پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنی سینٹرل ایگزیکٹو میں فیصلہ کیا تھا کہ حکومت کے خلاف پارلیمان میں لڑا جائے گا۔ اس فیصلے کی روشنی میں بلاول بھٹو اور آصف زرداری نے حکومت کے خلاف قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا ہے تاہم ن لیگ ابھی پیپلزپارٹی کی تجویز سے زیادہ متفق نہیں ہے۔ ن لیگ سمجھتی ہے کہ پارلیمان کے اندر سے تبدیلی کی کوئی امید نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کو پارلیمان سے کیوں امید ہے اور ن لیگ کو کیوں امید نہیں ہے۔ اس ضمن میں دونوں طرف کی سوچ اور دلائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ویسے تو موسم نے پی ڈی ایم کے سارے کھیل اور ٹائم لائن کو تباہ کر دیا ہے۔ شاید پی ڈی ایم کو تحریک شروع کرنے سے پہلے موسم کی اس قدر سنگینی کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ لیکن لاہور کے جلسے کے بعد ن لیگ اور مریم نواز اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ اس قدر سرد موسم میں بڑی تعداد میں لوگوں کو باہر لانا ممکن نہیں۔ حالانکہ لاہور کے جلسے سے پہلے مریم نواز نے خود بھی بہت محنت کی تھی۔
جلسے میں لوگ آئے ضرور لیکن شدید سردی کی وجہ سے بسوں سے میں ہی بیٹھے رہے اور پنڈال میں نہیں آئے، دیگر ادھر ادھر سردی سے بچ کر کھڑے رہے۔ لہٰذا حکومت کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ لوگ نہیں آئے۔ یوں پی ڈی ایم کے اندر بھی موسم زیر بحث آگیا۔
پھر موسم کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ طے ہوا کہ لانگ مارچ اور دھرنوں کو بہتر موسم تک ملتوی کیا جائے۔ جب لانگ مارچ اور دھرنے بہتر موسم کے انتظار تک ملتوی ہونا طے ہو گئے تو پیپلزپارٹی نے پارلیمان کے اندر کھیلنے کی بات شروع کی۔ میں یہ نہیں سمجھتا کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہی ہے بلکہ پیپلز پارٹی موسم کی بہتری تک کیا کرنا چاہیے تب تک کا روڈ میپ پی ڈی ایم کو پیش کر رہی ہے۔
پی ڈی ایم تمام بڑے شہروں میں جلسے کر چکی ہے۔ چھوٹے شہروں میں ریلیاں بھی ہو گئی ہیں۔ اب کیا کریں؟ پہلے پلان کے تحت تو اب اسلام آباد جانے کی کال دی جانی چاہیے۔ پیپلزپارٹی نے تو پی ڈی ایم کو اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے سے نہیں روکا ہے۔ انھوں نے تو نہیں کہا کہ لانگ مارچ نہ کریں۔
ابھی رک جانا اور کال کو تاخیر کا شکار کرنا موسم کی وجہ سے پی ڈی ایم کا اپنا فیصلہ ہے، اس میں پیپلزپارٹی کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ لانگ مارچ سے پہلے استعفیٰ نہ دینے کا فیصلہ بھی پی ڈی ایم کا ہے۔ اس میں پیپلزپارٹی کا تو کوئی دباؤ شامل نہیں۔ وہ تو صرف اتنا کہہ رہی ہے کہ استعفیٰ دے کر گھر تو نہیں بیٹھ جانا۔ اس لیے جب کھیل گرم ہو گا تب ہی استعفے دینے ہیں، اس میں کونسی غلط بات ہے۔ بات سیاسی منطق کی ہے۔ ابھی سخت سردی ہے۔ جلسے جلوس کیے نہیں جا سکتے۔ لانگ مارچ دھرنے کیے نہیں جا سکتے۔ ایسے میں استعفے د ے کر گھر بیٹھنے کو کون عقلمندی کہے گا۔
سینیٹ انتخابات پر بھی پیپلزپارٹی صرف یہ کہہ رہی ہے کہ اگر ہم اس حکومت کو گھر بھیج دیتے ہیں اور ملک میں دوبارہ انتخابات ہوتے ہیں تو سینیٹ تو قائم ہی رہے گا۔ کیا آئین میں کوئی ایسی شق موجود ہے جس کے تحت سینیٹ کو بھی قومی اسمبلی کے ساتھ توڑا جا سکے۔ اگر سینیٹ ٹوٹ نہیں سکتا تو سینیٹ انتخابات کے بائیکاٹ کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔
اگر سینیٹ انتخابات سے قبل استعفے نہیں دینے ہیں تو پھر سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف اور اس کے حواریوں کو فری میں واک اوور دینے کا کیا فائدہ ہے۔ اس لیے سینیٹ میں جتنی سیٹیں حاصل کی جا سکتی ہیں تو حاصل کرنی چاہیے۔ ان کو ضایع کرنے کا کیا فائدہ ہے۔ ضمنی انتخابات کے بارے میں بھی یہی بات ہے کہ جب استعفے دینے کا طے ہوگا، تب دے دیے جائیں گے، تب تک ضمنی انتخابات کا میدان خالی چھوڑنا کہاں کی عقلمندی ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ تاثر غلط لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے ساتھ کوئی سیاسی گیم کر رہی ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم جس سیاسی مشکل میں پھنس گئی ہے، پیپلزپارٹی اس سیاسی مشکل سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پیپلزپارٹی کا انداز درست نہیں ہے۔ انھیں یہ سار ے کام کرتے ہوئے سولو فلائٹ کا تاثر نہیں دینا چاہیے تھا۔ سولوفلائٹ کے اس تاثر نے کافی ابہام پیدا کیے ہیں۔ صحیح بات غلط انداز میں کرنے سے یہ تاثر بھی پیدا ہو گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کا دوبارہ اسٹبلشمنٹ سے مک مکا ہوگیا ہے۔ ویسے بھی ماضی قریب پیپلزپارٹی اور اسٹبلشمنٹ کی قربتوں کی ایسی گواہی دیتا ہے کہ عام آدمی کے لیے یہ یقین کرنا نہایت آسان ہے کہ ان کی دوبارہ صلح ہو گئی ہے۔
سیاسی مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ تحریک عدم اعتماد بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ طاقتور حلقے کھیل کو دوبارہ پارلیمنٹ میں لانا چاہتے ہیں۔ ن لیگ کے ان تحفظات میں بھی بہت وزن ہے کہ جب تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جائے گی تو کیا مخالفین یہ نہیں کہیں گے اب لانگ مارچ کھسیانی بلی کھمبا نوچنے کے مترادف ہے۔ ن لیگ پہلے ہی سنجرانی والی تحریک عدم اعتماد کا حشر دیکھ چکی ہے۔ اس لیے ان کی رائے میں جب تک لیول پلینگ گراونڈ نہیں ملتی، کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ادھر لیول پلینگ گراونڈ کی ابھی تک کسی کے پاس کوئی گارنٹی نہیں ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ان نتائج سے لیول پلینگ گراونڈ ہونے کی ایک مثال مل سکتی ہے۔ حکومت آج کل ویسے بھی اتحادیوں کو منانے پر کام کر رہی ہے۔ ق لیگ کو منانے کے لیے سینیٹ کی سیٹ دے دی گئی ہے۔
حالانکہ اگر ماضی کے ق لیگ اور عمران خان کے تعلقات کو سامنے رکھا جائے تو یہ ممکن نہیں تھا۔ ایم کیو ایم کو بھی منایا جا رہا ہے۔ حال ہی میں اسد عمر ایم کیو ایم کے پاس گئے بھی ہیں۔ انھیں ایک اور وزارت دی بھی جا رہی ہے۔ جی ڈی اے بھی ساتھ ہے۔ اس لیے ابھی تو سینیٹ انتخابات تک عدم اعتماد کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ البتہ اس کا اعلان ہی حکومت کی مشکلات میں اضافہ ضرور کرتا رہے گا۔ اتحادیوں کی قیمت دن بدن بڑھتی جائے گی اور عمران خان کے لیے مشکلات بڑھتی جائیں گی۔
لیکن پی ڈی ایم کو اپنے اہداف کے حصول کے لیے لانگ مارچ تک جانا ہی ہوگا۔ اس میں تاخیر پی ڈی ایم کے سیاسی غبارے میں سے ہوا نکال رہی ہے۔ پیپلزپارٹی اس ہوا کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ باقی جہاں تک اس منطق کا تعلق ہے کہ پیپلزپارٹی لانگ مارچ میں ساتھ نہیں ہوگی۔ ایسا ممکن نہیں۔ وہ ساتھ ہوگی اور استعفے تو تب ہی دینے ہیں جب لانگ مارچ کامیاب ہو جائے گا۔ وہاں تک ابھی بات ہی نہیں آئی۔ ابھی تو مارچ اپریل تک کیا کیا جائے کا مرحلہ ہے۔
پیپلزپارٹی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ چلی گئی ہے، جیسی باتیں بھی دراصل پی ڈی ایم کو توڑنے اور بد گمانی پیدا کرنے کی کوششیں ہیں۔ ن لیگ اور فضل الرحمٰن کو اس کا خیال رکھنا ہوگا۔ سیاست میں کئی بار جو نظر آتاہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا۔ اسی لیے شائد پی ڈی ایم ابھی تک قائم ہے۔