پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ چھوٹے صوبوں کیلئے مثال اور نظیر بنا رہتا ہے، مگر افسوس کہ آج انتظامی حوالے سے پنجاب کا حلیہ ہی بگڑ چکا ہے اور گورننس کا ایک نیا اور سیاہ باب رقم کیا جا رہا ہے، جس میں افسروں کی موجیں لگی ہوئی ہیں اور عوام بے حال اور سوچنے پر مجبور کہ یہ وہی پنجاب ہے جس کی بیوروکریسی، اعلیٰ افسران، انتظامی مشینری دوسرے صوبوں کے لئے رول ماڈل ہوا کرتی تھی، اسکی مثالیں دی جاتی تھیں۔ تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کو معرض وجود میں آئے تین سال کا عرصہ ہونے کو آیا ہے، مگر آج بھی حکومت انتظامی معاملات چلانے کے حوالے سے زیرو پوائنٹ پر کھڑی ہے، تجربے اور صرف تجربے کئے جا رہے ہیں، افسروں کے تبادلوں کا ریکارڈ قائم کیا جا رہا ہے بلکہ تبادلوں کا اتوار بازار لگا ہے جس میں صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے کی صدائیں بلند کی جا رہی ہیں۔ افسروں کی اکثریت کے درمیان انتظامی کے بجائے مالی معاملات میں پی ایچ ڈی کرنے کی ریس جا ری ہے۔ ماضی میں شکائت تھی کہ ادارے ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کر کے نظام و انصرام حکومت بگاڑ تے ہیں مگر اب انتظامیہ یعنی بیوروکریسی کے اپنے بڑے ہی معاملات میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں۔ انتظامیہ دراصل کسی بھی حکومت کا چہرہ ہوتا ہے، آج یہ چہرہ مسخ ہو چکا ہے۔ مقننہ کا کام قانون سازی، عوام کو ریلیف دینے کیلئے قواعد و ضوابط ترتیب دینا مگر اصل حکومت انتظامیہ ہوتی ہے جس کا کام مقننہ کی جانب سے کی گئی قانون سازی پر عملدرآمد یقینی بنا کر اس کے اثرات نچلی سطح پر عوام تک پہنچانا ہوتا ہے۔ عدلیہ کے آئینی فرائض ہیں کہ وہ قانون سازی اور عملدرآمد پر چیک اینڈ بیلنس قائم رکھنے کا فریضہ انجام دے، مقننہ کو ایسی قانون سازی کرنے کی اجازت دے جو آئین و دستور سے ماورا ہو نہ انتظامیہ کو آئینی حدود سے تجاوز کرنے دے، بلا امتیاز مقننہ کے بنائے قوانین اور ضابطوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانا بھی عدلیہ ہی کا کام ہے۔
کسی بھی ریاست کے تین بنیادی ستون ہوتے ہیں، نظم ریاست انہی پر چلایا جاتا ہے، مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے ستونوں پر ہی ریاست کا وجود مستحکم انداز سے دائم رہتا ہے، اہم ترین بات ان تینوں اداروں یا ستونوں میں توازن قائم رکھنا ہے، ایک ادارہ کی دوسرے میں مداخلت روکنا بھی اہم ترین ہے، تینوں ستون اپنے اپنے دائرہ کار میں خود مختار اورآزاد ہوں اور بلا امتیاز قوانین کے مطابق اپنے فرائض منصبی ادا کریں تو کوئی وجہ نہیں ریاست ترقی کی منازل طے کرتے استحکام حاصل کر لے اور عوام کو فوری ریلیف ملنا شروع ہو جائے، مسائل بھی دہلیز پر حل ہوں، امن اور تحفظ بھی میسر ہو اور انصاف بھی فی الفور ملے۔ ہمارے ہاں مگر باوا آدم ہی نرالا ہے، تجربے پر تجربہ کرنا ہم نے اپنا وطیرہ بنا لیا، ایک دوسرے کے اختیارات کو استعمال کر کے اپنی برتری اور بالا دستی قائم کرنا اور ایک دوجے کے دائرہ کار میں مداخلت کرنا ہم نے شیوہ بنا لیا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج71سال بعد بھی ہم دوراہے بلکہ چوراہے پر کھڑے ہیں۔
پنجاب کی بیوروکریسی کا برا حال ہے، وزیر اعلیٰ جب چاہتے ہیں اپنی پسند نا پسند سے بار بار افسروں کی تعیناتی اور تبادلے کر رہے ہیں جو ان کا حق ہے مگر اس حوالے سے موجود و مروج ضابطوں اور قاعدوں کی پرواہی نہیں کی جا رہی، کوئی ٹینیور سسٹم نہ قابلیت اور محنت دیکھی جا رہی ہے، چیف سیکرٹری جو انتظامیہ کے سربراہ ہیں نے چپ سادھی ہوئی ہے، وہ خاموش تماشائی بنے سب کچھ ہوتے دیکھ رہے ہیں، ان کو اپنے اختیارات میں مداخلت پر بھی کوئی اعتراض نہیں، ان کے ارد گرد اچھے سینئر افسران کا ایک گروپ بھی ہے جس پر الزام ہے کہ وہ (ن) لیگی گروپ ہے دوسری طرف وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ نے اپنی الگ سے ریاست قائم کر رکھی ہے، جو ریاست کے اندر ایک ریاست ہے اور یہاں کسی کی بات سننے کا رواج نہیں، کسی افسر کی بات ماننا تو دور کی بات کسی کی بات پر دھیان بھی نہیں دیا جا رہا۔ یہ ایک رخ ہے جبکہ دوسرا رخ یہ ہے کہ مرکز اور صوبے میں کئی گروپ یا شخصیات ہیں جو افسروں کی تعیناتیاں کر ارہی ہیں اور ان کے سامنے وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری نظر ہی نہیں آتے اور ان کوارٹرز سے لگنے والے افسران نے اپنی من مانیوں اور کرپشن کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ گوجرانوالہ اور ایک روحانی شخصیت کا گروپ اس وقت سب سے بالا ہے وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ ایوان وزیر اعظم بھی پنجاب میں جو چاہے کر سکتا ہے۔ ابھی تھوڑے دن پہلے لاہور کے کمشنر ذوالفقار گھمن کو بھونڈے طریقے سے تبدیل کر دیا گیا اور انکی جگہ تعینات ہونے والے کمشنر بہت اوپر کی سفارش پر لگے ہیں، وہ ایک طویل عرصے سے لاہور میں لگنے کے لئے تگ و دو کر رہے تھے اب وہ فاتحانہ انداز میں کہہ رہے ہیں کہ دیکھ لیں میں لگ گیا ہوں کیونکہ پہلے بھی میں نے ہی لگنا تھا مگر اس وقت ذوالفقار گھمن درمیان میں آ گیا، ذوالفقار گھمن ایک ایماندار افسر ہیں وہ میرٹ سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کرتے جس کی وجہ سے بہت بڑے لوگوں کے مفادات کو ٹھیس پہنچ رہی تھی، صوبائی سروس سے تعلق ہونے کی بنا پر بھی وہ کھٹک رہے تھے، اب وہ کمشنر گوجرانوالہ تعینات کر دیئے گئے ہیں، اگر وہ وہاں کےلئے اہل ہیں تو لاہور میں کیوں نہیں تھے۔ چیف سیکرٹری پنجاب اور ایوان وزیر اعلیٰ خوب جانتے ہیں کہ کن افسروں نے انھی ڈالی ہوئی ہے مگر وہ آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ پی اے ایس کے ایک ایڈیشنل سیکرٹری کو دو تین ضلعوں کا ڈپٹی کمشنر لگایا گیا مگر وہ اتنے با اختیار ہیں کہ جوائن ہی نہیں کرتے، وہ اپنے دوستوں سے کہتے ہیں کہ جب تک میری مرضی کا کوئی بڑا ضلع نہیں ملے گا میں نہیں جاوں گا۔
صوبے میں ابتر انتظامی صورتحال ہے ماضی میں کرپشن چھپ چھپا کے ہوتی تھی مگر اب سرعام ہو رہی ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں، جس کا جدھر منہ ہے بگٹٹ ادھر بھاگے جا رہا ہے، جس کے من میں جو آتا ہے کر گزرتا ہے، کسی کا خوف ہے نہ ڈر، وجہ یہ کہ جن افسروں کو شکائت کی جانی ہے یا جن افسروں نے اس کی روک تھام کرنا ہے، جن افسروں نے نظام کو قانون کے مطابق چلانا ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے کا راگ الاپ رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں سیکرٹریٹ قائم کیا گیا تھا مگر اب تک وہ سیکرٹریٹ عضو معطل ہے، بلکہ کہا جائے کہ اس سیکرٹریٹ میں تعینات افسروں سے مذاق ہو رہا ہے اور جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی توہین تو غلط نہ ہو گا، یہ صورتحال واضح کر رہی ہے کہ حکومت تو جنوبی پنجاب کے باسیوں کو اختیارات اور سہولت دینا چاہتی ہے مگر انتظامیہ یعنی بیوروکریسی اپنے اختیارات کی تقسیم پر راضی نہیں، حکومت نے بھی جنوبی پنجاب کو قواعد کے تحت لاہور سیکرٹریٹ کا ہی ماتحت رکھا ہے، یعنی جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ با اختیار نہیں بلکہ اب بھی تخت لاہور کا محتاج ہے۔ یعنی" ڈھاک کے تین پات"۔