اپنے والد محترم سے ہمیشہ سنا کرتے تھے کہ سفر وسیلہ ظفر ہے، اب چونکہ وہ حیات نہیں تو ان کی بیشمار باتیں شدت سے یاد آتی ہیں۔ انکی اس بات کی اہمیت کا اندازہ تب ہوا، جب امریکا کے شہر نیویارک میں ایک کانفرنس "Women in Media" کے سلسلے میں جانا ہوا۔ یہ تحریر لکھتے ہوئے بھی میرا سفر تاحال جاری وساری ہے اس دعا کے ساتھ :
تاریخ پھر نئی رقم ہوگی یا کھلے گا باب نیا
دشمن ہے تاک میں اور اپنے ہیں خفا خفا
رحم کر میرے مالک اب تو ہے بس یہی دعا
ملک وقوم کے لیے جو ہو بہترکرشمہ وہ کر دکھا
میرے قابل احترام استاد عزیز احمد جو "Voice of America" میں بطور سینئر پروڈیوسر اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں، تو ان سے ملنا بھی ضروری تھا۔ جب نیویارک پہنچی تو یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ دنیا کے مضبوط اورسیاسی گڑھ واشنگٹن ڈی سی نہ جایا جائے، یہ وہ جگہ ہے جہاں پر مختلف قوموں کی قسمت کے اہم فیصلے کیے جاتے ہیں۔
اس وقت پاکستان اور امریکا کے تعلقات بہترین نہج پر ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم عمران خان دو بار امریکا کا دورہ کر چکے ہیں۔ اسی تناظر میں سفارت کار کی اہمیت وافادیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ سفارتکاری دراصل جدید دنیا میں ایک سائنس کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔ بلاشبہ پاکستان کے لیے بہترین ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے میں امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر اور ان کی پوری ٹیم کا نمایاں کردار ہے۔
اسی پس منظر میں، میں جاننا چاہتی تھی کہ انھوں یہ سب کچھ کیسے سر انجام دیا۔ واشنگٹن ڈی سی پہنچتے ہی میں نے پاکستانی سفارتخانے سے رابطہ کیا کہ آخر سات سمندر پارکا یہ سفر طے کیا ہے، لہٰذا اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میری درخواست کو قبول کیا جائے تاکہ سفیر پاکستان ڈاکٹر اسد محید خان سے تفصیلی گفتگو ہوسکے اور اسے میں اپنے ہم وطنوں سے بھی شیئرکرسکوں۔ میری اس صحافتی آرزوکو پورا کرنے میں پریس اتاشی زوبیہ نے بھرپور تعاون کیا اور اگلے دن میں پاکستانی سفارت خانے کے باہرکھڑی اپنا سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے دیکھ رہی تھی اور اپنے رب کا لاکھ لاکھ شکر ادا کررہی تھی کہ ہم پاکستانی ہیں۔ پریس اتاشی نے خوش آمدید کہتے ہوئے پاکستانی کھانے سے تواضح کی اورکچھ ہی دیر میں ڈاکٹر اسد محید خان سے میری گفتگوکا آغاز ہوا۔
میرا ان سے پہلا سوال تھا کہ امریکا کی تعمیروترقی میں پاکستانی کمیونٹی کیا کردار ادا کر رہی ہے؟ ان کا جواب تھا کہ امریکا میں مقیم کمیونٹی پاک امریکن ریلیشن شپ میں انتہائی اہم کردارکی حامل ہے اور یہ ہمارا بہترین اثاثہ ہے۔ بزنس، ٹیکنالوجی اور میڈیکل کے شعبوں میں پاکستانیوں نے بہت نام پیدا کیا ہے اور امریکی معاشرے میں اپنی صلاحیتیوں کے بل بوتے پرجگہ بنائی ہے۔ امریکی پارلیمنٹ کے بیشتر اراکین کا ذاتی معالج پاکستانی ڈاکٹر ہی ہوتا ہے۔
یہ امریکی نظام کی کشادہ دلی اور خوبصورتی ہے کہ وہ دنیا بھرکے تارکین وطن کو نہ صرف اپنے اندر سمولیتا ہے بلکہ انھیں بطور امریکن قبول بھی کرتا ہے اور ترقی کے یکساں مواقعے بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ واحد ملک ہے کہ جہاں آپ اپنے اصلی وطن کے ساتھ ساتھ، امریکا کے بھی مخلص اورخیر خواہ بن سکتے ہیں۔
امریکا میں مقیم پاکستانیوں کا ایوریج ایجوکیشن لیول اور ایوریج آمدنی کا اشاریہ دوسرے ملکوں کے یہاں مقیم باشندوں سے کافی بلند ہے۔ عموما پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ صرف مزدورکلاس ہی بیرون ملک جاتی ہے، لیکن امریکا میں صورت حال یکسر مختلف ہے، یہاں آنے والے نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ہیں بلکہ وہ اپنے شعبے میں کارہائے نمایاں بھی سر انجام دے رہے ہیں۔
چیریٹی کے عمل کو دیکھیے، ایک فنڈ ریزنگ کی تقریب میں گیا تو ایک رات میں امریکن پاکستانیوں سے 2.4 ملین ڈالرز صرف واشنگٹن میں اکٹھے ہوئے، یہاں لوگ پرعزم ہے۔ ان کا دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ یہاں کے نظام میں ہر ایک کے لیے یکساں مواقعے موجود ہے۔ کئی پاکستانی امریکی صدر سے باسانی مل سکتے ہیں۔
میرا ان سے اگلا سوال تھا کہ یہاں اوورسیز پاکستانیوں کوکن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سفارت خانہ ان کے حل میں کیسے مددگار ثابت ہوتا ہے؟ انھوں نے بتایا کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان ذاتی طور پر اوورسیزپاکستانیوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ میری امریکا میں تعیناتی کے وقت وزیر اعظم صاحب نے مجھے خصوصی طور پر تاکیدکی تھی کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی زندگی کو آسان بنانے میں آپ اپنا کردار ادا کریں، ان کے لیے مشکلات نہیں ہونی چاہییں۔ یہی وجہ ہے کہ کمپلین پورٹل کومیں بذات خود دیکھتا ہوں، بلکہ میں کیا دیکھتا ہوں وزیراعظم خود بھی دیکھتے ہیں۔ کوئی بھی شکایت مقررہ دنوں میں حل نہیں ہوگی تو پھر یہ بات وزرات کی سطح پر چلی جائے گی۔
ایسا خودکارکمپیوٹرائز سسٹم کے تحت ہوتا ہے۔ نیشنلٹی کے حصول کے لیے دی جانے والی دستاویزات کی تصدیق کی ہمیں ضرورت پڑتی ہے، کل ہی میری آئی جی پنجاب سے بات ہو رہی تھی۔ ہم ویب پورٹل کے ذریعے سائل کے کاغذات بھیجیں گے اورجواب مقررہ مدت کے دوران ہمیں موصول ہوجائے گا، اس طرح کرائس ویری فیکشن باسانی ہوسکے گی۔ امریکا میں مقیم پاکستانیوں کی پاورآف اٹارنیز، دستاویزات اور پاسپورٹ کی تصدیق کا معاملہ ہمارا سفارت خانہ دیکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ہم سفارت خانے میں منعقد ہونے والی قومی تقریبات میں امریکا میں مقیم پاکستانیوں کو بھی خصوصی طورپر بلاتے ہیں، جب کہ ہم بھی جاتے ہیں، پاکستانی کمیونٹی کی تقریبات میں، یہاں پر ہمارے چار قونصلیٹ ہیں اورچارہی قونصلر جنرل بھی ہیں۔
وہ اپنے دائرہ کار میں اسی طرح متحرک ہیں۔ میری نظر میں ہماری ڈیلنگ میں ایک پاکستانی کے ساتھ فیئر ہے توکسی بھی قسم کی کوئی شکایت پیدا نہیں ہوگی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ہم جب بات کرتے ہیں، پاک امریکا کی تعلقات کی تو اس وقت ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا امریکا اب بھی" ڈومور"کی گردان کر رہا ہے؟ میرا سوال غور سے سننے کے بعد وہ ایک دلنشین مسکراہٹ کے ساتھ یوں گویا ہوئے کہ اس وقت پاک امریکا تعلقات بہت زیادہ بہتری آئی ہے اور یہ درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ سفارتی سطح پر دیکھیں تو ہماری ورکنگ ریلیشن شپ بہت بہتر ہوگئی ہے، اب تک مختصر ترین عرصے میں دو اہم ترین ملاقاتیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے درمیان ہوچکی ہیں۔
دونوں کی بہت اچھی کیمسٹری بنی ہے، آپس میں ٹیلی فونک رابطے بھی ہوئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاک امریکا تعلقات میں ایک نیا موڑ آیا ہے، اس بار لیڈرشپ کی سطح پر باہمی تعاون اور تبدیلی دیکھنے میں نظر آرہی ہے۔ گزشتہ ایک برس سے آفیشل سطح پرکوئی منفی کمنٹ ٹویٹر پر صدرڈونلڈ ٹرمپ کا نہیں آیا ہے، پاکستان کے بارے میں۔ آخری بار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں قید امریکیوں کی رہائی کے حوالے سے پاکستان کے کردارکی تعریف اور افغان جنگ میں تعاون کے حوالے ہماری کوششوں کو سراہا تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ سفارتی سطح پر پاک امریکا تعلقات میں سفارتی وفود کی آمد سے تعلقات مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوارہو رہے ہیں، یعنی پاکستان اور امریکا کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ دن بدن بہتر ہورہی ہے، دونوں اطراف، باہمی تعاون بڑھ رہا ہے، جس کے مثبت اثرات نمودارہونا شروع ہوچکے ہیں۔ وہ انتہائی روانی سے گفتگوکیے جا رہے تھے اور ان کے لب ولہجے میں ایک عزم جھلک رہا تھا، لیکن میں نے درمیان میں ان سے ایک اور سوال کر دیا کہ سر، بھارت نے اچانک کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے ضم کرنے کا اعلان کردیا، تو اس صورتحال کو امریکی حکومت کس نظر سے دیکھ رہی ہے؟ جوابا انھوں نے کہا کہ آپ کا سوال بہت ہی زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور بروقت پوچھا گیا ہے۔ مسئلہ کشمیرکو امریکا میں اجاگر کرنے اور رائے عامہ کوکشمیریوں کے حق میں ہموارکرنے کے لیے ہمیں اس مسئلے کو تین سطحوں پر دیکھنا ہوگا۔
پہلا امریکا میں گراؤنڈ پر مسئلہ کشمیرکا بیانیہ کیا ہے۔ پالیسی اسپیس حاصل کرنے اور ان کا اس ایشو پر تصور بدلنے کا جو پیمانہ ہے وہ میڈیا کی اسٹوری لائن ہے۔ پانچ اگست سے لے کر آج کے دن تک امریکی ذرائع ابلاغ جس میں الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا شامل ہیں، مسئلہ کشمیر اہم موضوع قرار پایا ہے۔ ان گنت اخبارات وجرائد نے اپنے ایڈیٹوریل میں مسئلہ کشمیرکے حوالے سے بھارت کے تازہ ترین اقدامات پر کھل کر تنقیدکی ہے اور تمام امریکی اخبارات نے اب تک 566 اسٹوریز شائع کرتے ہوئے کشمیریوں کے محاصرے اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کا احوال بھی بیان کیا ہے۔ (جاری ہے)