مسلم لیگ(ق) حکومت کی اہم اتحادی جماعت ہے جس کی طرف سے گلے شکوے تو سامنے آ تے رہے مگر اس جماعت نے کبھی پارلیمانی معاملات میں حکومت کا ساتھ نہیں چھوڑا، (ق) لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین پچھلے دنوں علیل رہے۔ وزیر اعظم لاہورآئے تو وہ چودھری شجاعت کی مزاج پرسی کے لئے ان کے ہاں چلے آئے، اس موقع پر وزیر اعظم اور مسلم لیگ(ق) کے رہنماوں کے درمیان سیاسی اور باہمی معاملات پر بھی بات چیت ہوئی۔
وزیر اعظم کو بہت پہلے نہ صرف چودھریوں کے گھرآ نا چاہئے تھا بلکہ ان سے مشوروں اور تعلقات کا سلسلہ بہتر بنانا چاہئے تھا۔ پنجاب کی سیاست، چودھریوں کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی، چودھریوں کی سیاست چودھری ظہور الہیٰ سے چودھری مونس الہیٰ تک ایک ایسا سلسلہ ہے جس کو پڑھے، سمجھے بغیر پنجاب کی سیاست کی سمجھ ہی نہیں آ سکتی۔ چودھریوں کی سیاست پنجاب کی روایتی سیاست ہے جسے وضع داری اور رواداری کی سیاست کہا جاتا ہے۔ ان کا گھر ایسا ڈیرہ ہے جہاں آنے والے دوست، دشمن کی راہوں میں آنکھیں بچھا ئی جاتی ہیں، ان جیسی مہمان نوازی کسی دوسرے بڑے سیاسی خانوادے میں شائد ہی نظر آتی ہے۔ نامور صحافی مجید نظامی مرحوم، عملی طور پر شریف برادران کے سرپرست تھے وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ، ، میں نے کئی دفعہ نواز شریف اور شہباز شریف کو کہا ہے کہ ڈیرے داری اور مہمان نوازی، چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی سے ہی سیکھ لیں، ،۔ چودھری شجاعت ملکی سیاست کے اہم رازوں کے امین ہیں، ان کی سیاسی معاملات میں مہارت مسلمہ ہے، حالات جیسے بھی ہوں چودھری شجاعت کے پاس کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے، سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی بھی ہر مرحلہ اور ہر قسم کی صورتحال میں مفید اور قابل عمل مشوروں سے نوازتے ہیں جو اکثر درست ثابت ہوتے ہیں، پنجاب اسمبلی کو اس وقت چودھری پرویز لہیٰ کے علاوہ کوئی دوسرا چلا ہی نہیں سکتا تھا۔ آج حکومت کو پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک اور کورونا کی نئی لہر کا سامنا ہے مگر ہمارے سیاستدانوں اور حکومتی ذمہ داروں کو صورتحال کا ادراک نہیں، ایسے نازک وقت میں وزیر اعظم کا اہم سیاسی راہنما چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الہیٰ سے ملنا، مشورہ کرنا کسی طرح بھی نقصان کا سودا نہیں۔
طاہرالقادری کا دھرنا ہو یا مرحوم علامہ خادم رضوی یا خود عمران خان کا چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الہیٰ نے ہر کڑے وقت میں حب الوطنی اور قومی سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ثالثی کا کلیدی کردار ادا کیا، جنرل مشرف کے دور میں پاسپورٹ سے مذہب کا خانہ نکالنے کے حکومتی فیصلے کیخلاف مذہبی جماعتوں کا احتجاج عروج پر تھا چودھری شجاعت عبوری وزیر اعظم تھے ایسے میں انہوں نے وقت کے آمر کے فیصلے کو چیلنج کیا اور مذہب کا خانہ نکالنے کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ مشرف کو بھی اس فعل سے روکا، نواز شریف دور میں طاہرالقادری کے دھرنے کے شرکاءنے آگے بڑھ کر پارلیمنٹ کی طرف مارچ کا قصد کیا تو چودھری شجاعت دھرنا میں پہنچ گئے اور ان کواس انتہائی اقدام سے روکا، نواز شریف نے دھرنے والوں کیخلاف طاقت کے استعمال کا عندیہ دیا تو چوھری شجاعت آڑے آئے، چودھری شجاعت کی ان خصوصیات اور خوبیوں کا دشمن بھی اعتراف کرتے ہیں۔
دیکھا جائے تو ملک کوآج جنگی صورتحال سے زیادہ سنگین صورتحال کا سامنا ہے ایسے میں ضرورت ملی یکجہتی اور قومی سوچ کی ہے، اس گمبھیرتا کو اگر کوئی سلجھا سکتا ہے تو اس وقت ملک میں ایک چودھری شجاعت کی ذات ہے، اپنے تو اپنے غیر بھی ان کی سوجھ بوجھ کو تسلیم کرتے ہیں، اس لئے حکومت کو چاہئے کہ چودھری شجاعت، چودھری پرویز الہٰی کو ہر کڑے وقت اور مشکل صورتحال میں مشوروں میں شریک رکھے، بلا شبہ عمران خان پہلی مرتبہ کسی اہم عوامی مرتبے پر فائز ہوئے اور اپنی محنت جدو جہد لگن اور مسقل مزاجی سے وہ مقام حاصل کیا جو دوسرے دہائیوں کے سفر اور مشقت کے بعد بھی حاصل نہ کر پائے، مگر چودھری شجاعت اور چودھری پر ویز لہیٰ گرم و سرد سے آگاہ، اقتدار کی بالکونیوں کی زگ زیگ سے واقف کار اور انداز حکمرانی سے آگہی رکھتے ہیں، اس کے علاوہ دوست دشمن کو منانے، ساتھ لیکر چلنے کی خوبی ان کو غیر جانبدار بھی بناتی ہے، سول اور فوجی بیوروکریسی سے خوشگوار تعلقات، سیاسی خانوادوں، مذہبی جماعتوں میں احترام بھی ان کا خاصہ ہے، اگر حکومت نے ابتداءمیں ہی ان کو شریک مشورہ رکھا ہوتا تو بہت سے ابتر حالات سے محفوظ رہا جا سکتا تھا۔
ملک میں اس وقت قومی ہم آہنگی کی بہت ضرورت ہے، اگر بحیثیت قوم ہم نے احتیاط سے کام نہ لیا معاملات بد تر ہوں گے۔ جس کی متحمل قوم کی اکثرآبادی نہیں ہو سکتی، دوسرا نتیجہ کورونا وباءکے بری طرح پھیلنے کی شکل میں برآمد ہو گا ملکی معیشت اور صحت کا نظام جس کا بار نہ اٹھا سکے گا اور نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد امریکہ فرانس اٹلی، برازیل، اور بھارت کی طرح بڑھ جائے گی، اس سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے قومی سوچ کا فروغ اور ملی یکجہتی، اور اس کیلئے اپوزیشن کو بھی ساتھ لیکر چلنے کی ضرورت ہے اور یہ کام چودھری شجاعت کے سوا کسی کے بس کا روگ نہیں، چودھری شجاعت کے ماضی پر نگاہ دوڑائیں تو نواز شریف کے علاوہ کوئی ان کا سیاسی مخالف نہیں نظر آتا، مسلم لیگ ن میں بھی ان کا بدرجہ اتم احترام ہے، ن لیگ کے اکثر رہنماءچودھری شجاعت کو پکا سچا اور حقیقی لیگی سمجھتے ہیں، اس نازک موقع پر اول ضرورت پی ڈی ایم کے عوامی جلسے روکنے کی ہے، دوسری ضرورت قوم کے ہر فرد کو ہر شعبہ زندگی میں ایس او پیز پر عملدرآمد پر مجبور کرنے کی ہے، اس کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی اور مذہبی رہنماءاپنا قومی کردار ادا کریں اور اگر حکومت سرپرستی کرے تو عوام اور سیاسی کارکن احتیاط کو اپنا سکتے اور سیاستدان اجتماعات کرنے سے رک سکتے ہیں، مگر اس کیلئے کسی غیر جانبدار اور غیر متنازع لیڈر کو کردار دینے کی ضرورت ہے، اور چودھری شجاعت اس حوالے سے بہترین انتخاب ہیں۔
بظاہر وزیر اعظم چودھری شجاعت کی خیریت دریافت کرنے چودھری ہاؤس آئے، کیا اچھا تھا کہ اس موقع پر خدشات، تحفظات، شکایات اور اختلافات پر بات کر کے انہیں دور کرنے کیساتھ چودھری شجاعت کو قومی کردار ادا کرنے کی بھی دعوت دی جاتی، چودھری پرویز الہیٰ سے پنجاب کے معاملات میں راہنمائی لی جاتی، پنجاب کے معاملات کو بہتر بنانے کے لئے وہ اتنا کچھ کر سکتے ہیں جو پی ٹی آئی کے راہنما سوچ بھی نہیں سکتے، رہ گئی بات نوجوان سیاستدان چودھری مونس الہٰی کی تو وہ اس وقت پنجاب میں سیاسی مخالفین کو خطرہ نظرآتے ہیں کیونکہ وہ ایک طرف چودھری شجاعت حسین، چودھری پرویز الہیٰ کے سیاسی شعور، تجربے اور معاملہ فہمی کے امین ہیں تو دوسری طرف چودھری ظہور الہیٰ کی روایتوں کے پاسبان ہیں۔ موجودہ بگڑے ہوئے سیاسی معاملات کی درستگی کا بہت سا حل چودھریوں کے پاس ہے، وزیر اعظم اپنے ایسے اتحادیوں کو دور کرنے کی بجائے ان سے سیکھیں اور سیاست اسی کو کہتے ہیں۔