Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Aik Banker Se Mukalma

Aik Banker Se Mukalma

پاکستان میں بینک نجی شعبہ کی ملکیت میں ہونے چاہییں کہ سرکاری ملکیت میں۔ یہ سوال آج تک حل طلب ہے۔ ایک دور سرکاری ملکیت میں بڑے بڑے بینکوں کی نجکاری کی گئی تا ہم بعد میں ہم نے دیکھا کہ تمام صوبائی حکومتوں کو بینکوں کے لائسنس جاری کیے گئے۔

اس طرح پاکستان کی تمام صوبائی حکومتوں کے پاس اپنے اپنے صوبائی ناموں سے بینک موجود ہیں۔ ان بینکوں کی کارکردگی کے حوالے سے سوالات رہتے ہیں۔ دوبارہ سرکار کی ملکیت میں بینک چلانے کا تجربہ کتنا کامیاب جا رہا ہے، سب ہی اس سوال کاجواب جاننا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں گزشتہ دونوں بینک آف پنجاب کے سی ای او ظفر مسعود سے مختلف امور پر گفتگو کے حوالے سے ایک طویل نشست ہوئی۔

ظفر مسعود کراچی جہاز کریشن میں زندہ بچ جانے والے خوش نصیب ہیں۔ اب ہم سب انھیں اسی حوالے سے جانتے ہیں۔ انھیں پاکستان میں ایک خوش نصیب شخص کے طور پر ہی جانا پہچانا جاتاہے جنھیں رب ذوالجلال نے دوسری زندگی دی ہے۔ ان کے ہم سفر زندہ نہ بچ سکے تا ہم قدرت نے ان کے لیے ایک نئی زندگی لکھی ہوئی تھی۔ اس طیارے حادثہ کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔

اس لیے میں نے ملتے ہی ظفر مسعود کو نئی زندگی کی پہلی سالگرہ کی مبارک دی۔ انھوں نے جواب دیا، "آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، میں بھی سمجھتا ہوں کہ میری پہلی زندگی اس حادثہ والے دن ختم ہو گئی تھی، اوراﷲ نے مجھے اسی روز ایک نئی زندگی دی، اس نئی زندگی کی یہ پہلی سالگرہ ہے۔ ظفر مسعود اب بھی چلنے کے لیے چھڑی استعمال کرتے ہیں اور وہ اپنا علاج کرارہے ہیں۔ چند دن تک ان کا ایک اور آپریشن ہونا ہے۔ تا ہم انھوں نے معمول کی زندگی شروع کر دی ہے۔

میں نے ظفر مسعود سے پوچھا کہ بینک سیٹھ کے پاس بہتر ہے کہ سرکار کے پاس۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے، دونوں کے پاس ہی ٹھیک ہے۔ ہمیں بینکوں کو ٹھیک کام کرنے کے لیے ریگولیٹر ٹھیک کرنے ہوں گے۔ نجی بینکوں میں مسائل سامنے آئے ہیں اور سرکار کے بینکوں میں بھی مسائل سامنے آئے ہیں۔

اگر ریگولیٹ کرنے کا نظام ٹھیک ہو تو سرکاری اور نجی دونوں طرز کے بینک ٹھیک چل سکتے ہیں۔ اگر ریگولیٹر ٹھیک نہ ہو تو دونوں کے ڈوبنے کے برابر امکانات رہتے ہیں۔ میں نے کہا، سیٹھ گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔ انھوں نے جواب دیا کہ کاروبار صرف گھاٹے کے سودے سے بچنے کا ہی نام نہیں ہے۔ کبھی کبھی آج کا گھاٹا کل کا منافع بھی بن جاتا ہے۔ بینکوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔

ظفر مسعود کو لکھنے کا بھی شوق ہے اور وہ شاعری بھی کرتے ہیں۔ ان کے خاندان نے جہاں بڑے بڑے صحافی بھی پیدا کیے ہیں۔ وہاں ان کے خاندان نے جون ایلیا جیسے شاعر بھی پیدا کیے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کی معیشت پر اخبارات میں بہت سے مضامین لکھے ہیں۔ وہ سرکار کی نوکری کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے معاشی معاملات پر بے لاگ تبصرے بھی کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں بغاوت بھی نمایاں ہے۔ ان کی ایک نظم کا شعر ہے۔

کو ئی ہے جو علم بغاوت کو سہارا دے

اور جو ظالم و جابر کے وجود کو للکارے

کوئی ہے جو اس دیار ظلمت

اور جو زندان ستم شعار سے بیدار گر کو للکارے

یہ اشعار بتاتے ہیں کہ ظفر مسعود مزاحمت اور بغاوت کے شاعر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے اس باغی کو اپنے پروفیشن کی راہ میں آنے نہیں دیا۔ ظفر مسعود نے گزشتہ سال اپنے ایک مضمون جو ایک انگریزی روزنامہ میں شایع ہوا میں لکھا ہے کہ پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ محتاط طریقہ سے چلنے کی ضرورت ہے۔

Stockholm Syndrome کے عنوان سے شایع ہونے والے اس مضمون میں ظفر مسعود نے ہمیں مالیاتی اداروں کے عشق اور رومانس سے باز رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ ان کے ساتھ کام کرنے کے حق میں ہیں لیکن ان سے ڈکٹیشن لینے کے حق میں نہیں ہیں۔ یہ ادارے اپنے اپنے نسخوں کے تحت پاکستان کے معاشی مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو درست نہیں ہے۔ صرف ہم خود ہی اپنے معاشی مسائل کا حل کر سکتے ہیں۔

ظفر مسعود ملک میں کاروبار کی ترقی کے لیے بگ فائیو تھیوری بھی پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ملک میں کاروبار کو درست سمت میں چلانے کے لیے پانچ بڑے ریگولیٹر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی، نیپرا، اوگرا، اور ایف بی آر شامل ہیں۔ ان کے مطابق اگر یہ پانچ ریگولیٹر ٹھیک کام کرنا شروع کر دیں تو ملک کا کاروباری ڈھانچہ اور نظام خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ اسٹیٹ بینک ٹھیک ہوگاتو بینکنگ اور دیگر مالیاتی ادارے ٹھیک ہو جائیں گے۔ ایس ای سی پی ٹھیک ہو گا تو تمام کمپنیوں کے اندرونی نظام ٹھیک ہو گا۔

سب اپنی اپنی کمپنیاں ٹھیک چلانے پر مجبورہوں گے۔ نیپرا اور اوگرا کے ٹھیک ہونے سے توانائی اور تیل کے شعبے ٹھیک ہو جائیں گے۔ اور ایف بی آر ٹھیک ہونے سے ٹیکس کا نظام ٹھیک ہو جائے گا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے معاشی مسائل اور معاشی ترقی کا حل اس بگ فائیو تھیوری میں موجود ہے۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن پاکستان کے بینک پاکستان کی زرعی معیشت میں اس طرح حصہ نہیں ڈال رہے ہیں۔ جس طرح انھیں ڈالنا چاہیے۔ ظفر صاحب خیال ہے کہ جب تک ہم فصلوں کی انشورنس کا مربوط نظام نہیں بنائیں گے بینک آگے نہیں آسکتے۔ ہمیں کسان کی فصل کو انشورنس کا نظام بنانا چاہیے۔ یہ ہماری زراعت میں معاشی انقلاب لے آئے گا۔ بینک بھی آگے آئیں گے۔ اور بینک خود کو محفوظ بھی سمجھیں گے۔

میں نے سوال کیا کہ اس وقت ملک کے چاروں صوبوں کے پاس بینک ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ صوبائی بینکنگ کا آئیڈیا کوئی خا ص کامیاب نظر نہیں آرہا۔ کاروباری لوگ تو ایسے بینک کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں جن کا نیٹ ورک پورے ملک میں موجود ہو۔

مجھے بتایا گیا کہ ان بینکوں کے نام تو صوبوں پر ہیں لیکن ان کے لائسنس قومی ہیں۔ ان کو پورے ملک میں کام کرنے بھر پور آزادی ہے۔ اس ضمن میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ لیکن اس طرف کام کم ہوا ہے۔ تمام صوبائی بینکوں نے اپنے صوبے سے باہر برانچیں بنا رکھی ہیں، البتہ ان کی تعداد بہت کم ہے۔ اسی لیے پنجاب بینک آیندہ چند سال میں کراچی میں ستر سے زائد مزید برانچیں کھولنے کی پلاننگ کر رہا ہے۔

بینکوں کے طرز عمل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب کلائنٹ خوشحال ہوں، انھیں پیسوں کی اشد ضرورت نہیں ہوتی، تب بینک قرض اسکمیں شروع کر دیتے ہیں۔ جب بینک کو پتہ چل جائے کہ آپ شدید مالی مشکل میں ہیں تو بینک آپ کے لیے دروازے بند کر دیتا ہے۔

ظفر مسعود مسکرائے اور پھر قہقہ لگاتے ہوئے بولے، بات تو سچ ہے۔ لیکن اس نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں رئیل اسٹیٹ میں گھروں کے قرضے سستے کرنا ہوں گے۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ کے تحت واقعی سستے قرضے دیے جا رہے ہیں۔ اب بینک ان لوگوں کو بھی قرض دینے کی کوشش کر رہے ہیں جن پر پہلے بینکوں کے دروازے بند تھے۔