وزیرِ اعظم عمران خان کا کرونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے، انہوں نے خود کو گھر میں قرنطینہ کر لیا ہے، وزیرِ اعظم کو دو روز قبل ہی کرونا وائرس سے بچا ؤکی ویکسین لگائی گئی تھی، ویکسین لگنے کے کچھ ہفتے بعد قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے، وزیرِ اعظم میں وباءکی معمولی علامات ظاہر ہوئی ہیں، وہ گھر سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سرکاری امور انجام دیں، ہر فرد کو کچھ ہفتوں کے وقفے سے ویکسین کی دو خوراکیں دی جاتی ہیں اور عمران خان کو صرف ایک خوراک دی گئی تھی، پاکستان سمیت اس وقت دنیا بھر میں ویکسین لگانے کی مہم جاری ہے لیکن اس دوران چند ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو ویکسین کی افادیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے یہ نہیں لگوانا چاہ رہے، ایسے میں عمران خان کا حال ہی میں کووڈ ویکسین لگوانے کے بعد اس مرض میں مبتلا ہوجانا لوگوں کے شکوک و شبہات میں مزید اضافہ کر رہا ہے، اینٹی باڈیز ویکسین کا دوسرا ٹیکا لگنے کے دو سے تین ہفتوں کے بعد بننا شروع ہوتی ہیں، پاکستان میں اس وقت چین کی طرف سے عطیہ میں ملنے والی سائنو فارم ویکسین 60 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کو لگائی جا رہی ہے، ایک خوراک کے بعد 21 دن بعد دوبارہ یہ ویکسین لگوانا ہوتی ہے، ماہرین کا کہنا ہے ویکسین کے بعد بھی انفیکشن ہو سکتا ہے مگر یہ انفیکشن معمولی نوعیت کا ہوتا ہے، احتیاط سے معمولی خطرے سے بچاؤ ممکن ہے، وزیر اعظم عمران کو دوبارہ ویکسین ان کی صحت یابی کے بعد ہی لگائی جا سکے گی، ماہرین کا کہنا ہے اینٹی باڈیز کا اثر دو سے تین ہفتے بعد ہوتا ہے اس لیے چینی ویکسین سائنوفارم ڈبل ڈوز ویکسین ہے اور اس ویکسین کی افادیت 80 سے 90 فیصد ہے۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اس وائرس سے کیسے متاثر ہوئے ہیں تاہم وزیر اعظم حالیہ چند دنوں میں عوامی اجتماعات اور اجلاسوں میں بھی شریک ہوتے رہے ہیں، اس دوران وزیر اعظم بیرونِ ملک سے آئے مہمانوں سے بھی ملاقات کرتے رہے اور انہوں نے چند دن قبل خیبر پختونخوا میں ترقیاتی منصوبوں کا دورہ بھی کیا تھا، دنیا بھر میں کرونا سے تباہی خوفناک حدوں کو چھو رہی ہے، امریکہ میں ہلاکتیں 5لاکھ41ہزار سے تجاوز کر گئی ہیں، برازیل میں دو لاکھ 90ہزار، بھارت میں ایک لاکھ 59ہزار، روس میں 92ہزار ہلاکتیں ہو چکی ہیں اس کے مقابلے میں پاکستان میں حکومتی اور عوامی احتیاط کے باعث معاملہ تشویشناک نہیں، کرونا کی وبا کے ابتدائی دنوں میں خدشہ تھا پاکستان میں یورپ اور امریکہ کی طرح بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوں گی مگر ایسا نہیں ہوا، ماہرین کے مطابق ان ملکوں میں کرونا سے ہونے والی اموات دس گنا زیادہ ہیں جہاں آدھی سے زیادہ آبادی موٹاپے کا شکار ہے، یہ انکشاف کووڈ 19 اور موٹاپا 2021 اٹلس نامی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موٹاپا کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد ہسپتال میں داخل ہونے، آئی سی یو کی ضرورت اور وینٹی لینٹر پر جانے کی بڑی وجہ ہے، اس کے علاوہ کرونا سے ہونے والی اموات کا بھی موٹاپے سے تعلق ہے، جن ملکوں میں 40 فیصد سے کم لوگ موٹے ہیں، ان میں کرونا سے وابستہ اموات کی شرح کم ہے، جب کہ امریکہ، برطانیہ اور اٹلی جیسے ملکوں میں، جہاں 50 فیصد سے زیادہ آبادی فربہی کا شکار ہے، وہاں کرونا سے بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں، ویت نام میں موٹاپے کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے، اور وہاں کرونا سے ہونے والی اموات کی تعداد بھی کم ترین ملکوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے، ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں موٹاپے کی شرح صرف 25 فیصد ہے، ممکنہ طور پر یہی وجہ ہو سکتی کہ پاکستان میں کرونا سے ہونے والی اموات کی شرح مغربی ملکوں سے اتنی کم ہے، اس کی ایک اور وجہ ٹی بی یا پولیو کی ویکسین، حفظانِ صحت کی کمی، گرم آب و ہوا، مختلف جین، وغیرہ کو قرار دیا گیا تھا، مگر آج تک اس سلسلے میں کوئی مصدقہ تحقیق نہیں ہوئی تھی جس سے اس معاملے پر روشنی پڑ سکتی ہو، ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ اور بیلجیئم میں کرونا سے ہونے والی اموات بالترتیب 1930 فی دس لاکھ، 1848 فی دس لاکھ، امریکہ میں 1572 فی دس لاکھ، اٹلی میں 1635 فی دس لاکھ ہیں، اس کے مقابلے پر پاکستان میں کرونا سے ہونے والی اموات کی شرح صرف 60 فی دس لاکھ ہے، اگر پاکستان میں بھی برطانیہ کی شرح سے اموات ہوتیں تو اس وقت یہاں 13 ہزار کی بجائے چار لاکھ سے زیادہ اموات ہوتیں، رپورٹ کے مطابق جن لوگوں کا باڈی ماس انڈیکس 30 سے اوپر ہے، ان میں کرونا کے باعث ہسپتال میں داخلے کا امکان ان لوگوں کے مقابلے پر دو گنا کم ہوتا ہے جن کا باڈی ماس انڈیکس 30 سے کم ہے، باڈی ماس انڈیکس موٹاپے کی شرح کو قد کے لحاظ سے ناپتا ہے۔
برطانیہ میں کروناوائرس کی دریافت ہونے والی نئی عالمی طور پر پھیلنے والی قسم سے 64 فی صد زیادہ مہلک ہے، اس بات کی تصدیق ایک تازہ ترین تحقیقی رپورٹ میں کی گئی ہے، کرونا وائرس کی یہ قسم ان متعدد اقسام میں سے ایک ہے جو عالمی وباءکے دوران اب تک سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سامنے آئی ہیں، برٹش میڈیکل جرنل میں چھپنے والی یونیورسٹی آف ایکسیٹر کی تحقیق کے دوران 5 5 ہزار متاثرہ افراد کے ڈیٹا کا موازنہ کیا گیا، یہ ڈیٹا ہسپتالوں کی بجائے کمیونٹی میں سے شدید متاثرہ افراد کی معلومات پر ترتیب دیا گیا، تحقیق نے ظاہر کیا کہ نئی قسم کا وائرس جس کا نام ون ون سیون ہے لوگوں کی 64 فی صد سے زیادہ موت کا موجب ثابت ہو سکتا ہے، دوسری اقسام کے مقابلے میں اس سے متاثرہ افراد میں ہر ایک ہزار میں سے 2.5 کے مقابلے میں 4.1 فی صد کے تناسب سے اموات زیادہ ہو سکتی ہیں، اس صورت حال میں یہ بات سب پر عیاں ہے کہ ویکسین لگوانا کتنا ضروری ہے، ایک ماہر کا کہنا ہے کووڈ 19 جتنا زیادہ ہو گا اتنا ہی اس کی نئی اقسام کے بننے کا خطرہ رہے گا، ان کے بقول حتی کہ کچھ اقسام ویکسینیشن پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہیں، جنوبی افریقہ میں پائی گئی وائرس کی قسم نے اس تشویش کو جنم دیا ہے کہ کچھ قسمیں انسانی جسم کے مدافتی نظام سے بچ نکلنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔
پہلے مرحلے میں صحت کے عملے کو ویکسین دی گئی، دوسرے مرحلے میں ساٹھ سال یا اس سے بڑی عمر کے افراد کو یہ ویکسین لگائی جارہی ہے، ویکسین کی فراہمی کے قومی ادارے کے حکام کا کہنا ہے کہ 60 سال اور اس سے بڑی عمر کے افراد کا ڈیٹا شہریوں کی رجسٹریشن کے قومی ادارے نادرا سے حاصل کر لیا گیا ہے، تیسرے مرحلے میں اٹھارہ سال اور اس سے بڑی عمر کے افراد کو ویکسین فراہم کی جائے گی، حکام نے فیصلہ کیا ہے کہ 18 سال سے کم عمر افراد کو ویکسین نہیں لگائی جائے گی، کرونا ویکسین کی رجسٹریشن اور اس کے انتظام کی نگرانی کے لیے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹرکی جانب سے آن لائن پورٹل نیشنل ایمونیزیشن مینجمنٹ سسٹم بنایا گیا ہے، اب یہ شہریوں کا فرض ہے کہ وہ خود کو بچانے کیلئے آگے بڑھیں اور ویکسین لگوانے کیلئے رجسٹریشن کرائیں۔