہ کھل کر اپنی منشا کے مطابق اپنی طاقت کا مظاہرہ کرے۔ آج کراچی میں پیپلز پارٹی کا پاور شو دیکھ کر اندازہ ہو گا کہ پی ڈی ایم اس تحریک میں کس حد تک سنجیدہ ہے، کیونکہ یہ بات تو طے ہے کہ نہ یہ ن لیگ کی طرح ریاستمخالف بیانیہ رکھتے ہیں، نہ یہ اگلے الیکشن سے پہلے استعفے دینے کی حماقت کریں گے۔ زرداری سیاست کا بادشاہ ہے اور بغیر سوچی سمجھی چال کھیلنے کا عادی آصف زرداری نہیں۔ البتہ وزیراعظم عمران خان، جنہوں نے اکیلے ہی 2014ء میں عوام کا وہ سمندر نکال لیا تھا، جو یہ بارہ جماعتیں مل کر بھی نہ نکال سکیں، آج بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ عوام لاکھ احتساب کے قائل سہی لیکن اشیا ئے خوردونوش کی روز بروز بڑھتی ہوئی قیمتوں سے ازحد پریشان ہیں۔ احتساب عوام کا پیٹ نہیں بھر سکتا، خاص طور پر تب جب دو سال میں پیسہ وصولی ٹکے کی نہ ہو پائی ہو۔

پرسوں گوجرانوالہ میں نکلنے والی عوام کو حکومت لاکھ بریانی کا شوقین کہے، لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اپوزیشن کے جلسے میں آنے والے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو بزدار کو وسیم اکرم پلس ماننے کے بجائے مہنگائی کی شرح میں کمی کا تقاضا کرتے ہیں، جن کو دو وقت کی روٹی عزت آبرو کے ساتھ چاہئے، جنہوں نے عمران خان کو "تبدیلی" کی خواہش رکھتے ہوئے ووٹ دیا تھا، نہ کہ یہ سننے کے لئے کہ بیوروکریسی کام نہیں کر رہی یا یہ کہ گزشتہ حکمرانوں میں کتنے عیب تھے۔ ان کے عیبوں سے عوام آشنا تھی، جب ہی عمران خان کو ووٹ دیا گیا۔ اب وقت ہے کہ عمران خان جلد از جلد اپنے اصل حریف "مہنگائی" سے نمٹیں، اس سے پہلے کہ وہ ان کی حکومت کو نگل کر عوام کو پھر اسی شیر کے پنجرے میں لا پھینکے، جس سے نکلنے کی پاکستان نے 2018ء کے عام انتخابات میں سرتوڑ کوشش کی تھی۔ پاکستان زندہ باد!