پی ڈی ایم میں ہونے والی شکست و ریخت نے بہت ساروں کے دل توڑ کر رکھ دیئے ہیں۔ منصوبے، توقعات اور دعوے ایسے ٹوٹے کہ منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں اور اب خفت مٹانے کے لئے پنجاب کے سیاسی معاملات پر دھول اڑانے کی کوشش ہو رہی ہے حالانکہ یہاں اب راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے، کبھی اتحادیوں اور کبھی پوسٹنگ ٹرانسفر کو لے کر دور کی کوڑی لائی جا رہی ہے جس کا حاصل یہی ہے کہ چھت پر میرے علاوہ کوئی اور نہ ہوتا تو پتنگ میں نے ہی لوٹنی تھی۔ مختلف الخیال اپوزیشن جماعتوں کے علیحدہ علیحدہ بیانیے اور اپنے اپنے خیالات ہیں، ان کے درمیان مفادات حاصل کرنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے جس کے ہاتھ میں جو آتا ہے وہ اس کو لے اڑتا ہے، قوم اور ملک انکی ترجیح پہلے تھے نہ اب اور عوام تو بے چارے اپنے مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں، وہ ان سے لاتعلق ہوچکے ہیں، انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ اپوزیشن ان کے لئے نہیں اپنے اپنے مفادات کے حصول کےلیے بر سر پیکار ہے۔
پی ڈی ایم میں اختلافات کے فوری بعد کچھ اپوزیشن والوں نے پنجاب میں تبدیلی کیلئے دور کی باتیں شروع کر دیں، تجزیہ نگاروں کے مطابق آصف زرداری کو اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے اور خود کوآئندہ حکومت کیلئے اہل ثابت کرنے کیلئے کچھ ہلچل مچانا ہوگی، زرداری پی ڈی ایم میں بھی مرکز سے پہلے پنجاب میں تبدیلی لانے کا اشارہ دے چکے تھے، مگر ن لیگ اس پر تیار نہ تھی، زرداری کا خیال تھا کہ اگر ق لیگ کو اعتماد میں لیا جائے اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ چودھری پرویز الہیٰ کو پیش کی جائے تو عثمان بزدار کیخلاف عدم اعتماد تحریک لائی جا سکتی ہے، مگر ایں خیال است و محال است کے مصداق اس تجویز پر عملدرآمد اور کامیابی کا امکان صفر دکھائی دیتا ہے، سوال یہ کہ عثمان بزدار کو ہٹانے کیلئے کوئی آئینی جواز ہے نہ سیاسی حالات اس کیلئے موزوں ہیں تو پھر کیوں ان کیخلاف کوئی محاذ آرائی ہو گی، اس حوالے سے سب سے زیادہ انحصار چودھری پرویز الٰہی پر کیا جا رہا ہے جبکہ خود پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت حسین اس امکان کو رد کر چکے ہیں اور واضح کر چکے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کے اتحادی ہیں اورآخری حد تک یہ اتحاد اور اشتراک قائم رکھنے کی کوشش کریں گے، ق لیگ کے تعاون کے بغیر عثمان بزدار کیخلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرانا نا ممکنات میں سے ہے، تو پھر کس برتے پر پنجاب میں تبدیلی کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، بات سمجھ آتی ہے نہ ہضم ہوتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان بھی عثمان بزدار پر بار بار اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں اور پارٹی کے اندر اور باہر سے عثمان بزدار کو ہٹانے کا دبا ؤمسترد کر چکے ہیں، تحریک انصاف حکومت کے تین سالہ دور پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے وزیر اعظم کسی بھی وزیر کی بری کارکردگی یا اس کیخلاف شکایات کو نظر انداز نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ شاہ محمود قریشی کے سوا مرکزی کابینہ میں ہر وزیر کے کم از کم دو سے تین بار قلمدان تبدیل ہوئے بعض سے تو وزارتیں چھین لی گئیں مگر عثمان بزدار آج بھی اپنی جگہ پر ہیں اور اور بڑے سائنٹفک انداز میں مخالفین کا مقابلہ کر رہے ہیں بلکہ حکومتی امور بھی خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے حالیہ دنوں میں اضلاع کے طوفانی دوروں، ارکان اسمبلی، اور متعلقہ بیوروکریسی سے ملاقاتوں، ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات، ترقیاتی کاموں کے معیار اور رفتار کیلئے جانچ پڑتال سے معلوم پڑتا ہے کہ اب وزیر اعلیٰ بڑی چھان پھٹک کے نہ صرف کابینہ بلکہ بیوروکریسی میں بھی با اعتماد ٹیم تشکیل دے کر عوامی بہبود اور ریلیف کیلئے مشغول ہیں۔ اس مقصد کیلئے وہ دن رات ایک کئے ہوئے ہیں، پھر ان کو ہٹانے یا تبدیل کرنے کا کوئی جواز بھی نہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ عوام کو ریلیف دینے کے منصوبوں اور اقدامات پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں اور انہیں کسی بھی طرف سے ہونے والی مخالفت کی پروا نہیں کہ پارٹی قیادت اور ساتھی اراکین، اتحادیوں کا انہیں بھر پور اعتماد حاصل ہے۔ عثمان بزدار کے حالیہ دنوں میں اضلاع کے دوروں پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ کفائت شعاری کیساتھ ان کے ہوم ورک کا بھی پتہ دیتے ہیں، ایک ایک ضلع کے بجائے وہ ڈویژن کی سطح پر دورے کرتے ہیں، اس دوران فائیو سٹار ہوٹلوں میں ظہرانے عصرانے اور عشائیوں پر کثیر سرمایہ خرچ کرنے کے بجائے سرکاری دفاتر یا ریسٹ ہاؤسوں میں سادگی سے ملاقاتیں ہوتی ہیں جن میں صرف پارٹی ارکان یا صوبائی وزراءہی شامل نہیں ہوتے بلکہ اتحادیوں اور اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کو بھی مدعو کیا جاتا ہے، اپنوں کے ساتھ غیروں سے بھی مشورے ہوتے ہیں ان سے تجاویز مانگی جاتی ہیں، سرکاری محکموں کی کارکردگی بارے رپورٹ طلب کی جاتی ہے، غیر ذمہ دار اور فرائض سے غفلت برتنے والے افسروں اہلکاروں کے خلاف موقع پر کارروائی کی جاتی ہے۔ پہلی مرتبہ کسی وزیر اعلیٰ نے سیاسی قیادت کیساتھ بیوروکریسی کو بھی اہمیت دی، عثمان بزدار جس ڈویژن یا ضلع میں جاتے ہیں اس کی بیورو کریسی سے بھی ملتے ہیں، ان کے مسائل براہ راست سنتے ہیں، ان کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں، ان سے مشورے بھی کرتے ہیں اور تجاویز بھی لیتے ہیں، یہ ہے حکمرانی کا جمہوری، آئینی، سائنسی انداز، یہی وجہ ہے کہ ان کے قدم دن بدن مضبوط اور مستحکم ہوتے جا رہے ہیں۔
عثمان بزدار پہلے وزیر اعلیٰ ہیں جن کو اتحادیوں کا بھر پور اعتماد حاصل ہے، خاص طور پر ق لیگ نے تو دوستی کا حق ادا کر دیا ہے اور وزیر اعلیٰ کی راہ میں آنے والے خطرے سے نہ صرف ان کوآگاہ کیا بلکہ صورتحال سے بخیریت گزرنے کا راستہ بھی بتایا، اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری طاہر خورشید بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا بھی ان کو اعتماد حاصل ہے جس کی وجہ سے ان کو اہداف کے حصول میں مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، اب ضرورت ہے عوام کو براہ راست ریلیف فراہم کرنے کی، خاص طور پر مبارک ماہ رمضان میں عوام کو منافع خوروں کے چنگل سے بچانے کی، یہ بھی نا ممکن کام نہیں، ضرورت تھوڑی سی توجہ مبذول کرنے کی ہے، پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو متحرک اور فعال بنانے اور پنجاب فوڈ اتھارٹی کو مجسٹریٹ کے اختیارات دے کر بھی یہ کام ممکن بنایا جا سکتا ہے، ضروریات زندگی کی اشیاءکی قیمتوں پر گہری نظر رکھی جائے تو منافع خوری کو کم از کم اس ماہ مبارک میں نکیل ڈالی جاسکتی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں حکومتی پالیسیوں اور اقدامات، قانون سازی کے اثرات نچلی سطح پر منتقل کرنے میں مقامی حکومتوں کا اہم کردار ہے اس سے مرکزی صوبائی حکومتوں پر کام کا بوجھ کم ہوتا ہے اور گلی محلہ کی سطح پر ریلیف کے اثرات کو پہنچانا ممکن ہو جاتا ہے، اہم ترین یہ کہ عوام اور حکومت میں فاصلے کم ہو جاتے ہیں، عثمان بزدار کی کارکردگی اب کھل کر سامنے آرہی ہے، پنجاب حکومت کی سطح پر بھی اس کی تشہیر کی اور زیادہ ضرورت ہے۔