اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے گزشتہ روز اسلام آباد کی تمام عدالتیں بند کر دی تھیں لیکن آج عدالتیں معمول کے مطابق کھلیں گی۔
وکلا کے چیمبرز گرائے جانے کے حوالے سے شروع ہونے والا تنازعہ اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ محترم چیف جسٹس کو عدالتیں بند کرنے کا حکم جاری کرنا پڑ گیا۔ شکر ہے کہ یہ معاملہ طول نہیں پکڑا اور صورتحال بہتر ہوگئی ہے۔ نظام انصاف کو ملک کی بقا کا ضامن بھی سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ ناانصافی پر مشتمل معاشرے کو کسی بیرونی دشمن کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنی تباہی کے لیے خود ہی کافی ہوتا ہے۔
اسلام آباد واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی پاکستان میں ایسے واقعات رونما ہوتے نظر آتے رہتے ہیں۔ کچھ سال پہلے جب خواجہ شریف لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تب بھی سیشن جج لاہور کے ساتھ وکلا نمایندوں کے تنازعہ میں ان کے دفتر پر حملہ ہوا تھا۔ سیشن ججز کی عدالتوں پر وکلا نمایندوں کے حملے تو اکثر نظر آتے ہیں۔ یہاں یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ سیشن جج کے پاس اپنے ضلع میں وہی اختیارات ہوتے ہیں جو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے پاس ہوتے ہیں۔
وہ اپنے ضلع کا ایک طرح سے چیف جسٹس ہی ہوتا ہے۔ ماضی قریب میں ہم نے ماتحت عدلیہ کے ججز کو بھی ہڑتال کرتے دیکھا ہے اور مقدمات کی سماعت سے انکار کرتے بھی دیکھا ہے۔ حالانکہ ایک مہذب معاشرے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان میں ہڑتالوں کا بھی ایک عجیب کلچر پیدا ہو گیا ہے۔ یہاں ڈاکٹر ہڑتال کرکے اسپتالوں کی تالہ بندی کر دیتے ہیں۔ یہاں اساتذہ ہڑتال کر دیتے ہیں اور تعلیمی درسگاہوں میں علم بانٹنا بند کر دیتے ہیں۔ سرکاری ملازمین دفاتر کو تالے لگا دیتے ہیں۔ پارلیمنٹ کو تالے لگا دیے جاتے ہیں۔ اور وکلا تو آئے روز عدالتوں میں ہڑتالیں کراتے رہتے ہیں۔ ہڑتال کلچر نے پاکستان میں ضروری اور غیر ضروری کام کی تمیز ہی ختم کردی ہے۔ کیا کسی مہذب معاشرے میں ڈاکٹرز اور عدالتوں کی ہڑتال کا کوئی تصور موجود ہے۔ لیکن پاکستان میں ہم یہ دونوں کلچر تیزی سے پھیلتے دیکھتے ہیں۔
ہم اکثر سنتے ہیں بار اور بنچ عدلیہ کے دو ستون ہیں۔ جب تک بار اور بنچ ملکر کام نہیں کریں گے تب تک نظام انصاف فعال طریقہ سے کام نہیں کر سکتا۔ بار اور بنچ نظام انصاف کی بنیاد ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب ہم بار اور بنچ میں تعاون ختم ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ہم بار اور بنچ کے درمیان تناؤ دیکھ رہے ہیں۔
ہم بار اور بنچ کو حلیف کے بجائے حریف کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ ایک دوسرے پر بالادستی کی لڑائی میں ایک دوسرے کے دست و گریبان دیکھ رہے ہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ بار اور بنچ کے ذمے داران کو اکٹھے بیٹھ کر ملک کے نظام عدل کو چلانے کے لیے ایک نئے کوڈ آف کنڈکٹ پر دستخط کرنے چاہیے۔ ایک دوسرے کے احترام کے نئے قواعد طے کرنے چاہیے۔ اپنے اندر سے گند صاف کرنے کے لیے ملکر لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ لیکن افسوس ابھی تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ اس لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ حالات دن بدن پستی کی طرف جا رہے ہیں۔ اور ہم آئے روز پستی کی نئی حدیں عبور ہوتی دیکھ رہے ہیں۔
جہاں تک عدالت کے احاطہ میں وکلا کے ناجائز چیمبرز کا سوال ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ان چیمبرز کو بننا ہی نہیں چاہیے تھا۔ ان کا بننا نظام انصاف کی کمزوری کا عکاس ہے۔ عدالتوں کے احاطوں میں وکلا کے چیمبرز کا کسی مہذب معاشرے میں کوئی تصور نہیں ہے۔ پھر ناجائز چیمبرز تو اور بھی بڑا جرم ہے۔ اس لیے ناجائز عمارتیں گرانا ایک درست قدم تھا۔ جسے جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔
میری چیف جسٹس پاکستان سے درخواست ہے کہ وہ چاروں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کا اجلاس بلائیں اور پاکستان بھر کی تمام عدالتوں کے احاطوں سے وکلا کے جائز اور ناجائز چیمبر ختم کرنے کا حکم جاری کریں تا کہ ایسا نہ لگے کہ صرف اسلام آباد کے وکلا کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک ہوا ہے۔
عدالتوں کے احاطوں میں چیمبر عدالتوں کے وقار کے منافی ہیں اور سیکیورٹی کے لیے رسک بھی ہیں، اس لیے عدالتوں کے احاطوں میں قائم چیمبر کو باہر منتقل کرنا ہی نظام انصاف کو ٹھیک کرنے کی طرف پہلا قدم بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے بار اور بنچ کے درمیان بالادست کی لڑائی بھی جا ری ہے۔
بار کے نمایندے سمجھتے ہیں کہ بطور بار کے نمایندے اول تو وہ بنچ سے بالادست ہو جاتے ہیں۔ اگر بالادست نہیں تو ہم پلہ ضرور ہو جاتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ججز کی توہین کے واقعات تو اب عام ہو گئے ہیں۔ خواتین ججز کے ساتھ بدتمیزی کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ دنوں پنجاب کے سرکاری افسران نے بھی ججز کے خلاف ہڑتال کر دی کیونکہ ایک اسسٹنٹ کمشنر کے عدالت میں پیش نہ ہونے کی بنا پر متعلقہ جج صاحب نے ان کے وارنٹ جاری کر دیے تھے۔ اس لیے کہیں نہ کہیں عدلیہ کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ نظام عدل ایسے نہیں چل سکتا۔
جب تک بار اوربنچ کے درمیان نیا کوڈ آف کنڈکٹ طے نہیں ہوجاتا۔