Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Sarkari Machinery Ko Aitmaad Dein

Sarkari Machinery Ko Aitmaad Dein

پاکستان اور چین کی عمرآزادی میں صرف ایک سال کا فرق ہے، چین ہم سے ایک سال چھوٹا ہے، ایک اور نمایاں فرق یہ کہ جب چینیوں نے آزادی حاصل کی تو ان کی قوم کی اکثریت افیون، بھنگ اور پوست کے نشے میں دھت تھی، خاص طور پر نوجوان نسل ہر وقت بے خودی کی کیفیت میں مبتلا تھی جبکہ پاکستانی جن کی اکثریت زراعت کے پیشے سے وابستہ تھی نہ صرف محنتی اور جفا کش تھے بلکہ چوکس بھی رہتے تھے۔ آزادی کے وقت جن افراد کے ہاتھ میں قوم کی قیادت تھی وہ بھی مدبر، دانشمند اور اصول و کردار کی حامل تھی، مگر ہماری بد نصیبی کہ آزادی کے فوری بعد یہاں قیادت کیلئے کھینچا تانی شروع ہو گئی اور مقصد کے حصول کیلئے اخلاق و اصول پس پشت ڈال دیئے گئے، اس دگر گوں صورتحال کے باوجود ایسی سرکاری مشینری قدرت نے فراہم کی جس نے نا موافق حالات میں بھی اپنی اور قوم کی سمت درست رکھی اور سخت معاشی مشکلات کے باوجود ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کر دیا۔

ادھر چین میں اقتدار کی میوزیکل چیئر گیم نہ کھیلی گئی اور ماؤے تنگ کے بعد چوین لائی نے قوم کو ایسی راہ پر ڈالا کہ آج چین واحد عالمی طاقت امریکہ کی آنکھوں میں بھی کھٹک رہا ہے، لا مذہب ہونے کے باجود چینیوں نے سماجی زندگی میں کنفیوشش کی تعلیمات کی پیروی کی، واضح رہے کہ چین میں کنفیوشس کو پیغمبری کا درجہ حاصل ہے، چین کی قیادت نے "سب سے پہلے چین" کا نعرہ نہیں لگایا بلکہ اس کو عملی طور پر اپنایا، ہر قسم کے زبان، رنگ، نسل، صوبے، مذہب کے تفرقات کو بالائے طاق رکھ دیا اور ایک قوم بن کر ملک اور عوام کی ترقی اور خوشحالی کیلئے کمر بستہ ہو گئے، اسی کنفیوشس کا قول ہے " نظام کتنا بھی برا اور ظالمانہ ہو اگر زمام کار اہل، دیانتدار، ذمہ دار اور محب وطن لوگوں کے ہاتھ میں ہے تو عوامی بہبود اور ملکی ترقی کا راستہ نہیں روکا جا سکتا، اور اگر دنیا کا بہترین نظام نا اہل، بد دیانت، غیر ذمہ دار اور وطن دشمن افراد کے ہاتھوں میں ہو تو تباہی کا مسلط ہونا نا گزیر ہو جاتا ہے"۔

ہمارے پاس دنیا کا سب سے بہترین نظام تھا جو عملی طور پر صدیوں کرہ زمین کے بڑے خطہ پر نافذ رہا اور خدا کی مخلوق سکھ، اطمینان، آرام کی زندگی بسر کرتی رہی، فتوحات ہوئیں، ترقی اور خوشحالی کے راستے کھلے، ہم نے یہ ملک "لا الہٰ الااللہ" کے نعرہ پر حاصل کیا مگر اللہ اور اس کے رسول کے عطا کردہ نظام کو اپنی زندگی اور معاشرے سے کھرچ کر نکال پھینکا، جس کا نتیجہ ہے کہ آج آزادی کے 73سال بعد بھی ہم منزل کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ اس صورتحال سے نجات کابہت ہی سادہ اور آسان حل تھا اور اب بھی ہے مگر ہمارے ارباب اختیار جانے کیوں نظام کا تسلسل برقرار رکھنے کی بجائے نت نئے تجربات کرنے کے شوقین ہیں، نتیجے میں ہم آج پستی اور تنزلی کا شکار ہیں اور یہ گرداب مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔

معمولی سے غور اور تدبر کی ضرورت ہے راستہ ہمارے سامنے ہے لیکن اس کیلئے "ہمی است" کی گردان سے نجات حاصل کرنا ہوگی، سوچنا ہو گا کہ آزادی کے فوری بعد جب وسائل تھے نہ تجربہ، کوئی منظم ٹیم تھی نہ اہل سیاسی قیادت، مگر اس کسمپرسی کے باوجود47سے لیکر65تک ملک خداداد ترقی و کامرانی کے زینے طے کرتا گیا، وجہ نو آزاد ملک کی بیوروکریسی یعنی سرکاری مشینری تھی جو با اختیار، آزاداور حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار تھی۔

یہ ٹیم آج بھی موجود ہے تجربہ کار، تعلیم اور تربیت یافتہ، جن کی تعلیم اور تربیت پر قوم کا بھاری سرمایہ خرچ ہواءمگرآج یہ ساری ٹیم راندہ درگاہ ہے، ماضی قریب میں سرکاری مشینری کو گھریلو ملازم کی طرح ٹریٹ کیا گیا، اور آج ان کو دوسرے درجے کے شہری کا درجہ دے دیا گیا ہے، اس موقع پر ترقی یافتہ ممالک کے نظام پر بھی ایک نگاہ ڈالنا مناسب ہو گا، کیا وجہ ہے وہاں حکومت بدلتی ہے چہرے بدلتے ہیں مگر نظام اپنی ڈگر پر چلتا رہتا ہے، سرکاری مشینری قوانین اور قاعدوں کے مطابق فرائض انجام دیتی رہتی ہے، نتیجے میں حکومت کسی کی بھی ہو ملکی ترقی، عوامی خوشحالی، مصائب، مشکلات سے نکلنے کے راستے بھی کھلے رہتے ہیں۔ آج سابق امریکی صدر ٹرمپ کو پارلیمنٹ ہاؤس پر حملہ کیلئے اکسانے کے الزام میں مواخذہ کی کارروائی ہو رہی ہے، امریکہ، کینیڈا، یورپی ممالک میں ایک کانسٹیبل ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر صدر، وزیر اعظم، وزراءتک کا چالان کاٹ سکتا ہے، ٹیکس وصولی کے ذمہ دار محکمہ کا کلرک کسی قسم کی بے ضابطگی پرکسی بھی با اثر شخصیت کو نوٹس بھیج کر طلب کر سکتا ہے، مگر یہاں سپریم کورٹ پر حملہ کرانے والے بھی محفوظ و مامون رہے، کوئی ایس پی یا اس سے بھی بڑا افسر کسی وزیر کیا رکن اسمبلی کا چالان نہیں کاٹ سکتا، جب نظام کو اتنا کمزور اور قانون کو بے حیثیت کیا جائے گا تو ترقی کے خواب کی تعبیر کیونکر حاصل ہو سکے گی؟ ۔

جناب وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب جو بیورو کریسی کی ٹیم دستیاب ہے اسی کو استعمال میں لائیں، جیسے بھی ہیں تجربہ کار، تعلیم اور تربیت یافتہ ہیں، سرکار ان کو تنخواہ اور مراعات بھی دے رہی ہے، ان کو کھڈے لائن لگانا دانشمندی نہیں، قوم کا قیمتی سرمایہ ان پر لگ رہا ہے ان سے کام لیں، سرکاری مشینری کو صرف ضرورت ہے اعتماد اور تحفظ کی، احتساب ضرور کیا جائے مگر احتساب کے نام پر انتقام، پگڑیاں اچھالنے، عزت نفس کو مجروح کئے بغیر، ملزم کو مجرم بنائے بناءکسی سے کوئی کوتاہی یا غلطی، اختیارات سے تجاوز یا غلط استعمال کا جرم سر زد بھی ہو جائے تو اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریمارکس کی روشنی میں نیت کو دیکھا جائے، اگر ایسا بد نیتی سے کیا گیا ہو تو اسے نشان عبرت بنا دیا جائے، لیکن اگر بد نیتی کا عنصر شامل نہ ہو تو دیکھا جائے ایسا کیوں ہوا، وجہ نا تجربہ کاری تھی یا قواعد سے لا علمی، سرکار یا عوام کے مفاد میں یہ اقدام تھا یا کسی خاص شخصیت کے مفاد کو تحفظ دیا گیا، فوری نتائج اخذ کر کے فیصلے صادر نہ کئے جائیں، جن افسروں کو حکومت عوامی اور ملکی بہبود کیلئے میدان میں اتارے ان پر بھروسہ بھی کیا جائے اعتماد اور تحفظ بھی دیا جائے، کار کردگی دکھانے کا موقع دیا جائے اگر وہ نتائج نہ دے سکے تو کارروائی کی جائے ورنہ جو کچھ بیوروکریسی کیساتھ ہو رہا ہے اس کے نتیجے میں وہ افسر بھی کچھ کرنے کو تیارنہیں ہونگے جو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔

وزیر اعظم صاحب، وزیر اعلیٰ صاحب، آپ کے ارکان اسمبلی کا کام قانون سازی، کابینہ کا کام پالیسی سازی اور حکومت کا کام بیورو کریسی کی کارکردگی پر نگاہ رکھنا ہے، لیکن اگر مقننہ عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات بھی استعمال کریگی تو پھر کوئی بھی ریاستی ادارہ ڈھنگ سے کام نہیں کر سکے گا، نہ نظم و نسق چلے گا نہ عدل ہو گا اور نہ کوئی حکومت ملک و قوم کی خدمت کر سکے گی، بیوروکریسی کو خدارا حکومتی نہیں ریاستی ملازم سمجھیں انہیں کسی دشمن ملک کا نہیں اپنے ملک کا شہری اور افسر سمجھیں، ان کو اختیار آپ کی حکومت کا تفویض کردہ نہیں بلکہ ریاست کا عطا کردہ ہے تو خدا کیلئے ان کو اپنے ریاستی اختیار کو استعمال کرنے کا قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے موقع دیں اور کچھ مہلت دیں پھر دیکھیں ملک میں تبدیلی آتی ہے یا نہیں، دعویٰ ہے تبدیلی ضرور آئے گی۔