پیپلزپارٹی پنجاب میں دوبارہ فعال ہونے کی بہت کوشش کر رہی ہے۔ شاید مسلم لیگ (ن) سندھ میں فعال ہونے کی اتنی کوشش نہیں کر رہی ہے، جتنی پیپلزپارٹی پنجاب میں کر رہی ہے۔
حال ہی میں بلاول بھٹو نے جنوبی پنجاب کا دورہ کیا ہے۔ جہاں انھوں نے اچھے خاصے بڑے جلسوں سے خطاب کیا ہے۔ جنوبی پنجاب ایک وقت میں پیپلز پارٹی کا مضبوط گڑھ رہا ہے۔ پیپلزپارٹی وہاں سے سیٹیں جیتتی رہی ہے۔
جیسے پیپلزپارٹی کا وسطیٰ پنجاب سے صفایا ہوا، ویسے ہی جنوبی پنجاب سے بھی صفایا ہو گیا لیکن اب پیپلزپارٹی کا خیال ہے کہ وسطیٰ پنجاب میں ووٹ بینک بحال ہو یا نہ ہو لیکن جنوبی پنجاب میں بحالی ممکن ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی نے اپنے دور حکومت میں جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا ایشو بھی اٹھایا۔ یوسف رضا گیلانی نے اپنے دور وزارت عظمیٰ میں جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی بہت بات کی۔ ایک کمیشن بھی بنایا۔ پارلیمنٹ کی کمیٹی بھی بنائی۔ لیکن وہ کوئی عملی پیش رفت نہیں کر سکے۔ شاید وہ جنوبی پنجاب کے عوام کا بھی دل نہیں جیت سکے۔
یوں پیپلزپارٹی کا جنوبی پنجاب سے سیاسی صفایا ہوگیا۔ حتیٰ کہ یوسف رضا گیلانی کے لیے اپنی سیٹ جیتنا بھی مشکل ہو گئی۔ جنوبی پنجاب سے پیپلزپارٹی کے باقی امیدوار بھی انتخاب ہار گئے اور پھر سب تحریک انصاف میں چلے گئے۔
دیکھا جائے تو پنجاب اور بالخصوص جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی کو جتنا نقصان پہنچایا ہے، اتنا کسی اور نے نہیں۔ پیپلزپارٹی کے جیتنے والے امیدوار بھی تحریک انصاف لے گئی ہے۔ اس لیے اگر پیپلزپارٹی کو جنوبی پنجاب میں اپنی پوزیشن بحال کرنی ہے تو اسے پہلی بات تو تحریک انصاف سے اپنے جیتنے والے امیدوار واپس حاصل کرنا ہوں گے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں اپنا ووٹ بینک کیسے بحال کر سکتی ہے۔ یہ ایک مشکل صورت حال ہے۔ پنجاب میں ووٹ بینک کی بحالی آسان نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت نے اپنے دور اقتدار میں پنجاب کو بہت زیادہ نظر انداز کیا ہے۔
اسی کی قیمت پیپلزپارٹی آج ادا کر رہی ہے۔ ووٹ بینک ایک دفعہ ہاتھ سے نکل جائے تو دوبارہ اس کی واپسی ناممکن ہی ہوتی ہے۔ ووٹ بینک ایک اعتماد کا رشتہ ہوتا ہے۔ لوگ اس اعتماد پر ہی آپ کو ووٹ ڈالتے ہیں۔ اعتماد ایک دفعہ ختم ہو جائے تو دوبارہ بننا مشکل ہو تا ہے۔ آپ دیکھیں بھٹو کی پھانسی کے بعد بھی یہ اعتماد قائم رہا۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد بھی قائم رہا۔ آخر ایسا کیا ہوا کہ بعد میں ختم ہوا۔ پیپلزپارٹی کو ان عوامل پر غور کرنا چاہیے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنی سیاسی ضروریات کے تحت پیپلزپارٹی سندھ کارڈ بھی کھیلتی رہے۔ پنجاب کی مخالفت بھی کرتی رہے۔ پانی اور ڈیم جیسے ایشوز پر وہ پنجاب کی کھلم کھلا مخالفت کریں۔ پنجاب کی تقسیم کی بات بھی کریں اور پھر پنجاب میں ووٹ بینک کی بحالی کوشش بھی کریں۔
پیپلزپارٹی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ انھیں پنجاب کے حوالے سے اپنی پالیسی بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف پنجاب کے دورے کافی نہیں ہیں۔ جیتنے والے امیدواروں کی بھی ووٹ بینک کے بغیر واپسی ممکن نہیں۔ بلاول کے حالیہ دورہ جنوبی پنجاب میں ڈیرہ غازی خان کا کھوسہ خاندان پیپلزپارٹی میں شامل ہوا ہے۔
کھوسہ خاندان نے گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف میں شامل ہونے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ کھوسہ خاندان کافی عرصہ سے سیاسی تنہائی کا شکار ہے۔ اسی لیے ان کے پاس بھی ن لیگ اور تحریک انصاف سے علیحدگی کے بعد پیپلزپارٹی کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔ سیاسی اعتبار سے کھوسہ خاندان کے لیے یہی بہترین فیصلہ تھا لیکن کھوسہ خاندان کا شامل ہونا کوئی اتنی بڑی کامیابی نہیں ہے کہ اس کو جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کی بحالی قرار دے دیا جائے۔
اس لیے بلاول بھٹو کو جہاں جیتنے والے امیدوار بھی شامل کرنے ہیں وہاں ووٹ بینک بھی بنانا ہے۔ انھیں پنجاب کی عوام کو کوئی ایسا نعرہ دینا ہے جس کے پیچھے وہ انھیں دوبارہ ووٹ ڈالنے پر تیار ہو جائیں۔ سندھ کی حکومت اور انداز حکومت پر پنجاب میں ووٹ بینک بحال نہیں ہو سکتا بلکہ مزید کم ہی ہو سکتا ہے۔ اس وقت پنجاب میں اسٹبلشمنٹ مخالف سیاست نواز شریف کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ووٹ بینک بھی ان کے پاس ہے۔ اسٹبلشمنٹ کی حمایت یافتہ سیاست تحریک انصاف کر رہی ہے۔ ان کے پاس بھی ووٹ بینک اور جیتنے والے امیدوار دونوں ہی ہیں۔ اس کے ساتھ ان کے پاس پنجاب کی حکومت بھی ہے۔
بلاول پنجاب کی عوام کو کیا پیغام دے رہے ہیں کہ وہ انھیں کیوں ووٹ دیں؟ کیا وہ انھیں اس لیے ووٹ دیں کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ہیں۔ اس حوالے سے پنجاب کی عوام کے پاس تحریک انصاف کا بہترین آپشن پہلے ہی موجود ہے۔ اسٹبلشمنٹ کے حامی سب تحریک انصاف کے ساتھ ہیں، وہ کیوں تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑ کر اسٹبلشمنٹ کی بی ٹیم کے ساتھ ہو جائیں۔
وہ بھی تب جب اے ٹیم موجود ہے۔ اگر بلاول یہ سمجھا رہے ہیں کہ وہ جمہوری اور اینٹی اسٹبلشمنٹ ہیں تو پیپلزپارٹی کی پالیسیاں اس کی نفی کر رہی ہیں۔ اسٹبلشمنٹ مخالف ووٹ بینک کے لیے فی الحال پنجاب اور جنوبی پنجاب کے عوام کے پاس نواز شریف اور ن لیگ ہے۔ اس لیے ایک ایسی جماعت اور لیڈر کو کیوں ووٹ دیا جائے جو درمیان میں کھڑا ہے۔ وہ اسٹبلشمنٹ کے مخالف ہونے کا دعویدار بھی ہے اور اس کے ساتھ تعاون بھی کر رہاہے۔
بلاول ایک کنفیوژ اور دو رخی سیاست کے ساتھ پارلیمانی کامیابیاں تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن عوامی کامیابیاں ممکن نہیں۔ لوگ کنفیوژ سیاست پر ووٹ نہیں دیتے۔ لوگوں کو براہ راست اور سیدھی بات اور پالیسی کی سمجھ آتی ہے۔ لوگ کارکردگی پر بھی ووٹ دیتے ہیں۔ لیکن بلاول پنجاب کی عوام کو سندھ میں پیپلزپارٹی کی کارکردگی دکھا کر بھی ووٹ نہیں لے سکتے۔
جنوبی پنجاب کی سرحد پر سندھ میں ایسے کوئی اچھے حالات نہیں ہیں کہ لوگ سندھ پر رشک کرنا شروع کر دیں۔ سندھ سے لوگ جنوبی پنجاب آتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں کہ لوگ علاج یا تعلیم کے لیے جنوبی پنجاب سے سندھ جانا شروع کر دیں۔ جنوبی پنجاب کے لوگ سندھ کے بارڈر پر رہتے ہیں، انھیں سندھ کے حالات کا بخوبی علم ہے۔ شاید کارکردگی کی بنیاد پر بھی جنوبی پنجاب کے لوگوں کی ترجیح پیپلزپارٹی نہیں ہو سکتی۔ اب بھی پنجاب کارکردگی میں سندھ سے آگے ہے۔
ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو پورے ملک میں سیاست کرنے کا بھرپور حق ہے۔ یہی سیاست کا حسن ہے۔ میں بلاول کے پنجاب آنے سے خوش ہوں۔ یہ جمہوریت کا مثبت پہلو ہے۔ مجھے دکھ ہے کہ ن لیگ سندھ جانے کی کوشش نہیں کرتی۔ لیکن جہاں بلاول کا پنجاب آنا خوش آیند ہے۔ وہاں انھیں پنجاب کے سیاسی تقاضوں کو بھی سامنا رکھنا چاہیے۔ انھیں پنجاب میں پنجاب کے عوام سے پیپلزپارٹی کے لازوال رشتہ بحال کرنے کے لیے پیپلزپارٹی کی پرانی پالیسیاں بھی بحال کرنا ہوں گی۔ لوگوں کی ناراضگیوں کی وجوہات تلاش کرنا ہوگی۔ انھیں دور کرنے کے لیے اقدامات کرنا چاہیے۔
پیپلزپارٹی کی پنجاب کی قیادت میں تبدیلی بھی کی گئی ہے۔ پہلے بھی جب تبدیلی کی گئی تھی میں نے لکھا تھا کہ پرانی شراب نئی بوتل میں ہے۔ اب بھی یہی بات ہے کہ پرانی شراب نئی بوتل میں ہے۔ پیپلزپارٹی کو نوجوان قیا دت کی ضرورت ہے جو پنجاب کے نوجوان کو اپنی طرف متوجہ کر سکے۔ پرانے انکلز کے بس کی بات نہیں ہے۔ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف وزارت عظمیٰ کے باجود پنجاب کو قائل نہیں کر سکے۔ اب کیا کریں۔ بلاول کو نوجوان اور قابل لوگوں کو آگے لانا ہو گا۔