سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ کو خرابی صحت کی بنا پر جیل سے اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ ان کی گرفتاری پر تحریک انصاف شدید احتجاج کررہی ہے اور اسے انتقامی کارروائی قرار دے رہی ہے۔ ادھر سندھ حکومت کا موقف ہے کہ حلیم عادل شیخ اسلحہ لے کر ضمنی انتخاب کے دوران پولنگ اسٹیشن پہنچ گئے جس پر قانون حرکت میں آیا اور انھیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
جہاں تک حلیم عادل شیخ کی حوالات میں سانپ آنے یا ان پر تشدد کرنے کی خبروں کا تعلق ہے تو ان کی حقیقت کا پتہ تو تحقیقات سے ہی چل سکتا ہے لہٰذا میں اس پر کوئی رائے نہیں دے سکتا تاہم مجھے لگتا ہے کہ شاید سندھ حکومت کے لیے ایسا کرنا ممکن نہ ہو کیونکہ اب سوشل میڈیا کا دور ہے، دوسرا اب کوئی سرکاری ملازم ایسا کرنے سے ڈرتاہے۔ انھیں پتہ ہے کہ نواز دور کے کئی افسر خوار ہوچکے ہیں۔ یہ میرا ذاتی تجزیہ ہے، بہرحال سندھ حکومت کو اس کی تحقیق کرنی چاہیے تاکہ سچ سامنے آسکے۔ ویسے مجھے نہیں لگتا کہ موجودہ دور میں کوئی حکومت اپنے قائد حزب اختلاف پر حوالات اور جیل میں تشد د کر سکتی ہے؟ کیونکہ سیاسی طور پر وہ اس کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت اپنی اپوزیشن کے خلاف پر تشدد رویہ رکھتی ہے۔ اپوزیشن کو دن رات برا بھلا کہا جاتا ہے۔ اس کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت میں اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو پولیس تحویل میں تشدد کا نشانہ بنائے۔ اپوزیشن نے بھی تحریک انصاف پر انتقامی کارروائی کے بہت سے الزامات لگائے ہیں لیکن سرکاری تحویل میں تشدد کا الزام نہیں لگایا کیونکہ سب کو اندازہ ہے کہ یہ اب ممکن نہیں۔
اب تو پولیس شہروں میں عام مجرم پر تشدد اور تھرڈ ڈگری استعمال کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچتی ہے۔ سیاسی قیادت پر تشدد اور ان پر تھرڈ ڈگری کا استعمال کون کر سکتا ہے کیونکہ ہر پولیس افسر کو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ محترم سیاسی لیڈر کسی بھی وقت پلٹی کھا کر اقتدار میں آسکتے ہیں۔ اس لیے عمومی طورپر پولیس افسران اور اہلکار ان کے ساتھ عزت و احترام سے ہی پیش آتے ہیں۔
محترم حلیم عادل شیخ ایک دن کے اندر ہی جیل سے اسپتال پہنچ گئے ہیں۔ انھوں نے سندھ حکومت کو ایک درخواست دی اور انھیں وی آئی پی طریقہ سے منتقل کر دیا گیا ہے۔ جیل میں ان کی ویل چیئر پر بیٹھے کی تصویر بھی میڈیا کو جاری کی گئی ہے، جس میں وہ واقعی بیمارنظر آتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اﷲ انھیں صحت وتندرستی عطا فرمائے۔
ویسے یہ حقیقت ہے کہ ہمارے سیاستدان ہی نہیں بلکہ اثر و رسوخ کا حامل ہر شہری جیل میں جا کر بیمار ہو جاتا ہے اور اس کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اسے جیل سے اسپتال منتقل کر دیا جائے۔ فرض کرلیں کہ اگر حلیم عادل شیخ نے بھی ایسا ہی کیا ہے تو بھی اس میں کیا برائی ہے۔ قانون سے قانونی انداز میں کوئی رعایت لیناایک قانونی عمل ہی کہلاتا ہے۔ پاکستان میں ایسی ایک نہیں، سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔
ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ تندرست کو بھی بیمار قرار دے کر جیل سے اسپتال منتقل کر دیا جاتا ہے اور بیچارے ڈاکٹر فوری علاج بھی شروع کر دیتے ہیں۔ تحریک انصاف خود ایسے وی آئی پی بیماروں کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہے اور ان کا نعرہ رہا ہے کہ وہ اس وی آئی پی کلچر کو ختم کریں گے۔ جیل میں سب قیدی برابر ہوں گے اور اثر و رسوخ کی وجہ سے لوگوں کو اسپتال منتقل نہیں کیا جائے گا۔
سندھ اسمبلی کے قائد حزب اختلاف پہلے سیاسی رہنما نہیں ہیں جو قیدہیں۔ پنجاب کے قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز دو سال سے قید ہیں۔ قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف شہباز شریف بھی کئی ماہ سے قید ہیں۔ حمزہ شہباز کو جیل میں کورونا ہو گیا لیکن انھیں جیل سے اسپتال نہیں منتقل کیا گیا۔ سب جانتے ہیں کہ شہباز شریف کینسر کے مریض ہیں۔ ٹیسٹ کے لیے انھیں دوران قید کینسر اسپتال لایا گیا لیکن ٹیسٹ کے بعد فوری طور پر انھیں جیل منتقل کر دیا گیا۔ انھیں جیل سے اسپتال منتقلی کی رعایت نہیں دی گئی۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی ملاقاتوں پر بھی پابندی ہے۔ اس کو کیا ایک پاکستان کہا جا سکتا ہے۔
سندھ میں اگر اپوزیشن کی تجاوزات گرائی گئیں تو تحر یک انصاف نے بہت شور مچایا۔ حالانکہ انھیں تو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے تھا کیونکہ جب پنجاب میں آپ اپوزیشن کی تجاوزات گرا رہے ہیں توسندھ میں آپ اپوزیشن کی تجاوزات گرانے پر اعتراض کیسے کر سکتے ہیں۔ حالانکہ پنجاب میں تو اعلیٰ عدلیہ کی اس حوالے سے کوئی ہدایات بھی نہیں ہیں جب کہ سندھ میں تو سپریم کورٹ نے واضع ہدایات دی ہوئی ہیں۔ میں ذ اتی طور پر جمہوری نظام میں قائد حزب اختلاف کو گرفتار کرنے اور جیل میں ڈالنے کے سخت خلاف ہوں۔
قائد حزب اختلاف کو بھی قائد ایوان کی طرح ہی عزت و احترام حاصل ہونا چاہیے۔ قائد حزب اختلاف کے بغیر بھی جمہوریت کا کوئی تصور نہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس وقت ملک کی تینوں بڑی اسمبلیوں قومی اسمبلی، پنجاب اسمبلی اور سندھ اسمبلی کے قائد حزب اختلاف قید ہیں۔ یہ پاکستان کی جمہوریت کے لیے کوئی نیک شگون نہیں۔ اپوزیشن کے بغیر ملک میں جمہوریت کی گاڑی نہیں چل سکتی۔ حکومتوں کو اپوزیشن کا اور بالخصوص قائد حزب اختلاف کا احترام کرنا سیکھنا ہوگا۔
انھیں اس طرح دو دو سال جیل میں رکھنا جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومتیں اپنے اپوزیشن لیڈر ز کے پروڈکشن آرڈر بھی نہیں جاری کرتی ہیں۔ یہ بھی کوئی درست قدم نہیں ہے۔ اس کی بھی تعریف نہیں کی جا سکتی۔ آپ جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں۔ پنجاب اور مرکز میں تحریک انصاف نے اپوزیشن لیڈرز کے ساتھ جو سلوک کیا ہے، وہی آج سندھ میں ان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ انھیں اب بھی سمجھنا چاہیے کہ وقت کا پہیہ بدلنے میں دیر نہیں لگتی، یہ وقت ان پر بھی آ ہی جائے گا۔