پوری دنیا میں ابھی تک کورونا کی وجہ سے خوف کی فضا ہے مگر پاکستانیوں کو اسکی پروا ہے نہ ہماری حکومت کو اس کی فکر ہے۔ کراچی میں پچھلے دنوں کورونا وائرس کے کچھ نمونوں میں اسپائیک پروٹین سے متعلق تبدیلیاں پائی گئی ہیں، پاکستان میں دریافت ہونے والی تبدیلیاں ان جینزسے مختلف ہیں جو برطانیہ میں پائی گئی ہیں لیکن ان دونوں میں مطابقت پائی جاتی ہے، دونوں جینز سپائیک پروٹین پر اثر انداز ہوتی ہیں، لیکن ان کی مکمل شناخت فی الحال ممکن نہیں ہے، ان جینز میں میوٹیشن سپائیک پروٹین پر اثرانداز ہوتی ہے۔ برطانیہ میں پائے جانے والے نئے کورونا وائرس کے حوالے سے ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں وائرس نئی شکلوں میں آتے رہتے ہیں، وائرس میں ہر سائیکل کے بعد تبدیلی آنا ایک قدرتی عمل ہے، پاکستان میں صورت حال پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے اور برطانیہ سے آنے والے تمام مسافروں کی معلومات بھی اکٹھی کی جا رہی ہیں۔
پاکستان میں حکام نے تصدیق کی ہے کہ برطانیہ سے کراچی پہنچنے والے مسافروں میں سے تین افراد میں کرونا وائرس کی نئی قسم کی تصدیق ہوئی جبکہ محکمہ صحت سندھ کے مطابق برطانیہ سے آنے والے چھ افراد کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے، برطانیہ میں کرونا وائرس کی نئی نسل سامنے آنے کے بعد دنیا بھر میں تشویش کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے اور لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا اس پر ویکسین کام کرے گی؟ برطانیہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کرونا وائرس کی یہ نئی قسم 70 فیصد زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے، یہ نئی قسم کیا ہے اور ہمیں اس سے کتنا ڈرنے کی ضرورت ہے؟ وائرس کی نئی شکل کیسے پیدا ہوتی ہے؟ سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ وائرس بیماری کیسے پھیلاتا ہے، پھر ہم دیکھیں گے کہ اس کی نئی شکل کیسے وجود میں آتی ہے، کورونا وائرس کی ساخت کیا ہے۔
یہ وائرس جسم کے کسی خلئے میں داخل ہوتا ہے تو پروٹین کا چھلکا باہر رہ جاتا ہے اور مغز یعنی جینیاتی ہدایات خلئے کے اندر داخل ہو کر خلئے کی مشینری پر قابض ہو جاتی ہیں، بالکل ایسے جیسے کوئی ہائی جیکر جہاز کو اغوا کر کے اسے اپنی مرضی کی منزل تک لے جاتا ہے، ویسے ہی وائرس کی جینیاتی ہدایات انسان کی جینیاتی مشینری کو ہائی جیک کر کے اس سے اپنی کاپیاں تیار کرانے لگتی ہیں اور یوں ایک وائرس سے ہزاروں وائرس وجود میں آ جاتے ہیں، یہ وائرس پہلے تو اسی خلئے کو تباہ کرتے ہیں، پھر باہر نکل کر دوسرے خلیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور یہ عمل نئے سرے سے شروع ہو جاتا ہے، اسی سے کووڈ 19 کی بیماری پیدا ہوتی ہے، جس سے اب تک دنیا میں 17 لاکھ کے قریب لوگ ہلاک اور ساڑھے سات کروڑ سے زیادہ بیمار ہو چکے ہیں۔
کورونا وائرس کی نئی شکل پرگزشتہ برس ووہان میں سر اٹھانے کے بعد سے اب تک SARS COV-2 نامی اس وائرس میں مسلسل تبدیلیاں آ رہی ہیں، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت دنیا میں کہیں بھی یہ وائرس اس شکل میں موجود نہیں ہے جیسا ووہان میں گزشتہ دسمبر میں دیکھا گیا تھا تو غلط نہیں ہو گا کیوں کہ ہر جگہ اس وائرس میں تبدیلیاں آئی ہیں، کچھ تبدیلیاں ایسی بھی ہیں جن کا اس وائرس کو فائدہ ہوا، برطانیہ کے چیف سائنسی افسر سر پیٹرک ویلس کے مطابق نئی نسل میں 23 جگہوں پر جینیاتی تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں، جن کی وجہ سے اس کی ایک انسان سے دوسرے میں پھیلنے کی صلاحیت 70 فیصد بڑھ گئی، یہ تبدیلیاں وائرس کے جینیاتی مواد میں نہیں بلکہ اس کے چھلکے والی پروٹین میں رونما ہوئی ہیں، تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس نئی نسل سے بیماری کی شدت یا شرحِ اموات میں اضافہ نہیں ہوتا۔
چھ ممالک میں ویکسین دئیے جانے کا عمل شروع ہو گیا ہے لیکن ابھی تک یہ نہیں معلوم کہ پاکستان جیسے ممالک میں یہ ویکسین کب پہنچے گی، کووڈ 19 کے خلاف سب سے پہلے ویکسین لگائے جانے والے لوگوں کی تصاویر نے پوری دنیا میں ہر ایک کو خوشی دی ہے، زمبابوے، میکسیکو اور پاکستان جیسے کچھ ممالک کے لیے ویکسین کے حصول کی جنگ طویل اور اذیت ناک ہو سکتی ہے، 1990ءکی دہائی کے آخر میں روزانہ ہزاروں افراد ایڈز سے مررہے تھے، ان اموات کو روکنے کے لیے دوائی دستیاب تھی، لیکن صرف ان لوگوں کے لیے جو اسے خریدنے کی استطاعت رکھتے تھے، جب مراعات یافتہ افراد یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اب غریب لوگوں کو بچانے کا وقت آگیا ہے، تب ہی ہمیں یہ ویکسین ملتی ہے، دولت مند ممالک، خاص طور پر امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین کے ممالک اور کینیڈا ویکسین کا ذخیرہ جمع کر رہے ہیں، کچھ ممالک نے اپنی آبادی کی ضرورت سے زیادہ مقدار حاصل کرلی ہے، کینیڈا نے ویکسین کی اتنی خوراکیں حاصل کر لی ہیں کہ ان کی پوری آبادی کو پانچ بار ویکسین لگائی جا سکتی ہے۔
اب تک 189 ممالک ویکس اِنیشی ایٹو پر دستخط کر چکے ہیں، ان ممالک نے صحت کے عالمی ادارے اور بین الاقوامی سطح پر ویکسین کی سپلائی کی حمایت کی ہے، اس کوشش کا مقصد دنیا بھر کو ایک عالمی بلاک کی صورت میں متحد کرنا ہے تا کہ دوا ساز کمپنیوں سے سودے طے کرنا آسان ہوں، ان ممالک میں سے 92 ایسے ہیں جو سارے کے سارے یا تو بہت کم آمدن یا کم آمدن والے ممالک ہیں، ان کے لیے ویکسین کی قیمت عطیات دینے والے ممالک ادا کریں گے، برطانیہ نے اس مقصد کے لیے بنائے جانے والے فنڈ میں پچاس کروڑ ڈالرز دینے کا اعلان کیا ہے، روس اور امریکہ ان چند ممالک میں شامل ہیں جو اس میں کوئی عطیہ نہیں دے رہے ہیں۔
اب تک، کوویکس نے کامیاب نتائج دینے والی تین ویکسینز حاصل کر لی ہیں، لیکن تا حال ویکسین کا یہ سودا دنیا کی صرف 20 فیصد آبادی کو فائدہ پہنچا سکے گا، میکسیکو اس سکیم کا ایک بڑا حامی ہے اور وہ ویکیسنز اسی کے ذریعے خریدے گا، لیکن میکیسکو کے لیے ویکیسن کا سودا طے کرنے والی اعلی عہدیدار مارتھا ڈلگاڈو جانتی ہیں 20 فیصد آبادی کے لیے ویکسین کے حصول سے کووِڈ19 وائرس سے متاثرہ افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کو روکا نہیں جا سکے گا۔
پاکستان کی بڑی بڑی ہیلتھ یونیورسٹیوں نے چینی کمپنی کان سینو بائیو کی ویکسین کے آزمائشی انجیکشن میں کافی مدد کی ہے، گو لوگوں کو اس کے متعلق درست آگاہی نہیں دی گئی مگر دوسری طرف اس کی وجہ سے پاکستان کو یہ ویکسین حاصل کرنے میں بھی کافی مدد ملے گی اور پھر اسکے حصول میں صرف رقم ہی اہم نہیں رہے گی۔ پاکستان نے ابتداءمیں ویکسین خریداری کیلئے 15لاکھ ڈالر مختص کئے اور اس کیلئے عالمی اداروں سے قرض اور امداد کیلئے رجوع کیا، ایشیائی ترقیاتی بینک اور چین نے حامی بھی بھر لی جس کے بعد50لاکھ ڈالر مختص کئے گئے مگر بیماری کے پھیلاؤ کے تناسب سے اس رقم میں اضافے کی بھی ضرورت ہے اور اسکے متعلق موثر آگہی بھی ضروری ہے۔