ملک کا موسم اور سیاسی درجہ حرارت دونوں کم ہونے کا نام نہیں لے رہے، حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے، اگر یہ لڑائی اسی طرح چلتی رہی تو اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا، اس سے پہلے کہ ایک کی چونچ اور ایک کی دم ہوجائے گم، سب کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔ اپوزیشن اکثر ایسے حالات میں فائدے میں رہتی ہے اس لئے حکمرانوں کو اپنی حکومت کا عرصہ پورا کرنے کے لئے اپوزیشن کو بند گلی میں دھکیلنے کی بجائے راستے کھولنے چاہیے۔ نواز شریف اور مریم نواز کا بیانیہ یکسانیت رکھتا ہے اور وہ موجودہ حالات میں کسی بھی حد سے گزرنے کےلئے تیار ہیں، ان کے اسی رویے کی بناءپر پارٹی میں ہلچل ہے، کسی زمانے میں ایک مولوی ہلچل ہوا کرتے تھے وہ میاں صاحب کے جلسوں میں میاں نے مچا دی ہلچل ہلچل کے نعرے لگوایا کرتے تھے، اب میاں نواز شریف واقعی ہلچل مچانے کے موڈ میں ہیں، 13نومبر کو لاہور میں ہونے والا جلسہ اس حوالے سے انتہائی اہم ہے۔
پیپلز پارٹی میں اختلافات نمایاں ہیں، چودھری اعتزاز احسن جیسے سنجیدہ لوگ پی ڈی ایم کی تحریک سے مکمل طور پر الگ ہیں اور کسی بھی جلسہ میں سٹیج پر دکھائی نہیں دیتے، اس حوالے سے وہ اکیلے نہیں بہت سے دیگر رہنماءبھی ان کے ہمنوا ہیں، ان لوگوں کا گمان ہے موقع ملتے ہی نواز شریف، اپنا کام نکال کر پھر سے پیپلز پارٹی کے مقابل ہونگے، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے بیانیہ میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے واضح فرق ہے، جس کا ثبوت کراچی جلسہ میں نواز شریف کو خطاب کی اجازت نہ دینا، بلاول بھٹو کا پی ڈی ایم کی تحریک سے عملی طور پر الگ ہو کر گلگت بلتستان میں ڈیرے ڈالنا ہے۔ بلاول اس لڑائی کے انجام کے منتظر اور اس میں سے درمیانی راہ نکال کراقتدار میں آنے کیلئے خود کو قابل قبول بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
13نومبر کو پی ڈی ایم لاہور کے جلسہ کی تیاری کر رہا ہے اس جلسہ کو لیگی رہنماءفیصلہ کن اور حکومت کیخلاف ریفرنڈم قرار دے رہے ہیں، دیکھیں اس جلسہ سے ن لیگ کیا فائدہ اٹھاتی ہے اور پیپلز پارٹی کو کیا حاصل ہوتا ہے، پی ڈی ایم کے کوئٹہ اور پشاور جلسے کا استقبال دہشت گردوں نے تخریب کاری سے کیا، دیکھیں لاہور کے جلسہ سے پہلے اور بعد میں کیا ظہور میں آتا ہے، اللہ خیر کرے، کچھ لوگوں کا خیال ہے نواز شریف اور مریم نواز اس جلسہ میں کوئی بہت اہم اعلان کرنے والے ہیں مریم نواز کی "شیر جوان تحریک" کے جوانوں کو اس جلسہ میں اہم ٹاسک دئیے جانے کا بھی امکان ہے، دوسری طرف جلسہ کے روز کچھ لیگی ارکان اسمبلی اور رہنماؤں کی طرف سے پارٹی سے لا تعلقی کا اعلان کرانے کےلئے بھی کچھ طاقتیں متحرک ہیں، نواز شریف کے اہم اعلان کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت کی طرف سے بھی ردعمل کی توقع کی جا رہی ہے، ممکن ہے یہ رد عمل بہت سے لوگوں کو قابل قبول نہ ہو اور بہت سے اس کی توقع ہی نہ کر رہے ہوں۔
سیاسی تحریکوں اور جلسوں کے حوالے سے لاہور کی ایک تاریخی سیاسی اہمیت ہے، ماضی میں یہاں ہونے والے دو جلسے انتہائی کامیاب اور تاریخی حیثیت کے حامل ہیں، ایک جلسہ سے بینظیر بھٹو اور دوسرے سے عمران خان نے خطاب کیا تھا جبکہ دونوں اپوزیشن میں تھے، اور دونوں کے ون پارٹی شو تھے جبکہ ±پی ڈی ایم کا جلسہ 9جماعتوں کا مشترکہ شو ہے، دیکھیں اپوزیشن کی توقعات پوری ہوتی ہیں یا نہیں، تاہم یہ جلسہ پنجاب حکومت کا بھی امتحان ہے، کوئٹہ اور پشاور میں تخریب کار اپنی مذموم کارروائی میں کامیاب ہو گئے، اسی کی روشنی میں پنجاب حکومت سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی سخت اقدامات بروئے کار لا رہی ہے، اگر "شیر جوانوں "کی طرف سے کوئی کارروائی نہ ہوئی تو امید ہے کسی ناخوشگوار صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، اس جلسہ میں مریم نواز کے"شیر جوانوں " اور پولیس فورس کے جوانوں میں کوئی معرکہ آرائی ہو سکتی ہے، جلسہ کو فیصلہ کن بنانے کیلئے ن لیگ کی قیادت کوئی بھی انتہائی قدم اٹھا سکتی ہے، جس کا انجام خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کو کسی سانحے سے بچنے کیلئے سر جوڑنا اور مذکرات کی میز پرآنا ہو گا، اس کیلئے ضروری ہے کہ الزامات کی گرد اڑانا اور تنقید کے نشتر برسانا چھوڑ کر ہر کوئی خود احتسابی کرے اور اپنی اپنی غلطیوں کوتاہیوں کا جائزہ لیکر مفاہمت کی راہ نکالے، اس موقع پر اگر مفاہمانہ رویہ سے گریز کیا گیا تو افراتفری پھیلانے کا پلان کامیاب ہو جائے گا اور جیسے ماضی میں جمہوری لوگوں کی غلطیوں سے غیر جمہوری قوتوں کو مداخلت کا موقع ملا ایسے ہی کوئی اقدام نا ممکنات میں سے نہیں اگر چہ اس کی توقع نہیں ہے، خیال ہے کہ نواز شریف کی توپوں کا رخ اب فوج کیساتھ عدلیہ کی طرف بھی ہو جائیگا اور وہ دونوں اداروں کو دباؤ میں لاکر اپنے حق میں فیصلے حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ یہ وقت ہے کہ ن لیگ کے امن پسند رہنماءدیگر محب وطن اور مفاہمت پسند جماعتیں مل کر ایسی منصوبہ بندی کریں جس سے خطرات کو کم سے کم کیا جا سکے ورنہ کھیل بگڑ سکتا اور پھر کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا اور سب پکڑ میں بھی آئیں گے، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کردار اس حوالے سے اہم ہے کہ جلسہ کو فیصلہ کن بنانے والوں کے جواب میں وہ کیا فیصلے کرتے ہیں، ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت جلسہ کیلئے فری ہینڈ دے تاہم جہاں قانون شکنی ہو وہاں قانون کو حرکت میں لایا جائے، عثمان بزدار اگر چہ ماضی میں اپوزیشن کے حوالے سے وضعداری اور فراخدلی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں اب بھی ان سے اسی کی توقع ہے، اس کے ساتھ حکومت کو اتحادی جماعتوں اور معتدل مزاج سیاسی جماعتوں سے روابط بھی بڑھانے ہوں گے تاکہ ملکی سیاست میں بہتری آسکے۔