پی ڈی ایم کے اجلاس میں شامل مرکزی جماعتوں کے اختلافات کے دوران لفظوں کی بمباری سے لگتاتھا کہ اپوزیشن اتحاد کے تاروپود بکھر جائیں گے مگر اندرون خانہ حالات سے واقف کاروں کا دعویٰ ہے کہ جیسے جیسے اجلاس طویل ہوتا گیا باہر تشویش بڑھتی گئی مگر اندر پکنے والی ہانڈی میں اختلافات کا ابال کم ہوتا گیا، اور آخر کار خدشات بے معنی ہو کر رہ گئے، تاہم دلوں میں الجھنیں اب بھی موجود ہیں تحفظات ہیں، شکوے اور شکایات بھی وجود رکھتے ہیں جن پر مٹی ڈال کر اب شعلے ٹھنڈے کر دئیے گئے ہیں مگر چنگاری اب بھی سلگ رہی ہے، جو کسی بھی وقت شعلوں میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
اجلاس میں آصف علی زردای اور بلاول بھٹو نے بنفس نفیس شرکت نہیں کی مگر ویڈیو لنک پر موجود رہے، نواز شریف بھی ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے، اس موقع پرآصف زرداری نے اسمبلیوں سے استعفے دینے کو نواز شریف کی واپسی سے مشروط کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا نواز شریف صاحب واپس وطن آئیں ہم آپ کو استعفے دیدیں گے، یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم یہاں جیل کاٹیں اور آپ لندن میں آرام و اطمینان سے زندگی گزاریں، واپس آئیں جیل جائیں گے تو سب اکٹھے جائیں گے، اس موقع پر نواز شریف کے بجائے مریم نواز نے جواب دیا، نواز شریف کی زندگی کو ملک میں خطرات لاحق ہیں آپ ان کی زندگی کی گارنٹی دیں وہ واپس آجائیں گے، بعد میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے جمہوریت کیلئے اپنے خاندان، والد، والدہ اور اپنی قربانیاں بیان کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کیلئے صرف آپ کے خاندان نے مصائب و آلام برداشت نہیں کئے، ہمارا خاندان بھی اس حوالے سے کسی سے پیچھے نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی نے اجلاس کے دوران مشاورت کیلئے مہلت طلب کی جس کے جواب میں فضل الر حمٰن نے کہا کہ جو ہونا ہے آج ہی ہو گا، آج ہم آر یا پار کرنے کیلئے اکٹھے ہوئے ہیں، اس لئے جو فیصلہ کرنا ہے ابھی کریں، واضح رہے کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو دونوں اسمبلیوں سے استعفے دینے پر آمادہ نہیں، ان کے نزدیک استعفے دیکر میدان عمران خان کے ہاتھ میں دیدیا جائے گا، ان کو ہر کام کرنے کیلئے فری ہینڈ مل جائے گا اور وہ اپوزیشن کو احتساب کے نام پر انتقام کا نشانہ بنانے کیلئے آزاد ہو جائیں گے، مگر واقفان حال کا کہنا ہے کہ باپ بیٹے کے نزدیک مسلم لیگ ن اور جے یو آئی(ف) کے پاس گنوانے کو کچھ نہیں مگران کے پاس سندھ حکومت ہے اور وہ سٹیک ہولڈر ہیں، اس لئے بغیر سوچے سمجھے اور واضح یقین دہانی کے سندھ حکومت کو داؤ پر نہیں لگایا جا سکتا، اسی پر بس نہیں پیپلز پارٹی کی اول اور دوسرے درجے کی قیادت کو نواز شریف پر اعتماد بھی نہیں ہے، ماضی کے پیش نظر ان کا کہنا ہے کہ جب ان کو ہماری ضرورت ہوتی ہے بھائی بن جاتے ہیں اور جب ضرورت نکل جاتی ہے تو "بھائی"بن جاتے ہیں، اتنی بار ڈسے جانے کے باوجود ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا، نواز شریف سے اتحاد ہی کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے کئی الیکٹ ایبلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں اور اعتزاز احسن جیسے سینئر رہنماءسیاست سے کنارہ کش ہو کر گھر بیٹھ رہے ہیں۔
آخری اطلاعات تک پی ڈی ایم میں استعفوں کے معاملہ پر ڈیڈ لاک برقرار ہے، پیپلز پارٹی آخری وقت تک استعفے نہ دینے پر بضد رہی جبکہ مریم نواز اور فضل الرحمٰن لانگ مارچ سے قبل استعفے دینے پر اصرار کر رہے ہیں، اگر چہ آصف زرداری نے اجلاس کے شروع میں نواز شریف کے حوالے سے اپنے ریمارکس پر اجلاس میں نواز شریف اور مریم سے معذرت کر لی ہے مگر استعفوں کے حوالے سے دونوں اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے، نتیجے میں اجلاس کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر ختم ہو گیا، اب تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ لانگ مارچ اوردھرنا کا مستقبل بھی شکوک و شبہات کے اندھیرے میں چھپا ہوا ہے، بات صرف یہ نہیں بلکہ مستقبل قریب میں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے کسی بڑے مقصد کی جنگ لڑنا بھی شائد ممکن نہ ہو۔
عوام بھی پی ڈی ایم کی تحریک کے حوالے سے مطمئن نہیں، تحریک انصاف حکومت کی کارکردگی اگر تسلی بخش نہیں تو ابتداءسے نہیں مگر اپوزیشن والے ٹھنڈے پیٹ ہر قسم کی صورتحال کو برداشت کرتے رہے، انہیں عوام کی مشکلات ان کے مسائل کا ادراک تھا مگر احساس نہیں تھا، مہنگائی، بیروز گاری، بد امنی، پولیس مظالم سب روایت کے مطابق تھا مگر اپوزیشن کی بڑی جماعت ن لیگ نے نوٹس لیا نہ سندھ میں حکمران دوسری بڑی پارٹی نے اس حوالے سے عوام کی ترجمانی کی، مگر جب پارٹی قیادت براہ راست زد پر آئی تو اپوزیشن کو حکومت میں خامیاں دکھائی دینے لگیں، سچ یہ کہ عوام کا اب بھی اپوزیشن کی تحریک میں گزر نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کو لانگ مارچ کی تاریخ عیدالفطر کے بعد کی دینا پڑ گئی، اور یہ پہلی مرتبہ نہیں ہواءاس سے قبل بھی اعلان ہوتے رہے مگر لانگ مارچ نہ ہواءاور جب فضل الرحمٰن نے اسلام آباد میں دھرنادیا تو ن لیگ اور پیپلز پارٹی اس سے عملی طور پر الگ رہے۔
پی ڈی ایم کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی ہے، پی ڈی ایم میں حالیہ عدم اتفاق کے باعث لانگ مارچ موخر ہونے کا امکان ہے، استعفوں کے بغیر لانگ مارچ نہیں ہوگا، لانگ مارچ فی الحال ملتوی کیاجائیگا اور پھر میٹنگز ہونگی، عید کے بعد تک لانگ مارچ ملتوی کیا جا سکتا ہے، بڑی دو جماعتوں میں سیاسی رنجش برقرارہے اس طرح حکومت مخالف تحریک کیسے چلائی جا سکتی ہے؟ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اپوزیشن کو حتمی فیصلے کے لئے بلایا گیا تھا، مگر پیپلز پارٹی نے ایک مرتبہ پھر سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے مشاورت کے لیے مہلت مانگ لی، سابق صد زرداری کا کہنا تھا کہ آج جو موقف پیش کیا گیا وہ سی ای سی فیصلوں کی روشنی میں تھا، پیپلز پارٹی کا کہنا تھا استعفوں کے معاملے پر پارٹی سے مزید مشاورت ضروری ہے، جبکہ جمعیت علمائے اسلام، مسلم لیگ ن سمیت دیگر جماعتوں کا موقف تھا کہ استعفوں کے بغیر لانگ مارچ کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا، جب تک استعفے نہیں دیں گے، حکومت کو دبا ؤمیں نہیں لایا جاسکتا، ذرائع کا کہنا ہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر بھی پی ڈی ایم جماعتوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے کہا کہ سینیٹ میں اکثریتی جماعت کو ہی اپوزیشن لیڈرکا عہدہ دیا جائے، دیگر جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین اور اپوزیشن لیڈر کے حوالے سے ایک حتمی مشاورت ہو چکی تو پھر نیا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ اس پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 9 جماعتیں ایک طرف اور پیپلز پارٹی دوسری طرف ہے، پیپلز پارٹی صرف اپنی جماعت کو نہیں پوری اپوزیشن کے موقف کو سامنے رکھے۔
اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں کے موقف، نظریات میں یکسانیت پہلے بھی کبھی نہ تھی، یہ اتحاد صرف پارٹی قیادت یا بقول تحریک انصاف ابو بچاؤ تحریک ہے، یکسانیت سے عاری جماعتوں کے اتحاد سے کسی بڑے مقصد کی توقع رکھنا ہی عبث ہے، عوام کو پہلے اس سے کو ئی امید تھی نہ اب ہے، مگر اجلاس کے بعد عوام مزید مایوس ہو گئے اور ثابت ہو گیا اپوزیشن اتحاد عوام کیلئے نہیں بلکہ سیاسی اور ذاتی مفادات کے حصول کیلئے ہے۔