Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Karachi Ke Asal Masail Aur Unka Hal

Karachi Ke Asal Masail Aur Unka Hal

پی ڈی ایم نے کراچی میں ایک اچھا جلسہ کیا ہے لیکن اس کامیاب جلسے میں کراچی کے اصل مسائل پر مقررین نے بات نہیں کی ہے۔ حکومت تو پہلے ہی کراچی کے اصل مسائل پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ مردم شماری ہے۔ جب تک کراچی کی درست مردم شماری نہیں کی جاتی تب تک کراچی کی ترقی و خوشحالی ممکن نہیں ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ پی ڈی ایم نے بھی کراچی کے لیے نئی اور درست مردم شماری پر بات نہیں کی ہے۔ اگر درست مردم شماری ہو جائے تو کراچی کو تمام حقوق مل جائیں گے۔ سب جانتے ہیں کہ اگر کراچی کی درست مردم شماری ہو جائے گی تو کراچی اندرون سندھ کے وڈیروں کی حاکمیت سے نکل جائے گا۔ سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی کو جان بوجھ کر وڈیروں، جاگیرداروں اور سیاستدان گدی نشینوں کی حاکمیت میں رکھا جا رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کر اچی کو اس کے جائز حقوق بھی نہیں مل رہے ہیں۔ جب کراچی کی درست مردم شماری کی جائے گی تب ہی کراچی شہر کے باسیوں کو ان کا جائز سیاسی حق مل سکے گا۔ حیرانی کی بات ہے کہ کراچی کی نمایندگی کی دعویدار سیاسی جماعتیں بھی کراچی کی مردم شماری کے لیے اس طرح آواز نہیں اٹھاتیں جیسی انھیں اٹھانی چاہیے۔ وہ ہلکی پھلکی بات تو کرتی ہیں لیکن یہ بات بھرپور سیاسی طاقت سے نہیں کی جاتی بلکہ محض رسماً کی جاتی ہے کہ بس ریکارڈ پر رہے، ہم نے یہ بات کی تھی۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ پی ڈی ایم کی قیادت جلسے میں کراچی کی مردم شماری کے لیے آواز اٹھاتی، اس کے لیے کوئی ڈیڈ لائن دی جاتی کہ اگر مقررہ تاریخ تک کراچی کی دوبارہ مردم شماری نہیں کی جائے گی تو پی ڈی ایم تحریک چلائے گی۔ ویسے تو اس موضوع پر کراچی کی نمایندہ کہلانے والی جماعتوں کو تحریک چلانی چاہیے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کی کسی نے زبان بندی کی ہوئی ہے۔ ان کو سب ہر بات کرنے کی اجازت ہے سوائے کراچی کی مردم شماری کے۔ جب معاملہ تھوڑ ابہت گرم ہوتا ہے، پیپلزپارٹی بھی مردم شماری کی بات کرنا شروع کر دیتی ہے۔ ایسے جیسے وہ اس ایشو ہائی جیک کرنا چاہتے ہیں اور پھر جب ٹھنڈا ہو جائے وہ بھی اسے چھوڑ دیتے ہیں۔

کراچی منی پاکستان ہے لیکن اس منی پاکستان کی ترقی کے لیے نئے اقدمات کی ضرورت ہے۔ ایک وقت تھا جب کراچی کا امن ہی کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ لیکن آج کراچی میں امن آچکا ہے۔ اب ترقی کی بات ہونی چاہیے تا ہم یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ جب تک کراچی اندرون سندھ کے روایتی سیاستدان طبقے کی حاکمیت میں ہے تب تک پورا سندھ بالخصوص کراچی کی ترقی ممکن نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کراچی کو سندھ سے علیحدہ کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ یہ تب تک ممکن نہیں جب تک کراچی کی درست مردم شماری نہیں کی جاتی۔ ایک دفعہ کراچی کی درست مردم شماری ہو گئی تو کراچی پر دیہی اشرافیہ کی حاکمیت خود بخود ختم ہو جائے گی۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ کراچی، حیدر آباد، سکھر دیگر شہروں کی صوبائی نشستیں اتنی ہوجائیں کہ سندھ کی وزارت اعلیٰ شہری سندھ سے منتخب جائے۔

آج کراچی میں بلدیاتی نظام حکومت بھی نہیں ہے۔ ویسے تو پورے ملک میں بلدیاتی حکومت قائم نہیں ہے۔ کراچی کی کیا بات کی جائے، لاہور، پشا ور، کوئٹہ میں بھی بلدیاتی حکومتیں نہیں ہیں۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بلدیا تی حکومت کے حوالے سے کراچی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔

پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف سمیت تمام وہ سیاسی جماعتیں جو اس وقت اقتدار میں ہیں، کوئی بھی بلدیاتی حکومت قائم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ امر بھی نہایت افسوسناک ہے کہ ملک میں اٹھارویں ترمیم اور صوبائی خو د مختاری کے لیے آواز اٹھانے والی جماعتیں بھی اپنے اپنے صوبوں میں مضبوط بلدیاتی نظام قائم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مضبوط وفاق کے خلاف آواز ٹھانے والے سیاستدان اپنے لیے مضبوط صوبائی حکومت کے دفاع میں توکھڑے نظر آتے ہیں لیکن بااختیار بلدیاتی نظام کی بات نہیں کرتے۔

یہ بات بھی نہایت افسوسناک ہے کہ پنجاب کی تقسیم کی بات تو بہت زور شور سے کی جاتی ہے لیکن جب سندھ کی تقسیم کی بات کی جائے تو پیپلز پارٹی اور قوم پرست جماعتیں اسے سندھ دشمنی کہنا شروع کر دیتی ہیں۔ اسی خیبر پختونخوا اور بلوچستان نئے صوبے بنانے کی بات کی جائے تو قوم پرست سیاستدان کونے کھدروں سے باہر آجاتے ہیں۔ اگر پنجاب کی تقسیم کی بات کرنا پنجاب دشمنی نہیں ہے تو سندھ دشمنی یا خیبرپختونخوا اور بلوچستان دشمنی کیسے ہے۔

پنجاب میں تواس وقت جنوبی پنجاب سے وزیر اعلیٰ ہیں۔ کیا اندرون سندھ کے سیاسی حاکم کراچی سے وزیر اعلیٰ لا سکتے ہیں؟ اگر پنجاب میں جنوبی پنجاب سے وزیر اعلیٰ آسکتا ہے تو سندھ میں کراچی سے وزیر اعلیٰ کیوں نہیں آسکتا۔ اگر پنجاب میں جنوبی پنجاب کو اس کی آبادی کے تناسب سے زیادہ فنڈز مل سکتے ہیں تو سندھ میں کراچی کو اس کا حصہ کے جائز فنڈز کیوں نہیں مل سکتے۔ جب صوبائی خود مختاری کی آواز اٹھانے والی جماعتیں صوبوں کے لیے حق مانگتی ہیں تو وہ اپنے اپنے صوبوں میں علاقوں کو وہی حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ جو وسائل جہاں سے پیدا ہوتے ہیں ان پر سب سے پہلے اس علاقے کا ہی حق ہے تو پھر کراچی کے وسائل پر کراچی کے شہریوں کا حق کیوں نہیں ہے۔

لاہور، کراچی کا ہمیشہ ہی چھوٹا بھائی رہا ہے۔ کراچی کی حیثیت بڑے بھائی کی رہی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ دہائی میں لاہور کی ترقی پر جس قدر توجہ دی گئی ہے، کراچی پر نہیں دی گئی۔ لاہور کے بنیادی مسائل کراچی کی نسبت زیادہ بہتر انداز میں حل ہوئے ہیں۔ ایک طرف لاہور کو یہ طعنہ سننا پڑا ہے کہ لاہور میں پنجاب کے باقی علاقوں کے فنڈز بھی لگا دیے گئے ہیں جب کہ دوسری طرف کراچی پر کراچی کے فنڈز بھی نہیں لگائے جا سکے ہیں۔ لاہور کی صفائی کراچی کے لیے مثال بن گئی۔ لاہور کی سڑ کیں مثال بن گئیں۔ آج ایک طرف سندھ کے کراچی کے ساتھ استحصال کی بات کی جاتی ہے دوسری طرف لاہور کو بے وجہ نوازنے کی بات کی جاتی ہے۔ یہ دو عجیب منظر نامے ہیں۔

لاہور کو کبھی کراچی جیسے مسائل کا سامنا نہیں رہا۔ پنجاب کے کسی بھی ریجن سے وزیراعلیٰ لاہور نے کبھی شکوہ نہیں کیا اور نہ کسی وزیراعلیٰ نے لاہور کو نظرانداز کیا ہے۔ مطلب پنجاب کی وزارت اعلیٰ ہمیشہ لاہور کے پاس نہیں رہی ہے۔

قیام پاکستان سے لے کر اب تک لاہور شہر سے صرف تین وزیراعلیٰ رہے ہیں جن میں حنیف رامے، میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف شامل ہیں، چوہدری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ رہے، ان کا تعلق گجرات سے ہے۔ سردار عارف نکئی کا تعلق قصور ایک گاؤں سے تھا جب کہ غلام حیدر وائیں بھی لاہور کے نہیں تھے۔ مصطفی کھر، نواب صادق حسین قریشی، سجاد حسین قریشی، دوست محمد کھوسہ اور سردار عثمان بزدار کا تعلق پنجاب کے جنوبی ریجن سے ہے لیکن پنجاب کا وزیر اعلیٰ کہیں سے بھی ہو، وہ لاہور کی ترقی پر توجہ دینے پر مجبور رہا ہے۔

دوسری طرف کراچی پر حکومت کے لیے ہمیشہ اندرون سندھ سے وزیر اعلیٰ آئے ہیں۔ ان کا تعلق مختلف جماعتوں سے رہا ہے لیکن ان کی کراچی کے حوالے سے پالیسی یکساں رہی ہے۔ سب نے کراچی کو اول ترجیح میں نہیں رکھا۔ شاید پیپلزپارٹی اور سندھ کی سیاسی جماعتوں کو علم ہے کہ اگر کراچی ان کے ہاتھ سے نکل گیا تو باقی سندھ کی سیاسی حیثیت بلوچستان سے بھی کم ہوگی۔ میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ پی ڈی ایم کو کراچی کی نئی مردم شماری کی بات کرنی چاہیے تھی۔ اس کے لیے کراچی کی حد تک تحریک چلانے کی بات کرنی چاہیے تھی۔ اگر وہ یہ کرتے تو باقی تمام جماعتوں کو ان کے پیچھے کھڑا ہونا پڑتا۔ کراچی کے لیے ہمیں حکومت کا ایک نیا ماڈل دینا ہوگا۔ یہی کراچی کے مسائل کا حل ہے۔