معاف کیجئے گا زبان پھسل گئی تھی۔ کیا کیجئے صاحب، آج کل کا دور ہی ایسا ہے کہ یہ کمبخت زبان بے لگام گھوڑے کی مانند ذاتی مفادات اور قومی مفاد کی جنگ میں بار بار بے قابو ہو کر اپنے ہی نشیمن پر بجلیاں گرانے کے درپے ہے۔ خود کو سرزنش کرنے کا سوچا تو دل نے دلاسہ دیا کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔ آج کل زبان پھسلنا ہر دوسرے بندے کا سیاسی مشغلہ ٹھہرا۔
گزشتہ ہفتے اویس نورانی کے بلوچستان کو الگ ریاست بنانے کے بھارت پسند مطالبے اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی، سردار ایاز صادق کے پلوامہ کے بعد پاکستان کی بھارت کو ناکوں چنے چبوا کر دی گئی شکست کو متنازعہ بنانے پر پاکستانی عوام نے دونوں کو خوب آڑے ہاتھوں لیا، اس حد تک کہ دونوں نے مجبوراً اسے زبان کا پھسلنا قرار دے کر راہِ فرار اختیار کی۔
نادان یہ نہیں جانتے کہ راہِ فرار اختیار کرنا اتنا آسان نہیں۔ کچھ غلطیوں کی معافی نہیں ہوتی، مداوا ہوتا ہے۔ انسان خود سے کی جانے والی زیادتیاں معاف کر سکتا ہے، کر دیتا ہے۔ لیکن ریاست ماں ہوتی ہے اور ریاست پر کیے گئے حملے ناقابل فراموش اور ناقابل معافی ہوتے ہیں۔
سابق وزیراعظم نوازشریف اپنی انا اور طاقت کے ناجائز استعمال سے حاصل شدہ سرمائے کے تحفظ کی جنگ میں اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ اب واپسی کا کوئی راستہ تاحد نگاہ دکھائی نہیں دیتا۔ 2016ء میں اگر مطلوبہ رسید عدالت کو تھما دی ہوتی یا قانون کے آگے سرنگوں کر دیا ہوتا اور باوقار انداز میں اپنی غلطی تسلیم کر لی ہوتی تو آج کچھ اور ہوتا نہ ہوتا، عزت آبرو سلامت ہوتی:
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
نوازشریف صاحب نے پے در پے قانونی غلطیاں کیں۔ جعلی قطری خطوط، جعلی کیلبری فونٹ اور تمام اہل خانہ کے متضاد بیانات میاں صاحب کو لے ڈوبے۔ اس سب کے باوجود ان کا حوصلہ دیدنی تھا۔ دلیر بن کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا پہنچے اور کچھ عرصے کے لئے عوام کو محسوس ہوا کہ میاں صاحب قانون کی بالادستی پر ایمان لے ہی آئے۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد پلیٹ لیٹس کی کمی اور دیگر طبی مسائل کو بنیاد بنا کر جناب لندن جا پہنچے اور وہاں جا کر پچھلے گیارہ ماہ سے ہم نے ان کو ہسپتال کے علاوہ تقریباً ہر جگہ دیکھا۔ اور نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت بیوقوف بنائے جانے کی سبکی کے احساس میں شرابور میاں صاحب کی واپسی کے حوالے سے پرجوش بیانات دینے پر مجبور ہو گئی۔
نواز شریف سمجھ رہے تھے کہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کی حمایت میں ووٹ دینے سے فوج ان کی مشکور ہو کر ان کے کرپشن کیسز ختم کرنے میں معاونت کرے گی۔ اسی اثنا میں انہوں نے محمد زبیر کو اگست کے آخری ہفتے اور 7 ستمبر کو آرمی چیف کے پاس رعایت کی درخواست دے کر بھیجا، جس پر انہیں کورا جواب ملا کہ آپ جانیں اور عدالت جانے۔ نہ ہم نے یہ کیسز بنائے، نہ ہم ان کو ختم کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔
وہ لمحہ تھا جب میاں صاحب کے اندر کا بدلہ لینے والا ناگ زندہ ہو گیا اور ہم نے ان کی طرف سے پے در پے پاکستانی ریاست پر عجیب و غریب حملوں کی بوچھاڑ دیکھی۔ مجھے ذاتی طور پر نواز شریف صاحب کا اصولی موقف بہت دلچسپ معلوم ہوتا ہے کہ فوج بری ہے لیکن جنرل جیلانی اور جنرل ضیاالحق جو ان کی سیاسی پیدائش کا باعث بنے، وہ فرشتے تھے۔ فوجی جرنیلوں پر حملے لیکن فوجی جوانوں کو مصنوعی پچکار۔
یہ اصول انگریز کا ازل سے رہا ہے کہ "تقسیم کر کے راج کرو"۔ میاں صاحب نے بھی یہی کرنا چاہا لیکن عوام نے یہ دال گلنے نہ دی۔ اس کے بعد ان کی پارٹی کے لوگوں کی یک بعد دیگرے زبان پھسلنا شروع ہوئی اور عوام نے ایک بار پھر منہ توڑ جواب دیا۔
یہاں ایک بہت اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کا وزیر دفاع کہاں ہے؟ جس وزارت کا بنیادی فریضہ ہی یہ ہے کہ اس نے ریاست کے تحفظ میں کوئی دقیقہ فروگزاشت رکھے بغیر ریاست کے دفاعی ڈھانچے کی طرف بڑھنے والے ہر تیر کو خود اپنے سینے پر کھانا ہے، وہ دور دور تک کہیں نہیں دکھ رہی۔ وزیراعظم عمران خان کو اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ہے۔ اگر موجودہ وزیر اس حساس صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہیں، تو یہ قلمدان کسی ایسے شخص کو تھمایا جائے جو عوام کے جذبات کی عملی ترجمانی کر کے دکھائے۔ تبدیلی صرف نعروں اور بیانات سے نہیں، عملی اقدامات سے آتی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات، شبلی فراز کا یہ بیان کہ "ایاز صادق کا بیان معافی سے آگے نکل چکا ہے، اب قانونی راستہ اختیار کیا جائے گا" خوش آئند ہے لیکن اس پر عمل ہو تو مانیں۔ خرم دستگیر صاحب نے بھی ایک حالیہ ٹی وی پروگرام میں فرمایا کہ اب ایاز صادق والے معاملے پر زیادہ بحث نہ کیجئے۔ اس معاملے کی تہہ تک زیادہ نہ جائیے ورنہ ہم اس سے زیادہ بھیانک انکشافات کریں گے۔
اس پر عوامی ردعمل یہ ہے کہ ایک بار جو کرنا چاہتے ہیں یہ دانشور، کر گزریں۔ ریاستی قومی سلامتی کے اداروں کو روز روز کی یہ بیجا دھمکیاں سن سن کر عوام کے کان بھی پک چکے صاحب۔ اب جو کرنا ہے وہ کر گزریے۔ آخر ہم بھی تو دیکھیں کہ قومی رازوں کی حفاظت کے بارہا کیے گئے عہد کو توڑ کر آپ کتنا گریں گے۔ کہاں وہ ہیرے جواہرات سے زیادہ قیمتی فوج کے ستارے، جن کی دشمن نے زبان کاٹ دی مگر وہ آخری دم تک وطن کے قیمتی دفاعی راز اپنے سینے میں محفوظ رکھے شان سے جیے، جب تک جیے۔ کہاں نوازشریف صاحب اور ان کے اشارے پر چل کر وطن پر جھوٹی تہمت لگا کر دشمن کو بن مانگے تحفے دے کر پوری دنیا میں رسوائی کمانے کے درپے نگینے۔
اب سیاست دانوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے، بھلے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو کہ ان کو کیا زیادہ عزیز ہے، قومی غیرت؟ یا چند مفاد پرستوں کا ذاتی مفاد، جنہوں نے اپنی قومی غیرت کو بہت سستے میں بیچ دیا؟ زبان پھسلنے کا یہ کھیل بہت مکروہ ہے اور عوام اب اس کھیل کو زیادہ دیر برداشت نہیں کریں گے۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں، انشااللہ۔
ہم تو مٹ جائیں گے اے ارضِ وطن لیکن
تم کو زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک
پاکستان زندہ باد!