وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قومی اسمبلی میں کہا کہ پیپلز پارٹی وفاقی پارٹی تھی جس سے اب صوبائی تعصب کی بو آ رہی ہے اور سندھ حکومت اب سندھ کارڈ استعمال کرکے قوم کو گمراہ کر رہی ہے اب سندھ نہیں صرف پاکستان کارڈ چلے گا۔ قومی اسمبلی کا یہ اجلاس کورونا کے عالمی مسئلے پر غور کے لیے بلایا گیا تھا جہاں باہمی الزام تراشی کا موقع نہیں تھا جس پر سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف نے شاہ محمود قریشی کی طرف سے سندھ کارڈ کی بات کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ موقعہ ایسی بات کرنے کا نہیں ہے۔
سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے جواب میں کہا کہ تعصب کی بو وفاق سے آ رہی ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان تین صوبوں کا دورہ کرتے ہیں مگر سندھ نہیں آتے۔ بلاول زرداری نے بھی وزیر خارجہ کے سندھ کارڈ کی بات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی مذمت کی ہے اور الفاظ واپس لینے یا مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
شاہ محمود قریشی ماضی میں پی پی کے بھی وزیر اور اہم رہنما رہے ہیں جن کا سندھ کی سیاست سے یہ تعلق رہا ہے کہ وہ سندھ میں ہمیشہ الیکشن ہارے ہیں اور ان کے مریدوں کی تعداد ضرور سندھ میں موجود ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ سندھ میں سندھ کارڈ کافی پہلے سے استعمال ہو رہا ہے۔ یہ سلسلہ تو بھٹو دور میں کوٹہ سسٹم قائم کرکے ہی شروع کردیا گیا تھا جس کے بعد غیر آئینی طور پر سندھ میں کوٹہ سسٹم آج بھی موجود ہے اور سندھ چار عشروں سے دیہی اور شہری سندھ کے طور پر تقسیم ہے اور سندھ میں پی پی کی 12 سالہ حکومت کے بعد سندھ کے بعد اب کراچی کو بھی اب دیہی اور شہری میں بلدیاتی طور پر تقسیم کیا جاچکا ہے اور پہلی بار پیپلز پارٹی کو دیہی سندھ سے سب سے زیادہ نشستیں 2018 میں ملیں۔
جو پی پی کے سندھ کارڈ سے ہی ممکن ہوئیں۔ سندھی اب بھی پیپلز پارٹی پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔ دیہی سندھ میں بھٹو دور سے قبل کی ناانصافیوں کے خاتمے کے لیے دس سال کے لیے کوٹہ سسٹم نافذ کیا گیا تھا جو 45 سال بعد اب بھی قائم ہے جسے اگر سندھ کارڈ کہا جا رہا ہے تو اس کی ذمے دار صرف پیپلز پارٹی نہیں ماضی کی تمام وفاقی حکومتیں ہیں جنھوں نے مقررہ مدت کے بعد بھی غیر قانونی طور پر سندھ میں کوٹہ سسٹم برقرار رکھا ہوا ہے۔
ایم کیو ایم بھی جنرل ضیا الحق کے دور میں کوٹہ سسٹم میں ہونے والی ناانصافیوں کی بنیاد پر بنائی گئی تھی کہ سندھ میں اردو بولنے والوں کے ساتھ سرکاری معاملات اور ملازمتوں میں ناانصافی ہو رہی ہے۔ ایم کیو ایم پر الزام ہے کہ انھوں نے سندھ میں لسانی سیاست کو فروغ دیا اور اپنی سیاست چمکائی اور مالی مفادات اٹھائے۔ ایم کیو ایم کے مخالفین کے ان الزامات میں سچائی بھی ہے مگر یہ بھی غلط نہیں کہ ایم کیو ایم تین عشروں سے اسمبلیوں میں بھی اور ماضی کی تمام حکومتوں میں شامل رہی مگر کوٹہ سسٹم ختم کرا سکی نہ اپنے حامیوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں میں کمی لاسکی۔ سندھ کے کوٹہ سسٹم میں دیہی سندھ کے لیے ساٹھ فیصد اور شہری علاقوں کے لیے چالیس فیصد حصہ مقرر تھا مگر پی پی کی حکومت نے کبھی اس پر ایمانداری سے عمل نہیں ہونے دیا۔
سندھ میں پبلک سروس کمیشن نے دیہی سندھ والوں کو شہری علاقوں کے ڈومیسائل پر مکمل فائدے پہنچائے اور ایم کیو ایم والے بھتہ خوری، ایک دوسرے سے لڑنے، حکومتوں میں آ کر صرف اپنے کارکنوں کو مفت میں ملازمتیں دینے اور سرکاری وسائل سے مالی و دیگر فوائد اٹھانے میں مصروف رہے اور ان کی ان کمزوریوں سے پیپلز پارٹی سمیت تمام حکومتوں نے فائدہ اٹھایا۔ ایم کیو ایم کی طرف سے آئے دن شہری علاقوں پر مشتمل ایک نئے صوبے کی بات اس لیے کی جاتی ہے کہ نئے صوبے سے ہی ناانصافیاں ختم ہو سکیں گی مگر کوئی پارٹی اس سلسلے میں ایم کیو ایم کے اس مطالبے کی حمایت نہیں کرتی اور پیپلز پارٹی تو نئے صوبے کی بات پر ہی انتہائی برہم ہوجاتی ہے۔
ملک میں ناانصافیوں کے باعث صرف سندھ سے نہیں بلکہ پنجاب اور کے پی کے سے بھی نئے صوبوں کے مطالبے ہو رہے ہیں اور اس سلسلے میں وجوہات درست بھی ہیں مگر ان جائز وجوہات کو ختم کرنے کی کوئی حکومت اور پارٹیاں بات نہیں کرتیں اور ہر بڑی جماعت اپنا اپنا سیاسی مفاد دیکھتی ہے۔ پی پی کے رہنما سندھ کی تقسیم کے مخالف اور پنجاب کی تقسیم چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی پنجاب کے تقسیم کے حامی مگر ہزارہ صوبے کی مخالف ہے۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں ایک نہیں دو صوبوں کی قرارداد منظور کرا چکی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان چاہیں تو ایک ایگزیکٹیو آرڈر سے گلگت بلتستان کی طرح جنوبی پنجاب صوبہ بنا سکتے ہیں مگر نہیں بنائیں گے کیونکہ تمام جماعتیں پاکستان سے نہیں اپنے اپنے سیاسی مفاد سے مخلص ہیں اور صوبائیت کی باتیں کرکے اپنی سیاست چمکا رہی ہیں۔ پاکستان کارڈ کی بات بھی وزیر خارجہ نے پی پی کی سیاسی مخالفت میں کی ہے۔ پی پی میں رہتے ہوئے تو انھیں سندھ کارڈ کبھی نظر نہیں آیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ڈاکٹر مصدق ملک کا کہنا درست ہے کہ یہ ملک کسی قوم کا نہیں پاکستانیوں کا ہے مگر وہ پاکستانی ہیں کہاں؟ یہاں سب تقسیم ہیں۔ پاکستانیوں کا لفظ صرف عمران خان کی تقریروں میں سنا گیا، انھوں نے بھی نئے پاکستان کی ہمیشہ بات کی مگرکوئی عملی اقدام نہیں کیا۔ ہم 73 سالوں میں سب کچھ بن گئے مگر پاکستانی نہ بن سکے تو پاکستان کارڈ کیسا۔