پاکستان عالمی منظر نامہ میں اہم بھی ہے اور تنہا بھی۔ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں امریکا کے حوالے سے جو بیان دیے ہیں، ان سے تو تعلقات خراب ہونے کا تاثر ملتا ہے۔ زبان زد عام ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے جب سے امریکی صدارت کا منصب سنبھالا ہے وہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ بات کرنے سے اجتناب کر رہے ہیں۔
اب بھی جب افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کا موقع تھا، دونوں ملکوں کے سربراہا ن کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہو سکا۔ وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ امریکا کو فضائی اڈے نہیں دیے جائیں گے، قومی سلامتی کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ امریکا کویہ سہولت حاصل رہے گی۔ ویسے تو یہ بات بھی سامنے آگئی ہے کہ امریکا نے ا ڈ ے مانگے ہی نہیں، اس لیے نہ دینے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ویسے بھی اگر امریکا افغانستان میں شکست کھا کر نہیں نکل رہا، امریکا افغانستان میں اڈے اپنی مرضی سے چھوڑ رہا ہے۔
اس لیے افغانستان سے اڈے چھوڑ کر پاکستان میں بنانے کی کوئی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔ برطانیہ سے بھی تعلقات اچھے نظر نہیں آرہے ہیں۔ وزیر اعظم کا دورہ برطانیہ طے ہونے کے بعد منسوخ ہوا ہے۔ جو سفارتی سطح پر کوئی اچھا شگون نہیں سمجھا جاتا۔ ویسے بھی عمران خان نے جب سے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے وہ برطانیہ نہیں گئے ہیں اور اب دورہ طے ہو کر منسوخ ہونا معنی خیز ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کے ساتھ ایجنڈے اور دیگر اہم امور پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ جس کے بعد دورہ منسوخ ہو گیا۔ عمران خان کے دور وزارت عظمیٰ میں تو برطانیہ کے ساتھ بہترین تعلقات ہونا چاہیے تھے۔ یورپی یونین کے ساتھ تعلقات بھی خوش کن نظر نہیں آرہے ہیں۔ یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی نہ ہونا ہی فیٹف میں مشکلات کی بنیادی وجہ ہے۔
مغرب اور امریکا کے ساتھ تعلقات میں سردمہری کے بعد اب ہم دوبارہ چین کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ ہم نے پہلے چین کو ناراض کیا ہے۔ تا ہم اب ہمیں دوبارہ چین کی یاد آئی ہے۔ اب ہمیں دوبارہ یہ بات سمجھ آئی ہے کہ سی پیک ہی ہماری واحد آپشن ہے۔ لیکن کیا ہمیں انداذہ ہے کہ موجودہ حکومت کے تین سال چین کے ساتھ تعلقات میں سست روی کے تین سال رہے ہیں۔ فی الحال چین کی جانب سے گرمجوشی نظر نہیں آرہی۔ کوئی بڑے منصوبے سامنے نہیں آرہے۔ کوئی بڑی سرمایہ کاری بھی سامنے نظر نہیں آرہی ہے۔ ایک جمود نظر آرہا ہے۔
یہ درست ہے کہ ہم نے بہت مشکل سے سعودی عرب سے ناراضی ختم کی ہے۔ ہمارے بعض فیصلوں کی وجہ سے ہی پاک سعودی تعلقات میں سست روی دیکھنے میں آئی تھی۔ ہم نے بلاسوچے سمجھے ایسے اتحاد کی حمایت شروع کی جو سعودی عرب اور دیگر خلیجی عرب ریاستوں کو قبول نہیں تھا۔ ہم نے ملائیشیا کانفرنس کی بنیاد رکھی اور پھر جا بھی نہیں سکے۔ ہم نہ دوسری طرف جا سکے اور نہ ہی عربوں کو ساتھ رکھ سکے۔ سعودی عرب کی ناراضگی کوئی خفیہ نہیں تھی۔ انھوں نے اس کا برملا اظہار کیا۔ عسکری قیادت نے اس کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ درست ہے کہ پہلے سعودی عرب نے اپنی دی ہوئی مدد واپس مانگ لی تھی اب دوبارہ ادھار تیل دینے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ اگر ادھار تیل ملنا ہی اچھے تعلقات کی نشانی ہے تو ٹھیک ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ ابھی برف پگلی ضرور ہے لیکن ختم نہیں ہوئی ہے۔ باقی عرب ممالک کے ساتھ تعلقات بھی ایسے ہی نظر آرہے ہیں۔ روس کے ساتھ تعلقات میں بھی بہتری نظر آئی ہے لیکن ابھی کوئی بڑا بریک تھرو نظر نہیں آیا ہے۔ اس کے لیے یہاں ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی عالمی سطح پر اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہے لیکن پھر بھی ہم عالمی سطح پر تنہا کیوں نظر آرہے ہیں۔ کیا ہم کوئی واضح خارجہ پالیسی بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ ہم دنیا کو اپنی بات سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی ہم د نیا کی بات سمجھنے کے لیے تیار ہیں۔ موجودہ صورتحال کوئی اچھی نظر نہیں آرہی۔ اس لیے حکومت کو حالات کو سمجھنا چاہیے۔