پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں گزشتہ کئی ہفتوں سے ایک نئی سیاسی پارٹی بننے کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ الیکٹیبلز کے ڈرائنگ رومز میں یہ بات عام ہو رہی ہے کہ ایک نئی سیاسی جماعت بننے جا رہی ہے۔ ویسے نئی سیاسی جماعت کا منظر عام پر آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔
2018کے انتخابات میں تحریک انصاف کی جیت کے بعد ہی بااثر حلقوں میں سوچ بچار شروع ہو گیا تھا کہ ملک کو ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی یقیناً آگاہ ہوں گے۔ بہرحال نئی پارٹی کا قیام موخر ہوتا رہا ہے لیکن اب دوبارہ اس ممکنہ نئی سیاسی جماعت کے قیام کی سرگوشیاں سننے میں آرہی ہیں۔
ایک مکتبہ فکر کا خیال ہے کہ پاکستان میں شفاف انتخابات کے لیے ایسی دو سیاسی جماعتوں کا ہونا ضروری ہے جن کے درمیان فکری اور مفادات کی ہم آہنگی ہو۔ ابھی تو یہ صورتحال ہے کہ ہر الیکشن میں ایک جماعت پسندیدہ درجہ حاصل کر لیتی ہے جب کہ باقی جماعتیں ناپسندیدگی کے دائرے میں آجاتی ہیں۔ اس طرح ساری طاقت پسندیدہ سیاسی جماعت کو جتوانے اور ناپسندیدہ سیاسی جماعتوں کو ہرانے میں لگ جاتی ہے۔ اس کوشش میں انتخابی عمل بھی آلودہ ہو جاتا ہے۔ انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھنے لگ جاتے ہیں اور ملک کی عمومی فضا بھی خراب ہوتی ہے۔
سیاسی استحکام بھی نہیں آتا۔ آپ دیکھیں ہر دفعہ نیا طریقہ آزمایا جاتا ہے۔ کبھی آر اوز کے الیکشن، کبھی آر ٹی ایس کی خرابی، کبھی کسی طرح اور کبھی کسی طرح لیکن ہر دفعہ پسندیدہ جماعت کو جتوانے اور باقیوں کوہرانے کے لیے نئے سے نئے طریقے ایجاد کرنے پڑتے ہیں۔ بااثر شخصیات کی وفاداریاں بھی تبدیل کرانی پڑتی ہیں۔ جس سے عام آدمی کو بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کہ اقتدار کس کو ملنے والا ہے اور کس سے جانے والا ہے۔
اس لیے اگر اس ملک میں شفاف انتخابات کرانے ہیں تو دو جماعتیں پسندیدہ ہونی چاہیے۔ تاکہ جیت ہار سے فرق نہ پڑے۔ اس طرح اقتدار کے اسٹیک ہولڈرز جیت ہار سے لا تعلق ہو جائیں گے اور ملک آرام سے ترقی کر سکے گا۔ دونوں جماعتیں جم کر ایک دوسرے کے خلاف انتخاب لڑیں اور پھر انتخابی نتائج بھی تسلیم کریں۔ یوں ملک میں جمہوریت بھی مضبوط ہو گی اور سیاسی استحکام بھی آئے گا۔ ویسے پہلی کنگز پارٹی کو یہ کبھی قابل قبول نہیں رہا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی نئی کنگز پارٹی بنائی جائے۔ یہ تو سوتن لانے والی بات ہوگئی۔ کون اپنے اوپر پیار سے سوتن لانے دیتا ہے۔ پھر سوتن نے بھی تو اقتدار میں آنا ہے۔
اس لیے پہلی کنگز پارٹی نئی کنگز پارٹی کو دوست اور حلیف ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتی۔ اب ایک بار پھر نئی سیاسی جماعت بننے کی باتیں ہورہی ہیں بلکہ بعض احباب یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ایک نئی کنگز پارٹی بنانے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ ویسے تو ایسے فیصلے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں تاہم بوجوہ وہ عملی شکل اختیار نہ کرسکے۔
لیکن "دوست" بتاتے ہیں کہ اس بار صورتحال مختلف ہوگی۔ کہا جا رہا ہے کہ ممکنہ نئی سیاسی جماعت کی قیادت کے لیے دو تین ناموں میں جب ایک نام طے ہوجائے گا تو بگل بج جائے گا۔ ویسے تو دوست بتاتے ہیں گزشتہ انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن سے سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کا عمل بھی مکمل ہو گیا تھا۔ لیکن پھر نہ نجانے کیوں معاملہ رک گیا۔ ورنہ پارٹی لانچ ہونے کی تیاریاں مکمل تھیں۔ ان ناموں کا پتہ چل گیا تھا جنھوں نے شامل ہو کر نوزائیدہ جماعت کو فرسٹ فلائٹ دینی تھی۔
ایک سوچ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے تمام دیہی حلقوں میں دو روایتی حریفوں کے درمیان انتخابی دنگل ہوتا ہے۔ یہ دونوں حریف کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کے خلاف انتخاب لڑ رہے ہیں۔ لوگ بھی ان دو گروپس میں تقسیم ہیں۔ یہ درست ہے کہ پارٹیوں کا بھی ووٹ بینک ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتیں بااثر دھڑوں کو ٹکٹ دیے بغیر الیکشن نہیں جیت سکتیں۔
اس لیے ان میں سے جب ایک دھڑا کنگز پارٹی میں آجاتا ہے تو دوسر ے کی مجبوری بن جاتی ہے کہ وہ ناپسندیدہ جماعت میں چلا جائے۔ حالانکہ ناپسندیدہ جماعت بھی کنگز پارٹی ہی ہوتی ہے۔ اب اگر دونوں ہی دوست بن جائیں تو سیاسی دھڑوں کی لڑائی بھی ختم ہو جائے گی۔ کوئی بھی جیتے کیا فرق پڑتا ہے۔ دونوں آرام سے شفاف طریقہ سے ایک دوسرے کے خلاف انتخاب لڑیں۔
میں نے یہ ساری کہانی بیان کرنے والے دوست سے سوال کیا کہ پھر ووٹ بینک کہاں سے آئے گا۔ اور پہلے سے موجود سیاسی جماعتوں کا کیا ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس میں ایک نہیں بلکہ ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت نا اہل ہو سکتی ہے۔
یوں نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ جیسے تحریک انصاف کے اندر سے ترین گروپ نکل رہا ہے۔ اب اگر تحریک انصاف بطور سیاسی جماعت نا اہل ہو جاتی ہے تو ترین گروپ نے کسی نہ کسی سیاسی جماعت میں جانا ہے، اسی طرح ن لیگ نا اہل ہوگی تو ان کے لوگوں کو بھی کسی نئی سیاسی جماعت میں جانا ہوگا۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے لوگ بھی جائیں گے، یوں ان سب کے پاس نئی پارٹیوں میں جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچے گا۔ اورپھر الیکشن بھی سر پر ہوں گے تواور کوئی حل ہی نہیں ہوگا۔ اور کسی کے پاس انتخابی نشان ہی نہیں ہوگا۔
میں نے کہا بات سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ دوست مسکرائے اور کہنے لگے کہ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ آپ دیکھیں ق لیگ بنی اور وہ الیکشن بھی جیت ہی گئی تھی۔ ملت پارٹی کا کونسا ووٹ بینک تھا، وہ بھی سیٹیں جیت گئی تھی۔ ان باپ پارٹی کا کونسا ووٹ بینک ہے وہ بھی جیتے ہیں۔ اس لیے اس سوچ میں بھی کوئی وزن نہیں کہ جیتنے کے لیے ووٹ بینک ناگزیر ہے۔
بہر حال پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں آجکل کئی رنگ نظر آرہے ہیں۔ سیاسی ڈرائنگ رومز میں گفتگو ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی نئی پارٹی سامنے آنے والی ہے؟ تحریک انصاف، مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کا کیا سیاسی مستقبل ہے؟ بہت سے سوالات ایسے ہیں جن کے جواب ابھی کسی کے پاس نہیں ہیں۔ سب اندازے لگا رہے ہیں۔ سب کا اپنا اپنا تجزیہ ہے۔ موجودہ سیاسی کھیل کیا شکل اختیار کرے گا، یہ جاننے کے لیے انتظار تو کرنا پڑے گا۔