کہتے ہیں "سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا"۔ سچ کہتے ہیں۔ رواں ہفتے سابق نااہل وزیر اعظم پاکستان، جناب نواز شریف صاحب کی والدہ کے انتقال پر جو سیاست کے بدصورت زاویے دیکھنے کو ملے، دیکھنے والے شرمندہ ہو گئے، ان زاویوں سے لاش پر سیاست کرنے والے شرمندہ نہ ہوئے۔ پشاور جلسے سے نکلتے ہی مریم نواز صاحبہ کا یہ کہنا کہ" حکومت میں ذرا انسانیت نہیں کہ مجھے دادی کی وفات کی اطلاع دے دیتی"، قوم کو حیرت میں مبتلا کر گیا کہ سابق جج ارشد ملک کی نازیبا ویڈیو سے لے کر مخالفین کی کمزوریوں سے ہر لمحہ باخبر رہنے والی خاتون اپنی دادی کے انتقال کی اطلاع کی ذمہ داری حکومت کے سر کیونکر منڈھ رہی ہیں؟ یہ شکوہ تب بجا ہوتا اگر موصوفہ جیل میں ہوتیں اور ان کے پاس اور کوئی ذریعہ اطلاع نہ ہوتا۔ جبکہ ان کے قریبی ذرائع کا کہنا تھا کہ جس وقت نواز شریف کی والدہ بیگم شمیم اختر کا لندن میں انتقال ہوا، اس وقت پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر بارہ بجے پاکستان میں خاندان بھر کو اطلاع پہنچا دی گئی تھی۔
یہ کہنے کو شریف خاندان کی انتہائی ذاتی نوعیت کی چھوٹی سی بات ہے لیکن چاول کا ایک دانہ چکھ کر پوری دیگ کا پتا دینے کے مترادف اس ایک بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری سیاست کتنی سفاک ہے کہ جہاں شہید محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کی کردار کشی کی انتہا کرنے والے نواز شریف صاحب اور انکا خاندان جو ماڈل ٹاؤن سانحے پر مذمت کا ایک لفظ نہ بولا، جہاں بے قصور نہتیخواتین کو چہرے پر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا (جس کے خلاف اپوزیشن میں رہ کر تڑپنے والی تحریک انصاف حکومت میں آ کر پورے دو سال میں کوئی کاروائی نہ کر سکی)، کس شان بے نیازی سے خاندان میں کسی کی رحلت کا واقعہ ہو یا کرپشن پر قانونی اداروں کی جانب سے پوچھ گچھ کی جائے، "خاتون کارڈ" کا استعمال کر کے ہمدردیاں بٹورنے سے نہیں چوکتے۔ اگرچہ عام قیدیوں کو عمومی طور پر محض والدین کا جنازہ پڑھنے کے لئے قلیل دورانیے کیلئے پیرول پر رہائی میسر آتی ہے لیکن شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو پانچ دن کی رخصت دی گئی ہے، جو کہ ایک اچھا اقدام ہے۔ وفاقی وزیر برائے ریلوے، شیخ رشید اکثر یہ دل خراش شکوہ دہراتے ہیں کہ ان کو ان کی والدہ کا جنازہ پڑھنے کے لئے جیل سے وقتی طور پر رخصت نہیں دی گئی تھی۔
یہ خوش آئند بات ہے کہ حکومت کو اس بات کا ادراک ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کا حصول ہر شخص کا حق ہے۔ لیکن حیرت ن لیگ، یا یوں کہیے کہ شریف خاندان کے موجودہ رویے پر ہے (کیونکہ بہت سے ن لیگی پارلیمانی رہنما اس طرز سیاست سے ہرچند اتفاق نہیں کرتے)، جس میں کبھی مریم نواز صاحبہ جیل میں چوہوں کا بچا ہوا کھانا کھلائے جانے کا الزام حکومت کے سر دھرتی ہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں باوجود اس کے کہ بلاول بھٹو زرداری خود بھی کورونا کا شکار ہو چکے ہیں اور اب قرنطینہ میں ہیں، بضد ہیں کہ جلسے ہوں گے اور ہو کر رہیں گے۔ نیز یہ شکوہ بھی تواتر سے کیا جا رہا ہے کہ اگر حکومت بازار، فیکٹریاں اور کاروبار بند نہیں کر رہی تو ہم کیونکر اپنے جلسے موقوف کریں؟ اس پر سیاسی مبصرین نے اپوزیشن قیادت کے خوب لتے لیے کہ چوہوں کی خوراک کھلائے جانے کے بے سر و پا الزامات اور ملک کی معیشت کے لئے ناگزیر معمولات زندگی سے جلسوں کو ملانے سے لوگ ان کے جائز مطالبات کو بھی ہوا میں اڑا دیں گے۔
حکومت کی دو حوالوں سے بھرپور سرزنش کی جا رہی ہے۔ ایک تو یہ کہ اسکول بند کرنے میں تاخیر کیوں کی؟ جب صاف صاف دکھائی دے رہا تھا کہ معاملہ بگڑ رہا ہے، تو کیا ضرورت تھی سکولوں کی بندش کے فیصلے میں اتنی تاخیر کرنے کی۔ اور دوسرا یہ کہ گلگت بلتستان میں اگر اپوزیشن جلسے پر جلسہ کر رہی تھی، تو حکومت بھی پیچھے نہیں تھی۔ حکومت کی ذمہ داری ہمیشہ زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں حکومت کوبڑا پن دکھانا چاہیے تھا اور مقابلے پر اتر کر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اب دیکھتے ہیں آنے والے دن پاکستان کو کیا رنگ دکھاتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس خواہش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ حکومت ان کے ساتھ بیٹھ کر جلسے روکنے پر بات کرے جبکہ وزیراعظم عمران خان کا اس حوالے سے دوٹوک موقف ہے کہ انتخابی اصلاحات پر اپوزیشن کے ساتھ آج ہی بات ہو سکتی ہے لیکن جلسے رکوانے کے لئے میں کسی بلیک میلنگ میں نہ آؤں گا۔
اگر اپوزیشن جماعتیں ازخود عوامی مفاد میں اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کر کے جلسوں کا سلسلہ دو ماہ کے لئے موقوف کر دیں تو جو فائدہ یہ عوامی اعتماد کے حوالے سے جلسے کر کے حاصل کرنا چاہ رہی ہیں، وہ ان کو ویسے ہی حاصل ہو جائے گا۔ لیکن شاید یہ بات ان کو بتانے والا کوئی نہیں۔ کوئی نہیں جو ان کو یہ بتائے کہ چوہوں کا بچا ہوا کھانا کھلائے جانے جیسے مضحکہ خیز قسم کے الزامات کی بجائے اصل عوامی مسائل پر بات کریں۔ میڈیکل اینٹری ٹیسٹ اور دیگر امتحانات کو ان حالات میں آن لائن طریقے سے منعقد کروانے پر بات ہونی چاہئے۔ اب بے تکی تنقید برائے تنقید کا دور نہیں۔ اب عوامی مسائل کے حل کی بات کرنے والے کو ہی عوامی اعتماد حاصل ہو گا، خواہ وہ حکومت ہو یا اپوزیشن۔ اس ملک کے عوام نے 73 سال مسائل کی گردان بہت سن لی۔ اب مسائل کے حل کی بات کرنے کا وقت ہے اور اسی میں ملک کی بقا بھی ہے۔