سفیر پاکستان ڈاکٹر اسد مجید خان سے سلسلہ کلام جاری تھا اور وہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی عالمی سطح پر مسئلہ کشمیرکو بھرپور انداز میں اجاگرکیا ہے جب کہ امریکا میں پاکستانی سفارت خانہ بھی مقدمہ کشمیر بھرپور انداز میں لڑ رہا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ہم نے اپنا موقف اور بیانیہ بھرپور انداز میں اجاگرکیا ہے۔ میرے مضامین بھی امریکی اخبارات میں شایع ہوئے ہیں، وزیر اعظم سمیت دیگر سرکردہ افراد کے کالمز اور نقطہ نظر امریکی اخبارات کی زینت بنے ہیں۔
دوسرا اہم قدم جو ہم نے اٹھایا وہ یہ تھا کہ امریکی کانگریس کی دوکمیٹیوں جن میں ایک فارن افیئرز، اور دوسری جو ساؤتھ ایشیا کی صورتحال کو دیکھتی ہے، ان کمیٹیوں کے اراکین نے بھارتی کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اس کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کی تجاویز پر تبادلہ خیال ہوا۔ کانگریس مینز نے یہ کہا ہے کہ ان کے حلقے کے عوام نے بھی ان سے انفرادی طور پر رابطہ کرکے مسئلہ کشمیر میں سنگین ترین انسانی حقوق کی پامالی کی جانب ان کی توجہ مبذول کروائی ہے۔
انسانی حقوق کے حوالے سے کمیٹی میں چار ری پبلکن اور چارکانگریس مین سینیٹرز نے صدر ٹرمپ کو ایک لیٹر بھی لکھا۔ جب کہ دوسری جانب پینتیس اراکین کانگریس نے بھی ایک خط لکھا کہ جس میں انھوں نے مطالبہ کیا کہ اس اہم مسئلے کو حل کرانے کے لیے امریکی صدر اور حکومت اپنا کردار ادا کرے۔ ان کیمرہ اجلاس میں مسئلہ کشمیر پر بات ہوئی۔ یو ایس کانگریس میں پہلی بار کشمیریوں کے حق خود ارادیت پر بات ہوئی ہے۔ میری رائے میں اس مختصر ترین عرصے میں کشمیر پر امریکی حکام نے جو فوکس کیا ہے اور سرکاری سطح پر جو توجہ ملی ہے وہ تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ملی۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے افسران نے بھی اس انسانی المیے پر اپنی پریشانی کا اظہارکیا ہے۔
تیسری اہم ترین بات یہ ہے کہ جہاں تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق ہے تو وہ ذاتی طور پر بار بار کشمیر پر ثالثی کی ذاتی طور پر پیشکش کرچکے ہیں۔ یہ حال کی بات نہیں ہے کہ بلکہ سن دوہزار پندرہ میں بھی انھوں نے امریکی صدارتی انتخابی مہم کے دوران یہ بات کہی تھی کہ وہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کو تیار ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر میری خدمات حاضر ہیں۔
جس پر ہندوستان نے اعتراض کیا اور اس پیش کش کو قبول کرنے سے بھی صاف انکارکیا۔ امریکی صدر واضح طور پرکشمیر کو متنازع مسئلہ سمجھتے ہیں، اس لیے وہ ثالثی کرنے کے لیے بھی تیار ہیں اور دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے خطے کی سکیورٹی اور استحکام کے حوالے سے اسے مسئلے کو فلیش پوائنٹ کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ پاکستان اور بھارت دونوں خطے کے اہم ترین ممالک ہیں اور صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہوجائیں، کشیدگی اور تناؤ میں کمی واقع ہو۔
جب ڈاکٹرصاحب کشمیرکی صورتحال کے حوالے سے تین اہم نکات تفصیل سے بیان کرچکے تو میں نے ان سے ایک اور ضمنی سوال کر دیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکل آئے گا؟ تو وہ یوں گویا ہوئے، ہم کشمیریوں کے حوالے سے حق وانصاف کی بات کررہے ہیں، اصول کی بات کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالی کی بات کر رہے ہیں۔ ہم بلند آہنگ میں کشمیریوں کی آوازکیساتھ آواز ملاتے رہیں گے، یہ ایک طویل لڑائی اورجنگ ہے۔ بھارت میں اقلیتوں سے جو زیادتیاں کی جا رہی ہیں، اس کے حوالے سے میرے نزدیک امریکی پالیسی میں بھارت کے حوالے سے تبدیل ہونے کے نمایاں امکانات نظر آرہے ہیں۔
میرا اگلاسوال تھا کہ امریکا افغانستان سے واپسی کے لیے پر تول رہا ہے، امریکی انخلاء کے بعد خطے کی صورتحال کو آپ کیسے دیکھتے ہیں۔ انھوں نے جوابا کہا کہ اگر امریکی افواج کا انخلا افغانستان سے ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں یقینا پاکستان ایک بار پھر متاثر ہوگا۔ افغانستان کا مسئلہ صرف امریکا کے لیے اہم نہیں ہے کہ بلکہ پاکستان کے لیے بھی اتنی اہمیت کا حامل ہے۔
افغانستان کا امن ہماری بھی ضرورت ہے۔ پاکستان تو افغان وار سے براہ راست متاثر ہونے والا ملک ہے یہ سب کچھ ہمارے لیے بھی اہم ہے۔ ہراول دستہ کے طور پر ہم نے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی ہے، دنیا کے تمام ممالک کو ہماری اس جدوجہد کو سمجھنا چاہیے اور ہماری قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔ طالبان اور امریکا کے درمیان مکالمہ جاری رہنا چاہیے جب تک فریقین ایک معاہدے پر متفق نہیں ہوجاتے۔ ہماری حکومت کا نقطہ نظر واضح ہے کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل موجود نہیں ہے، بلکہ مذاکرات ہی واحد ہیں۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ویسے تو امریکا ہر بات ہر معاملے میں آگے ہے، لیکن اتنی سے بات ان کی سمجھ میں نہیں آئی۔
تو انھوں نے جوابا کہا کہ بعض باتیں دیر سے سمجھ میں آتی ہیں، لیکن دیرآئید درست آئید کے مصداق یہ ایک درست بات ہے۔ میں نے کہا کہ سر آپ کی اب تک کی گفتگو کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ بلاشبہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آرہی ہے۔ کیا ہم آنیوالے دنوں میں اس صورتحال کو برقرار رکھ سکیں؟ تو انھوں نے انتہائی متانت سے جواب دیا کہ پاکستان تو چاہتا ہے کہ امریکا ہمیں نئی دلی، افغانستان یا چائنا کے آئینے یا نظر سے نہ دیکھے بلکہ پاکستان کی اپنی جغرافیائی اور سیاسی اہمیت ہے۔
ہمیں بھارت سے تقابلی جائزے کی ضرورت نہیں ہے۔ دراصل پاک امریکا تعاون خطے اور دنیا کے امن اور استحکام کے لیے ضروری ہے۔ میں نے کہا سر یہ تو تفصیلی بات ہوگئی پاک، امریکا تعلقات کی۔ اب میں آپ سے کلائمنٹ چینج کے حوالے سے سوال پوچھنا چاہوں گی کہ دونوں ممالک اس سلسلے میں کس سطح پر کام کر رہے ہیں۔
آپ نے بہت اچھا سوال پوچھا ہے، دراصل ماحولیاتی تبدیلی اس وقت دنیا کا اہم ترین موضوع ہے۔ پاک امریکا تعلقات کی نوعیت ابھی تک تو سیکیورٹی اور اسٹرٹیجک سطح کے معاملات تک رہی ہے لیکن اب نوعیت یکسر تبدیل ہورہی ہے ہم دوسرے مسائل وموضوعات پر بھی باہم گفتگو اور تعاون کررہے ہیں۔ کلائمنٹ چینج کے حوالے سےG-7 کے چند برس پہلے ہونیوالے اجلاس میں پاکستان نے اس مسئلے کو نمایاں نکات کی صورت میں اجاگرکیا تھا۔ اس ضمن میں سابق امریکی صدر باراک اوباما نے زیادہ فعال کردار ادا کیا تھا، موجودہ صورتحال میں ہم امریکا سے ماحولیاتی تبدیلی، کلین ٹیکنالوجی سمیت اوور آل پالیسی پر تبادلہ خیال جاری رکھتے آیندہ کا لائحہ عمل طے کررہے ہیں۔
جب آپ نے امریکا میں پاکستانی سفیرکا عہدہ سنبھالا تو آپ کو ابتداء میں کیا مشکلات درپیش آئیں؟ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ نان اسٹاپ مشکلات درپیش تھیں، دونوں ممالک کے درمیان کافی تناؤ پہلے سے موجود تھا، پھر وزیراعظم عمران خان کا دورہ امریکا جون میں ہونا تھا، اس کی تاریخ اور مہینے آگے بڑھتے رہے، جب سفارتی سطح پر پاک امریکا تعلقات میں بہتری ہوئی تو اچانک بھارت نے کشمیرکو ضم کر کے ایک نیا مسئلہ پیدا کر دیا۔ یہ سارے سفارتی سطح کے چیلنجز تھے جن سے میرا سامنا ہوا اور مجھے اور میری ٹیم کو ان سے نبرد آزما ہونا پڑا۔
میں نے ان سے آخری سوال پوچھا کہ آپ اپنی پروفیشنلزکامیابی کا راز بتا دیں، تو وہ قہقہہ لگاتے ہوئے بولے کہ میرا عرصہ ملازمت جب ختم ہوگا تب ہی پتہ چلے گا۔ اللہ کا شکر ہے تعلقات میں جوکوالٹی چینج آیا ہے یہ کسی بھی ایک فردکا کام نہیں ہوسکتا ہے۔ ڈیفنس اور اکنامک منسٹر یہاں ہیں، حقیقت میں دیکھا جائے توامریکا میں بھی ایک منی پاکستان آباد وشاد ہے۔ دراصل ٹیم ورک بہترین کامیابی کا ضامن ہوتا ہے۔
پاکستانی سفیرسے ہونے والی انتہائی اہم اور معلوماتی گفتگوکے بعد ہم نے خصوصی طور پر ان کا شکریہ ادا کیاکہ انھوں نے اپنی گوناگوں سرکاری مصروفیات میں سے وقت نکال کر بہت اہم گفتگو میرے ساتھ کی، ان خیالات کو میں نے روزنامہ ایکسپریس کے قارئین تک پہنچانے کا اپنا فرض ادا کردیا ہے۔