ملک بھر سے پبلک مقامات پر خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ ایک نہیں کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔ میں نے شروع میں اس پر نہیں لکھا۔
تاہم میں سمجھتا ہوں کہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے حکومت کی جانب سے جو اقدمات کیے جا رہے ہیں وہ غلط ہیں۔ پبلک مقامات اور بالخصوص پارکس میں ٹک ٹاک بنانے پر پابندی جیسے اقدمات درست نہیں۔ اس سے نہ تو معاشرے کی اصلاح ہو گی اور نہ ہی پاکستان کوئی بہتر معاشرہ بن سکے گا۔
آج کم از کم پنجاب اور دیگر بڑے شہروں میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ انھیں تعلیم کے بھی برابر مواقعے حاصل ہیں۔ وہ تمام شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔ ان کے لیے ملازمت کے مواقعے بھی بن گئے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ کے پی اور بلوچستان میں ابھی یہ ماحول نہیں ہے۔
وہاں خواتین کے تعلیم حاصل کرنے ملازمت کرنے کے حوالے سے وہ سہولیات ابھی نہیں ہے جو پنجاب اور سندھ میں ہیں۔ وہاں کی خواتین کو ابھی بھی ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں اس وقت دو طرح کا معاشرہ ہے۔ ایک جہاں خواتین کو کافی حد تک اپنے حقوق مل گئے ہیں۔ اور ایک وہ علاقہ جہاں ابھی بھی خواتین کو حقوق حاصل نہیں ہیں۔ ہم ابھی تک اس حوالے سے پورے پاکستان میں یکساں ماحول نہیں بنا سکے ہیں۔
بہر حال واقعات بھی ان علاقوں میں ہوئے ہیں جہاں نسبتا خواتین کو بہتر حقوق حا صل ہیں۔ جہاں خواتین کے لیے بنیادی تعلیم ہی نہیں اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھل گئے ہیں۔ جہاں خواتین کے لیے ملازمت کے مواقعے بن گئے ہیں۔ اس لیے میں آج ان علاقوں کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ابھی تک خواتین کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
کیا وجہ ہے ہمارا مرد ابھی خواتین کو جنسی طور ہراساں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آخر کہیں نہ کہیں تو کوئی غلطی ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ ہم فضول بحث میں الجھ گئے ہیں کہ خاتون کا لباس اچھا نہیں تھا۔ خاتون نے ایسی حرکت کی تو پھر ہجوم نے مشتعل تو ہونا ہی تھا۔ ہمیں تو معاشرے کو ایسی مضبوط بنیادوں پر تیار کرنا ہے کہ خاتو ن نے لباس جیسا بھی پہنا ہو، ریاست کی ذمے داری ہے اسے ہر حالت میں محفوظ بنائے جب کہ معاشرے کا کام ہے، اس کی طرف گندی اور بری نظر سے نہ دیکھے۔ اس لیے لباس کی بحث فضول ہے۔
میں سمجھتا ہوں یہ اصل بات سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ہم خواتین کو زندگی کے ہر شعبہ میں مردوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے مواقعے پیدا کر رہے ہیں۔ جب ان کے لیے زندگی کے ہر شعبہ میں برابری کے مواقعے پیدا کر رہے ہیں۔
جب ہم ہر دفتر میں خواتین کے لیے ملازمت کے مواقعے بنا رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ ہر دفتر میں خواتین اور مرد ملکر کام کریں۔ ہم سمجھ گئے ہیں کہ ملک کی آدھی آبادی کو گھر بٹھا کر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ تو ہم نے تعلیمی اداروں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے اکٹھے تعلیم حا صل کرنے پر پابندی کیوں لگا رکھی ہے۔ جب مردوں اور عورتوں نے ہر جگہ اکٹھے کام کرنا ہے تو پھر اکٹھے تعلیم کیوں نہیں حاصل کرنی ہے۔ عجیب بات ہے کہ اوپر سے تو معاشرہ کو اکٹھا کر رہے ہیں۔
لیکن ہم نے نیچے بنیاد سے اسے الگ الگ رکھا ہوا ہے۔ کیوں ہمارے تعلیمی اداروں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے اکٹھے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ہے۔ جب بچپن سے بچے دیکھتے ہیں کہ لڑکوں کے الگ اسکول ہیں۔ لڑکیوں کے الگ اسکول ہیں تو ہم اپنے بچوں کی کیا تربیت کر رہے ہیں۔ جب جوانی میں وہ دیکھتے ہیں کہ کالجز میں بھی لڑکے اور لڑکیاں الگ الگ ہیں تو بھی ان کے ذہن بن جاتے ہیں کہ یہ دونوں کوئی الگ الگ مخلوق ہیں جو اکٹھے نہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی اکٹھے چل سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہم چاہتے ہیں کہ وہ عام زندگی میں اکٹھے چلیں۔
پاکستان میں آج کل یکساں نصاب تعلیم کی بہت بات کی جا رہی ہے۔ میں یکساں نصاب کا حامی ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ امیر اور غریب کے بچے کا تعلیمی نصاب ایک ہی ہونا چاہیے۔ تا کہ ان کے پاس تعلیمی میدان میں مقابلہ کرنے برابر مواقعے ہوں۔ جب تک نصاب ایک نہیں ہوگا تب تک مقابلے برابر کے نہیں ہو سکتے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے سرکاری اسکول الگ الگ ہیں۔
میری رائے میں پہلے مرحلہ میں لڑکے اور لڑکیوں کے الگ الگ اسکول ختم کرنا ہوں گے۔ سب اسکولوں میں لڑکوں اور لڑکیون کی برابر تعداد ہونی چاہیے۔ اسی طرح پبلک سیکٹر میں لڑکے اور لڑکیوں کے کالج بھی الگ الگ ہیں۔ جب کہ اس کے مقابلہ میں پرائیویٹ سیکٹر کے کالجز میں مخلوط نظام تعلیم رائج ہو چکا ہے۔
اب دو طرح کے نظام کام کر رہے ہیں۔ تا ہم میری درخواست ہے کہ سرکار اپنے تمام اسکول اور کالجز میں مکمل طور پر مخلوط نظام تعلیم رائج کرے۔ یہ کیا ماجرہ ہے کہ امیروں کے بچے تو اکٹھے پڑھیں اور غریب اور متوسط طبقہ کے بچے الگ الگ پڑھیں۔ یہ دہرا نظام پاکستان کے لیے ٹھیک نہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری خواتین آگے چل کر زندگی کے ہر شعبہ میں مردوں کے ساتھ کام کریں تو ہمیں بچپن سے انھیں اکٹھے چلانا ہوگا۔
مینار پاکستان میں جو واقع ہوا ہے اس کی بنیاد بھی یہی ہے کہ ہم نے اپنے معاشرے میں مرد اور خواتین کی اکٹھے تفریح کرنے کی تربیت ہی نہیں کی ہے۔ نوجوانوں کا خواتین کے ساتھ کوئی interactionہی نہیں ہوتا۔ نہ تعلیم میں نہ گھر میں نہ معاشرے میں۔ ایسے میں ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ مہذب بن جائے۔
ضیاء الحق کی آمریت میں اسکولوں میں مخلوط تعلیم ختم کی گئی تھی اور ہم نے ضیاء کی آمریت سے تو جان چھڑا لی لیکن اس کے کئی فیصلے آج بھی ہمارے لیے مشکل بنے ہوئے ہیں۔ مخلوط نظام تعلیم ہی پاکستان کی نوجوان نسل کو قدم سے قدم ملا کر اکٹھے چلنے کے لیے تیار کر سکتا ہے۔
پارکوں میں ٹک ٹاک پر پابندی لگانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کا سلیقہ سکھانے سے مسائل حل ہوں گے اور یہ سلیقہ بچپن سے ہی سکھایا جا سکتا ہے۔ جیسے پوری دنیا نے کیا ہے۔ ہم دنیا سے الگ کوئی ماڈل بنا کر کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں۔